انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** ۶۴۔محمد بن عجلانؒ نام ونسب محمد نام، ابو عبداللہ کنیت، باپ کا نام عجلان تھا،فاطمہ بنت ولید بن ربیعہ قرشی کے غلام تھے۔ فضل وکمال علم اورتقویٰ کے اعتبار سے ممتاز تابعی تھے،امام نووی لکھتے ہیں: کان اماما فقیھا عابدا ان کی ہر ادا علم میں ڈوبی ہوئی تھی،ابن مبارک کہتے تھے کہ ابن عجلان سے زیادہ کوئی شخص اہل علم سے مشابہ نہ تھا میں ان کو علماء میں یاقوت سے تشبیہ دیتا تھا۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۹۴) حدیث شریف حدیث کے وہ ممتاز حافظ تھے، حافظ ذہبی انہیں امام اور قدوہ لکھتے ہیں۔ (ایضاً:۱۴۸) صحابہ میں انس بن مالکؓ اورابو لطفیلؓ سے اور تابعین میں عکرمہ،نافع،سعید مقبری ،سلیمان ابن ابی حازم اشجعی،ابراہیم بن عبداللہ،رجاء بن حیوۃ،عامر بن عبداللہ بن زبیر اعرج،ابی الرناد،زید بن اسلم، عبید اللہ بن مقسم،بکیر بن الاشج ،علی بن یحییٰ،محمد بن یحییٰ بن جان اور ابو اسحٰق سبیعی وغیرہ سے استفادہ حدیث کیا تھا۔ (تہذیب التہذیب:۹/۳۴۱) عبید اللہ بن عمر منصور بن معتمر،مالک بن انس،لیث،سفیان ثوری،ابن عینیہ،حیوۃ ابن شریح، شعبہ،قطان اورعبداللہ بن ادریس وغیرہ جیسے اکابر آپ کے خوشہ چینوں میں تھے۔ فقہ وفتاویٰ فقہ وفتاوی میں پوری دستگاہ رکھتے تھے،حافظ ذہبی ان کو مفتی اورفقیہ لکھتے ہیں (تذکرۃ الحفاظ،جلد اول،ص۱۴۸)مسجد نبوی میں افتا کی خدمت انجام دیتے تھے۔ (تہذیب الاسماء،جلد اول،ق ۲،ص۸۷) حلقہ درس اسی میں ان کا حلقہ درس تھا جس میں بڑے بڑے تابعینِ شریک ہوتے تھے۔ (تذکرۃ الحفاظ،ج ۱،ص۱۴۹) زہد وورع زہد وورع ان کا مخصوص طغریٰ کمال تھا، حافظ ذہبی لکھتے ہیں کہ وہ عالم عامل ربانی اورکبیر القدر تھے(ایضاً:۱۴۸) ابن سعد کا بیان ہے کہ وہ عابد مرتاض تھے (تہذیب ،ج ۹،ص۳۴۱،بحوالہ ابن سعد) اپنے مذہبی کمالات کی وجہ سے مدینہ کے حسن بصری شمار کیے جاتے تھے، ایک مرتبہ ایک معاملہ میں جعفر بن سلیمان نے ان کو کوڑے لگوانے کا ارادہ کیا، اہل مدینہ نے اس سے کہا اگر حسن بصری سے اس قسم کا فعل سرزد ہوجاتا تو کیا تم ان کو مارتے ، جعفر نے کہا نہیں ،لوگوں نے کہا تو وہ مدینہ کے حسن بصری ہیں۔ (تذکرۃ الحفاظ،ج اول،ص۱۴۹) وفات ۴۸ میں وفات پائی۔ (ایضاً)