انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** غزوہ تبوک کا قرآن میں ذکر اس غزوہ سے متعلق سورۂ توبہ کی بہت سی آیات نازل ہوئیں، کچھ روانگی سے پہلے ، کچھ روانگی کے بعد دوران سفر اور کچھ مدینہ واپس ہونے کے بعد جن میں غزوہ کے حالات کا ذکر ہے ، منافقین کی سازشوں کا پردہ فاش کیاگیا ، مخلص مجاہدین کی فضیلت بیان کی گئی اور ان صادق مومنین کی توبہ کی قبولیت کا ذکر ہے جو غزوہ میں شریک نہ ہوئے تھے ۔ غزوۂ تبوک پر ایک نظر غزوۂ تبوک جزیرۃ العرب پر مسلمانوں کا اثر پھیلانے اور اسے تقویت پہنچانے میں بڑا موثر ثابت ہوا، لوگوں پر یہ بات اچھی طرح واضح ہوگئی کہ اب جزیرۃ العرب میں اسلام کی طاقت کے سوا اور کوئی طاقت زندہ نہیں رہ سکتی، اسی طرح جاہلین اور منافقین کی وہ بچی کچھی آرزوئیں اور اُمیدیں بھی ختم ہوگئیں جو مسلمانوں کے خلاف گردشِ زمانہ کے انتظا ر میں ان کے نہاں خانۂ دل میں پنہا تھیں کیونکہ ان کی ساری اُمیدوں اور آرزوؤں کا محور رومی طاقت تھی اور اس غزوہ میں اس کا بھی بھرم کھل گیا، اس لئے ان حضرات کے حوصلے ٹوٹ گئے اور انھوں نے امر واقعہ کے سامنے سپر ڈال دی کہ اب اس سے بھاگنے اور چھٹکارا پانے کی کوئی راہ ہی نہیں رہ گئی تھی،اور اسی صورتحال کی بنا پر اب اس کی بھی ضرورت نہیں رہ گئی تھی کہ مسلمان منافقین کے ساتھ نرمی کا برتاو کریں، لہذا اﷲ نے ان کے خلاف سخت رویہ اختیار کرنے کا حکم صادر فرمایا ، یہاں تک کہ ان کے صدقے قبول کرنے، ان کی نمازِ جنازہ پڑھنے ، ان کے لئے دعائے مغفرت کرنے اور ان کی قبروں پر کھڑے ہونے سے روک دیااور انھوں نے مسجد کے نام پر سازش اور دسیسہ کاری کا گھونسلہ تعمیر کیا تھا اسے ڈھادینے کا حکم دیا اور ان کے بارے میں ایسی آیات نازل ہوئیں کہ وہ بالکل ننگے ہوگئے ، انھیں پہچاننے میں کوئی ابہام نہ رہا، گویا اہلِ مدینہ کے لئے ان آیات میں ان منافقین پر انگلیا ں رکھ دیں۔ اس غزوہ کے اثرات کا اندازہ اس سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ فتح مکّہ کے بعد(بلکہ اس سے پہلے بھی) عرب کے وفود اگر چہ رسول اﷲ ﷺ کی خدمت میں آنا شروع ہوگئے تھے؛ لیکن ان کی بھرمار اس غزوہ کے بعد ہی ہوئی. (الرحیق المختوم) شہید ناز ذوالبجادین کی وفات غزوئہ تبوک کے دوران ذوالبجادین کا انتقال ہوا ، ان کا قدیم نام عبدلعزیٰ تھا مدینہ سے منزل دو منزل کے فاصلہ پر کسی گاؤں میں رہتے تھے ، بچپن ہی میں یتیم ہوگئے ، اور چچا کے زیر پرورش رہے ، جو ان ہوئے تو چچا نے ان کی معاش کے لئے اونٹ ‘ بکریاں اور غلام فراہم کئے ، عبدالعزیٰ نے مذہب اسلام کے بارے میں سنا تو انہیں مسلمان ہونے کا شوق ہوا؛ لیکن چچا کے