انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت یامین بن عمیر نام ونسب یامین نام (اسدالغابہ:۵/۵۹)، باپ کے نام میں تھوڑا سااختلاف ہے اور بعضوں نے باپ کا نام بھی یامین ہی لکھا ہے؛ مگرعام ارباب رجال کا رحجان عمیر ہی کی طرف ہے ((استیعاب:۲/۶۳۶) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ عنہ نے یامین بن یامین اور یامین بن حمیر کودوشمار کیا ہے اور دونوں کا ترجمہ الگ الگ لکھا ہے؛ مگرصاحب اسدالغابہ اور صاحب استیعاب نے دونوں کوایک شمار کرکے ایک ترجمہ لکھا ہے) پورا سلسلہ نسب یہ ہے، یامین بن عمیر بن کعب بن عمرو بن حجاش، بنونضیر سے نسبی تعلق تھا۔ اسلام یہودِ مدینہ کی مسلسل سازشوں، شرارتوں، کیادیوں اور منافقتوں کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عفوودرگذر سے کام لیتے تھے؛ مگرجب پانی سرسے اونچا ہوگیا توان کی یکے بعد دیگرے سرزنش شروع کردی گئی، بنی قینقاع کے بعد جب بنونضیر نے بدعہدی کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی سازش شروع کردی توان کومدینہ چھوڑ دینے کا حکم دیا گیا، اُمید تھی کہ اس سزا کے بعد وہ اپنے گذشتہ اعمال سے تائب ہوکر غلامانِ نبی میں شامل ہوجائیں گے؛ مگران کی فطرتوں نے جس طرح پہلے روز قبولِ حق سے گریز کیا تھا؛ اسی طرح آخروقت تک گریز کرتے رہے؛ لیکن ان کج فطرتوں میں کچھ نیک فطرت بھی تھے جن کے دل میں قبولِ حق کی کسی قدر صلاحیت باقی تھی؛ انھوں نے جب دیکھ لیا کہ اسلام کی صداقت کے لیے کسی مزید ثبوت کی ضرورت باقی نہیں رہی توفوراً اسلام قبول کرلیا اور اپنی قوم کا ساتھ چھوڑ دیا کہ وہ دیدہ ودانستہ راہِ راست سے بھاگ رہے ہیں (ابن الہیبان نے یہود مدینہ کووصیت کے طور پرلکھا تھا کہ عنقریب ایک نبی مدینہ میں ہجرت کرکے آئے گا؛ اگرتم نے اس کی اتباع نہ کیا تو بہت سے مصائب پیش آئیں گے، جس میں ایک جلاوطنی ہے) ان ہی مسلمان ہونے والوں میں حضرت یامین رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ (اسدالغابہ:۵/۹۹) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن سے بدلہ عمروبن حجاش، یامین رضی اللہ عنہ کا چچازاد بھائی تھا، اس نے سازش کی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کودھوکے سے ایک مکان کے نیچے بلایا جائے اور اُوپر سے کوئی وزنی چیز گراکرکام تمام کردیا جائے (معاذاللہ) لیکن کامیاب نہ ہوسکے، یامین رضی اللہ عنہ مسلمان ہوئے توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یامین رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اپنے چچازاد بھائی کی حرکت دیکھتے ہو، وہ دھوکے سے مجھے قتل کردینا چاہتا تھا؛ مگراللہ تعالیٰ نے جبرئیل کے ذریعہ مجھے اس کے ارادہ سے آگاہ کردیا، یامین رضی اللہ عنہ فوراً اپنی جگہ سے اُٹھے اور اس دشمنِ رسول کی فکر میں لگ گئے اور ایک روز موقع پاکر اس کوواصلِ جہنم کردیا۔ (اصابہ:۳/۶۴۹) غزوۂ تبوک میں مدد غزوۂ تبوک پیش آیا توچند صحابہ بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے اور سواریوں کی درخواست کی؛ مگراتفاق سے اس وقت سواریاں موجود نہ تھیں اس لیے معذوری ظاہر کی وہ لوگ بچشم پرنم مایوس واپس گئے، قرآن نے ان کی مایوسی اور رنج وملال کا نقشہ کھینچا ہے: وَلَاعَلَى الَّذِينَ إِذَامَاأَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لَاأَجِدُ مَاأَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ تَوَلَّوْا وَأَعْيُنُهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا أَلَّايَجِدُوا مَايُنْفِقُونَ۔ (التوبۃ:۹۲) ترجمہ:جس وقت وہ آپ کے پاس آتے ہیں کہ آپ ان کوکوئی سواری دے دیں اور آپ ان سے کہہ دیتے ہیں کہ میرے پاس کوئی چیز نہیں جس پرمیں تم کوسوار کردوں تووہ ناکام اس حالت میں واپس چلے جاتے ہیں کہ ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوجاتے ہیں، اس غم میں کہ افسوس ان کوخرچ کرنے کوکچھ بھی میسر نہیں۔ ان ہی میں حضرت ابولیلیٰ رضی اللہ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ بھی تھے، جنھیں لڑائی میں شریک نہ ہوسکنے کا بیحد افسوس تھا، یہ رورہے تھے کہ یامین رضی اللہ عنہ کااُدھر سے گذر ہوا؛ انھوں نے رونے کی وجہ دریافت کی توانھوں نے سارا قصہ کہہ سنایا، حضرت یامین رضی اللہ عنہ نے فوراً دوسواریاں اور کچھ سامانِ سفر پیش کیا اور وہ دونوں غزوہ میں شریک ہوئے (بالکل یہی واقعہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ذکوان بن یامین کے تذکرے میں بھی لکھا ہے؛ لیکن دونوں واقعے ایک ہی معلوم ہوتے ہیں، اس لیے کہ دوسرے تمام ارباب رجال وسیر نے اس واقعہ کوحضرت یامین رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کیا ہے؛ چونکہ حضرت یامین رضی اللہ عنہ کے نام اور ان کے باپ کے نام میں بڑا اختلاف ہے، اس لیے یہ واقعہ کئی ناموں کی طرف منسوب ہوگیا ہے؛ چنانچہ تجرید نے آپ کا نام یاسربن یامین لکھا ہے اور سلسلۂ نسب کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ ذکوان حضرت یامین رضی اللہ عنہ کے بیٹے تھے، اس لیے ہوسکتا ہے کہ واقعہ کے وقت وہ بھی موجود رہے ہوں اور راوی نے اُن کے طرف بھی اسی واقعہ کومنسوب کردیا ہو)۔ وفات اور زندگی کے دوسرے واقعات اور حالات کے بارے میں ارباب سیر خاموش ہیں۔ فضائل حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: وَھُوَ مِن کِبَارِ الصَّحَابَۃِ۔ ترجمہ:آپ کا شمار کبار صحابہ میں تھا۔ (استیعاب:۲/۶۳۶، حافظ نے اصابہ کی اس آیت کا منشائے نزول یامین بن یامین کولکھا ہے؛ مگرجیسا کہ اوپر اسدالغابہ کے حوالہ سے لکھا جاچکا ہے کہ یہ دونوں ایک ہی ہیں) جن لوگوں کے بارے میں یہ آیت: يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا آمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ۔ (النساء:۱۳۶) ترجمہ: اے اہلِ ایمان اللہ اور اس کے رسول پرایمان لاؤ۔ نازل ہوئی ان میں ایک حضرت یامین رضی اللہ عنہ بھی تھے۔