انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** عبدالرحمن ثالث کی عہد حکومت پر تبصرہ خلیفہ عبدالرحمن ثالث کازمانہ اندلس کی حکومت اسلامیہ کا نہایت شان دار زمانہ تھا ،ملک میں ہر طرف امن وامان کادوردورہ تھا ،تجارت کی بہت بڑی ترقی تھی،اہل اندلس نے افریقہ وایشیاء کے دور دراز مقامات پر اپنی تجارتی کوٹھیاں قائم کرلی تھیں ،بحری طاقت میں کوئی ملک اورکوئی قوم اندلس کا مقابلہ نہیں کرسکتی تھی،تمام سمندروں پر گویا اندلسی حکومت مسلمانوں کی تھی،اس خلیفہ نے اپنے سرداروں اوراہل کاروں کو شاہی اختیارات نہیں دیے بلکہ وہ خود ہر ایک اہم اور ضروری معاملہ کی طرف متوجہ ہوتا واراہل کاروں پر کاموں کو چھوڑ کر بے فکر نہیں ہوجاتا تھا اس نے ان عرب سرداروں اور فقیھہوں کی طاقت کو جوحکومت وسلطنت پر حاوی تھے بتدریج کم کرکے ان لوگوں کو جو خلیفہ کے ہمدرد خیر اندیش تھے بڑھایا اور اپنے ذاتی غلاموں کا ایک حفاظتی دستہ فوج بنایا خلیفہ کی نگاہ سے سلطنت کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا حصہ پوشیدہ نہیں رہتا تھا تمام جزئیات تک خلیفہ کی نظر پہنچ جاتی تھی۔ اس خلیفہ نے جو سب سے بڑا کام کیا وہ یہ تھا کہ مسلمانوں کی مختلف جماعتوں اور گروہوں میں جو مخالفت اورخانہ جنگی برپا رہتی تھی اس کو بالکل مٹادیا ہر ایک جماعت اورہر ایک گروہ کو اس کے مرتبے کے موافق سلطنت کی طرف سے حقوق حاصل تھے اور کوئی گروہ سلطنت کا دشمن نہ تھا آپس میں ایک دوسرے سے چھری کٹاری ہونا چاہتے تھے اسی میں خلیدہ عبدالرحمن ثالث کی کامیابیوں کاراز مضمر تھا اور یہی وہ چیز تھی جس کےسبب اندلسی مسلمانوں کی عطمت تمام دنیا کی نگاہوں میں پیدا ہوگئی تھی۔ اس خلیفہ کے زمانے میں غیر مسلم لوگوں یعنی عیسائیوں اور یہودیوں وغیرہ کے ساتھ نہایت مروت اورنرمی کابرتاؤ ہوتا تھا ،خلیفہ عبدالرحمن کی ححدود حکومت میں رہنے والے تمام عیسائی خلیفہ عبدالرحمن کو اس قدر محبوب رکھتے تھے کہ اس معاملے میں وہ مسلمانوں سے ہرگز کم نہ تھے۔ مسلمان مولویوں کے تنگ دل اور سخت گیر طبقہ کو اس خلیفہ نے آنحضرتﷺ کی رعایتوں کی طرف توجہ دلائی جو وہ غیر مسلم لوگوں کے ساتھ روا رکھتے تھے اوران کو مجبور کیا کہ وہ قرآن وحدیث کی اصل روح سے واقف ہوں اور حقیقت وشریعت سےآگا ہ ہوکر تنگ چشمی کو چھوڑدیں اس کام میں خلیفہ کو کامیابی حاصل ہوئی اور اس کا زمانہ خیر وبرکت کا زمانہ سمجھاگیا۔ جہاد کرنے اور کفار سے بذات خود لڑنے میں یہ خلیفہ کسی سے کم نہ تھا اور اس کی فوجی کاروائیاں بہت ہی عظیم الشان تھیں،ساتھ ہی جب خلیفہ کے راہ رعایا خدمت علم وفنون اصلاح معاشرت ترقی تمدن شوق عمارات ترقی مال ودولت ترقی زراعت وغیرہ کارناموں پر غور کیاجاتا ہے تو اس کا مرتبہ ہی بلند ثابت ہوتا ہے اور عبدالرحمن ثالث عبدالرحمن اول سے ہر گم کم ثابت نہیں ہوتا۔ اس خلیفہ کے زمانے میں نہ صرف قرطبہ بلکہ ملک اندلس جنت کا نمونہ بن گیا تھا کہیں چپہ بھر زمین ایسی نہ تھی جس میں کاشت نہ ہوتی ہو خوبصورت باغات کی افراط وکثرت سے تمام ملک گلزارنظر آتا ہے ،کوئی شہر وقصبہ اورگاؤں ایسا نہ تھا جس میں خوبصورت اور سربفلک عمارات کی کثرت نہ ہو وہ اندلس جو خلیفہ کی تخت نشینی سے پہلے بدامنی اور فتنہ وفساد کا گھر بنا ہوا تھا اس کے عہد سلطنت میں امن وامان وار فارغ البالی کا مسکن بن گیا تھا ،قرطبہ اور دوسرے شہروں کی عمارات اور رونق وسلیقہ شعاری بغداد ،دمشق وغیرہ سے بدرجہا بڑھ چڑھ کر تھی ،اندلس کی آبادی کے مقابلے میںتمام براعظم یورپ ایک بیابان نظر آتا تھا جہاں تہذیب وشائستگی کا نام ونشان نہ تھا ،یورپ کے تمام بادشاہوں کی آمدنی مل کر بھی تنہا خلیفہ عبدرالرحمن ثالث کی آمدنی کے برابر نہ تھی خلیفہ عبدالرحمن ثالث کی باقاعدہ فوج کے نام رجسٹروں میں درج تھے ڈیڑھ لاکھ تھی، مگر بےقاعدہ فوج یعنی ضرورت کے وقت رضا کاروں وغیرہ کی تعداد جو فراہم ہوسکتی تھی اس کا کوئی شمار نہ تھا بارہ ہزار فوج میں آٹھ ہزار سوار اور چار ہزار پیدل تھے ،خلیفہ کے محافظ تن فوج تھی۔ تمام جزیرہ نما اندل سمیں سڑکوں اور شاہراؤں کا ایک جال بچھاہوا تھا مسافروں کی حفاظت کے لیے تھوڑے تھووڑے فاصلے پر چوکیاں قائم تھیں اورسپاہی گشت کرتے کرتے اور پہرہ دیتے رہتے تھے ڈاک کا انتظام بذریعہ قاصدوں کے تھا جوڈاک لےکر گھوڑوں کو سرپٹ دوڑاتے ہوئے جاتے تھے ایک جگہ سے دوسری جگہ خبر اتنی جلدی پہنچ جاتی تھی کہ دوسرے ملکوں کے لوگ اس ک وجاد قمجھتے تھے لا تعداد بروج پہرہ چوکی کے لیے بنے ہوئے تھے، یہ بروج ساحل بحر پر بھی بنے ہوئے تھے ان برجوں کی چوٹیوں پر سے دارالخلافہ میں جہازوں کی نقلوحرکت کی خبر بلا توقف پہنچ جاتی تھی،بیت المال سے ایک بہت بڑی رقم ایسی عنارتوں کے لیے ہمیشہ لیجاتی تھی جو رفہ عام کے لیے بنوائی جاتی تھیں، ان عمارتوں کے بنوانے سے یہ بھی غرض تھی کہ کاریگروں اور مزدوروں کے لیے کام ہمیشہ مہیا رہے اس کا یہ اثر ہے کہ اس تمام ملک میں جو مسلمانوں کے قبضہ میں رہ چکا ہے غیر معمولی تعداد قلعوں اورپلوں کی پائی جاتی ہے بیمار اور محتاج آدمیوں کے لیے سرکاری مکانات تھے وہاں سرکاری خرچ سے ان کی ہر قسم کی خبر گیری کی جاتی تھی تمام ملک محروسہ مںی دارالیتامی قائم تھے ان میں یتیموں کی پرورش اور تعلیم کا انتظام خلیفہ کے صرف خاص سے ہوتا تھا۔ قرطبہ کی آبادی دس لاکھ تھی،سڑکیں نہایت صاف وپختہ مکانات عموماً سنگ مرمر کے اور نہایت خوبصورت پانی کے نکاس کی موریوں کا نہایت عمدہ اور قابل تعریف انتظام تھا ،جابجا شہر کے اندر بھی نفیس ودل کشا باغیچے تھے اورنواح شہر میں تو ایسے جنت الفردوس باغیچوں کی بڑی ہی کثرت تھی ان میں وزراء وامراء اور خلیفہ کے محلات وقصور شامل نہیں ہیں ،اسی ہزار چارسو دوکانیں سات سو مسجدیں نوسو حمام اور چار ہزار تین وہ مکانات تھے جن میں مال تجارت رکھا رہتا ان کو گودام کہنا چاہیے دنیا کے ہر ملک اور شہر کے آدمی ہر ملک کا لباس اورہر ملک وسلطنت کے سکے قرطبہ میں نظر آتے تھے اس شہر کا طول چوبیس میل اور عرض چھ میل تھا جو وادی الکبری کے کنارے پھیلا چلاگیا تھا،خاص شہر جس کےگرد پختہ فصیل تھی چودہ میل کے محیط میں تھا رات کےوقت قرطبہ کے بازار میں اگر کوئی شخص بخط مستقیم سفر کرے تودس میل تک وہ بازار وں کے چراغوں کی روشنی میں چل سکتا تھا روئے زمین کا کوئی شہر قرطبہ کی ہم سری کا دعی نہیں کرسکتا تھا دنیا کے کسی شہر میں اس قدر قلمی کتابیں نہیں تھیں جس قدر قرطبہ میں موجود تھیں پہاڑ کا پانی ڈھائی میل کے فاصلے سے بذریعے شہر کے اندر آتا تھا شہروں میں نلوں کا جال پھلا ہوا تھا ہر مدرسے ہر سرائے ہر مسجد کے دروازے پر لازماً نل لگا ہوا تھا باغوں میں اسی نل کے ذریعے فوارے چھوٹتے تھے شہر کے سات بڑے بڑے دروازے تھے جن کی پھاٹکوں میں تالا جڑا ہوا تھا شہر پناہ کے اندر شہر پانچ حصوں میں منقسم تھاہر ایک حصے کی شہر پناہ الگ الگ تھی، شہر کے پانچ حصوں میں سے ایک حصہ قصر شاہی تھا اس کاقلعہ الگ تھا اور اراکین سلطنت اسی میں رہتے تھے شہر قرطبہ ہیمیں نہیں تمام ملک اندلس میں کوئی فقیر بھیک منگنے والا نظر نہ آتا تھا سلطان عبدالرحممن ثالث اپنے آخر ایام حکومت میں مدینۃ الزہراچلاگیا تھا جو قرطبہ کے قریب ایک دوسرا چھوٹا سا شہر بن گیا تھا اور رونق وخوبصورتی میں قرطبہ سے بہت بڑھ چڑھ کر تھا اندلس میں ہر قسم کے میوے بافراط ہونے لگے تھے اور بازاروں میں بہت ارزاں فروخت ہوتے تھے۔ دارالخلافہ قرطبہ میں بکثرت مدارس اور دارالعلوم جاری تھے جابجا مشاعرے مناظرے اورعلمی تحقیقات کے جلسے منعقد ہوتے تھے شہزادے امراء اور خٰد خلیفہ ان جلسوں کی شرکت اور سرپرستی کرتے علماء کو انعام ووظائف عطا کرتے تھے ہیٔت،طب،فلسفہ،فقہ،حدیث اورتفسیر کے بےنظیر عالم قرطبہ میں موجود تھے طلباء کے مشارف اور رہنے سہنے کا انتظام سب شاہی خزانہ کے ذمہ تھا آخر ایام حیات میں خلیفہ عبدالرحمن ثالث نے اپنے ولی عہد کو کاروبار سلطنت بہت کچھ سپرد کردیا تھا اور خود اپنا وقت عبادت الہی میں زیادہ بسر کرنے لگا۔