ڈر سے کچھ کہہ نہ سکے ، فتح مکہ کے بعد جب حضور اکرم ﷺمدینہ واپس ہوئے تو عبدالعزیٰ نے اپنے چچا کے پاس جاکر مسلمان ہونے کی اجازت طلب کی ، اسے سن کر چچا نے کہا کہ اگر تو مسلمان ہوجائے تو تیرا سب کچھ حتیٰ کہ جسم کے کپڑے بھی چھین لوں گا ، عبدالعزیٰ نے جواب دیا کہ وہ ضرور مسلمان ہوکر حضور اکرم ﷺ کی اتباع کریں گے اور اپنا مال وزر سب کچھ لوٹا دیں گے ، چنانچہ چچا نے ان سے سب مال وزر لے لیا اور بدن کے کپڑے بھی لے لئے جس کی وجہ عبدالعزیٰ مادر زاد برہنہ ہوکر اپنی والدہ کے پاس گئے جسے دیکھ کر ماں حیران ہوئیں ، عبدالعزیٰ نے کہا کہ " میں مومن اور مسلمان ہوگیا ہوں اور حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں جانا چاہتا ہوں اس لئے ستر پوشی کے لئے کپڑے عنایت کریں " ماں نے انہیں ایک کمبل دیا جس کے دو ٹکڑے کرکے ایک سے ستر پوشی کی اور ایک بدن پر ڈال لیا ، لپیٹ کر وہ مدینہ جاکر علی الصبح مسجد نبوی میں پہنچے اور حضور ﷺ کے انتظار میں بیٹھے رہے ، جب حضور مسجد میں تشریف لائے تو انہیں دیکھ کر پوچھا کہ کون ہو ؟ انھوں نے کہا کہ میرا نام عبدالعزیٰ ہے ، مسافر ہوں اور مسلمان ہوکر یہاں آیا ہوں، حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: تمہارا نام عبداللہ ہے اور ذوالجادین ( کملی کے دو ٹکڑوں والا ) لقب ، تم ہمارے قریب ہی مسجد میں رہا کرو ، چنانچہ عبداللہ اصحاب صفہ میں شامل ہوگئے اور حضور اکرم ﷺ سے قرآن سیکھنے لگے ، ایک دفعہ حضرت عمر ؓ نے کہا کہ یہ اعرابی اس قدر بلند آواز سے پڑھ رہا ہے کہ لوگوں کی نماز میں خلل ہورہا ہے ، حضور ﷺ نے فرمایا " عمر : اسے کچھ نہ کہو ، یہ خدا اور رسول کے لئے سب کچھ چھوڑ کر آیا ہے" جب حضور غزوہ تبوک کو جانے لگے تو حضرت عبداللہ نے عرض کیا یارسول اللہ ! دعا فرمایئے کہ مجھے راہ خدا میں شہادت نصیب ہو، حضور ﷺ نے فرمایا کہ جاؤ کسی درخت کا چھلکا اتار لاؤ، جب عبداللہ چھلکا لائے تو آپ ﷺ نے وہ چھلکا ان کے ہاتھ پر باندھ دیا اور فرمایا " الٰہی ! میں کفار پر اس کا خون حرام کرتا ہوں" عبداللہ نے کہا :یارسول اللہ ! میں تو شہادت کا طالب ہوں ، حضورﷺ نے فرمایا : جب غزوہ کی نیت سے تم نکلو اور پھر تپ آجائے اور مرجاؤ تب بھی تم شہید ہی ہوگے، تبوک پہنچ کر انہیں تپ چڑھی اور وہ فوت ہوگئے ، انہیں رات کے وقت دفن کیا گیا ، حضرت بلال ؓ کے ہاتھ میں چراغ تھا ، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ ان کی لاش کو لحد میں رکھ رہے تھے، حضور اکرمﷺ بھی ان کی قبر میں اترے تھے اور تھوڑی دیر کے لئے لیٹ گئے اور ابوبکر و عمر ؓ سے فرمارہے تھے ، اپنے بھائی کا ادب ملحوظ رکھو ۔