انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت ذوالنون مصریؒ (م:۲۴۵ ھ) ۱۔لوگوں کے فساد کا سبب چھ چیزیں ہیں: ۱۔عمل آخرت کے متعلق ان کی ہمتیں اورنیتیں ضعیف ہوگئی ہیں۔ ۲۔ان کے اجسام ان کی خواہشات کا گہوارہ بن گئے۔ ۳۔ان پر لمبی امیدیں غالب ہو گئیں کہ دنیوی سامان میں قرنوں اور زمانوں کے انتظام کرنے کی فکر میں لگے رہے،حالانکہ ان کی عمر قلیل ہے۔ ۴۔انہوں نے مخلوق کی رضا کو حق تعالیٰ کی رضا پر ترجیح دے رکھی ہے۔ ۵۔وہ اپنی ایجاد کردہ چیزوں کے تابع ہوگئے اور رسول اللہ ﷺ کی سنت کو چھوڑ بیٹھے۔ ۶۔مشائخ سلف اوربزرگان متقدمین میں سے اگر کسی سے کوئی لغزش صادر ہوگئی تو ان لوگوں نے اسی کو اپنا مذہب بنالیا اور اس فعل کو اپنے لئے فضیلت سمجھا اوران کے باقی تمام فضائل و مناقب کو دفن کردیا۔ (ثمرات الأوراق،ص:۷۰،کتاب الاعتصام:۱/۱۰۶) ۲۔حق تعالی کی محبت کی علامت یہ ہے کہ اخلاق و اعمال اورتمام امور سنن میں حبیب اللہ ﷺ کا اتباع کیا جائے۔ (ثمرات الأوراق،ص:۷۰،کتاب الاعتصام،۱/۱۰۶) ۳۔سب سے زیادہ اہتمام اللہ تعالی کے فرائض وواجبات کو سیکھنے اور ان پر عمل کرنے کا کرو اور جس چیز سے اللہ تعالیٰ نے تمہیں منع کیا ہے ان کے پاس نہ جاؤ،کیونکہ حق تعالیٰ کی عبادت کا وہ طریقہ جو اس نے خود تعلیم فرمایا ہے اس طریقہ سے بہتر ہے جوتم خود اپنے لئے بناتے ہو اور یہ سمجھتے ہو کہ ہمارے لئے اس میں زیادہ اجر وثواب ہے،جیسے بعض لوگ خلاف سنت رہبانیت کا طریقہ اختیار کرلیتے ہیں۔ (ثمرات الأوراق،ص:۷۰،کتاب الاعتصام:۱/۱۰۷) ۴۔بندہ کا فرض یہ ہے کہ ہمیشہ اپنے آقا کے حکم پر نظر رکھے اوراسی کو اپنے تمام معاملات میں فیصلہ کرنے والا بنائے اورجس چیز سے اس نے روک دیا ہے اس سے بچتا رہے۔ (ثمرات الأوراق،ص:۷۰،کتاب الاعتصام:۱/۱۰۷) ۵۔آج کل لوگوں کو حلاوت ایمان اور طہارت باطن سے صرف اس چیز نے روک رکھا ہے کہ وہ فرائض اور واجبات کو معمولی چیزیں سمجھ کر ان کا اہتمام نہیں کرتے جتنا کرنا چاہیے۔ (ثمرات الأوراق،ص:۷۱،کتاب الاعتصام:۱/۱۰۷) ۶۔ایک شخص نے حضرت ذوالنون مصریؒ سے درخواست کی کہ میرے لئے اللہ سے دعا کیجئے،فرمانے لگے: اگر تم نے اللہ کے علم غیب کی تائید توحید کی صداقت سے کی ہے تو بہت سی دعائیں تیرے حق میں مقبول ہوچکی ہیں،ورنہ صرف پکار ڈوبتے کو سہارا نہیں دے سکتی۔ (الرسالۃ القشیریۃ،ص:۶) ۷۔کمینہ وہ ہے جو اللہ تک پہنچنے کا طریقہ نہ جانتا ہو اورنہ ہی جاننے کی کوشش کرتا ہو۔ (الرسالۃ القشیریۃ،ص:۱۶) ۸۔توبہ کی حقیقت یہ ہے کہ زمین باوجود اپنی فراخی کے تمہارے لئے اس قدر تنگ معلوم ہوکہ تمہیں قرار حاصل نہ ہو؛بلکہ تمہارا نفس بھی تمہارے لئے تنگ ہوجائے۔ (الرسالۃ القشیریۃ،ص:۱۳۴) ۹۔حضرت ذوالنون مصریؒ سے پوچھا گیا کہ وہ کون سا شخص ہے جو سب سے زیادہ اپنے نفس کی حفاظت کرتا ہے؟ فرمایا:وہ شخص جو اپنی زبان پر سب سے زیادہ قابو رکھتا ہے۔ (الرسالۃ القشیریۃ،ص:۱۷۰) ۱۰۔جب تک لوگوں کے(دلوں سے) خوف زائل نہیں ہوتا وہ درست راستہ پر رہتے ہیں،جونہی خوف زائل ہوا بھٹک گئے۔ (الرسالۃ القشیر یۃ،ص:۱۷۶) ۱۱۔توکل یہ ہے کہ تو نفس کی تدبیر کرنا چھوڑدے اور اپنی طاقت وقوت سے بیزاری کا اظہار کرے،بندہ تو کل کی طاقت اس وقت رکھ سکتا ہے جب اسے معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ ان کاموں کو جن میں وہ لگا ہوا ہے جانتا اوردیکھتا ہے۔ (الرسالۃ القشیریۃ،ص:۲۲۷) ۱۲۔رضاء کی تین علامات ہیں: (۱)تقدیر سے پہلے اختیار کو چھوڑدینا (۲)تقدیر کے نازل ہونے کے بعد اس کی تلخی کو محسوس کرنا (۳)عین مصیبت میں محبت کا بھڑکنا (الرسالۃ القشیریۃ،ص:۲۷۰) ۱۵۔ذوالنون مصریؒ سے کسی نے پوچھا لوگوں میں سب سے زیادہ غمزدہ کون شخص ہے؟فرمایا "جو لوگوں میں سب سے زیادہ بداخلاق ہے" (الرسالۃ القشیریۃ،ص:۳۳۵) ۱۶۔بندے پر اللہ کی ناراضگی کی علامت یہ ہے کہ بندہ فقر سے ڈرتا ہو۔ (الرسالۃ القشیریۃ،ص:۳۷۶) ۱۷۔کسی نے ذوالنونؒ سے پوچھا کہ آپ نے اپنے رب کو کیسے پہچانا؟آپ نے فرمایا:میں نے اپنے رب کو اپنے رب کے ذریعہ اور اس کی مدد سے پہچانا ہے اوراگر میرا رب نہ ہوتا تو میں اپنے رب کو نہ پہچان سکتا۔ (الرسالۃ القشیریۃ،ص:۴۳۹) (۱)تصوف میں تمام امور کا دار و مدار چار چیزوں پر ہے : سب سے بڑے (اللہ تعالیٰ ) سے محبت کرنا ، سب سے حقیر (دنیا) سے بغض رکھنا ، وحیِ الٰہی(قرآن ِکریم اور سنّت ِ رسول صلّی اللہ علیہ وسلم)کی اتباع کرنا ، ا ور اپنی حالت کے بدل جانے سے خائف اور فکرمند رہنا ۔ (۲)سب سے بڑی عزّت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آدمی کو اپنے نفس کی حقارت پر مطلع فرمادیں ، اور سب سے بڑی ذلّت یہ ہے کہ آدمی اپنے نفس کی دنائت سے غافل کردیا جائے۔ (۳)آدمی جس چیز سے ڈرتا ہے اس سے دور بھاگتا ہے اور اپنے آپ کو بچاتا ہے ، اور جس چیزسے رغبت رکھتا ہےاس کی تلاش و جستجو میں لگا رہتا ہے ، اور جب اللہ تعالیٰ سے محبت ہوجاتی ہے تو اپنے نفس سے وحشت ہونے لگتی ہے ۔ (۴)اللہ تعالیٰ جس کو اپنے قرب سے بہرہ ور اور مانوس فرمالیتے ہیں تواس کو بغیر طلب کے علم عطا فرماتے ہیں ۔ (۵)تمام مخلوق کے ساتھ تواضع کا معاملہ کرو لیکن جو شخص تم سے تواضع کا طالب ہو اس کے ساتھ تواضع کا برتاؤ نہ کرو اس لئے کہ تم سے تواضع کی طلب اس کے باطن میں تکبر ہونے پر دلالت کرتی ہے ، پس ایسی صورت میں تواضع کرنا اس کے مرض تکبر کے بڑھانے میں اعانت اور مدد ہے ۔ (۶)جو شخص لوگوں کے عیوب میں نظر کرےگا تو اپنے عیوب سے اندھا ہوجائےگا