انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** مقام اذرج میں حکمین کے فیصلے کا اعلان جب چھ مہینے کی مہلت ختم ہونے کو آئی تو حضرت علیؓ نے بصرہ سے عبداللہ بن عباسؓ کو بلایا اورشریح بن ہانی الحارفی کو چار سو آدمیوں کی سرداری پر اور عبداللہ بن عباسؓ کو نمازوں کی امامت پر مقرر فرما کر ابو موسیٰ اشعریؓ کے ہمراہ مقام اذرج کی طرف روانہ کیا، اور شریح بن ہانی کو سمجھا دیا کہ جب اذرج میں عمرو بن العاصؓ سے ملاقات ہو تو کہہ دینا کہ راستی اورصداقت کو ترک نہ کیجئے اور قیامت کے دن کو یادرکھئے، اسی طرح حضرت امیر معاویہؓ نے بھی عمرو بن العاصؓ کو چار سو آدمیوں کے ساتھ روانہ کیا، اس فیصلے کے سُننے اورمقام اذرج کی مجلس میں شریک ہونے کے لئے مکہ اور مدینہ سے بھی بعض بااثر بزرگوں کو تکلیف دی گئی اورانہوں نے مسلمانوں کا اختلاف باہمی رفع کرنے کی کوشش میں شریک ہونے سے انکار نہ کیا؛چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ، عبداللہ بن زبیرؓ اور سعد بن وقاصؓ وغیرہ کئی حضرات تشریف لے آئے اذرج میں جمع ہونے کے بعد لوگوں کو سخت انتظار تھا کہ کیا فیصلہ سُنایا جاتا ہے،لیکن مقام اذرج میں حکمین نے جاتے ہی فیصلہ نہیں سنایا ؛بلکہ وہاں آپس میں حکمین کو خود بھی ایک دوسرے سے تبادلۂ خیالات کرنا تھا، مکہ اورمدینہ کے بزرگوں کا انتظار بھی ضروری تھا۔ جس وقت حضرت علی کرم اللہ وجہہ ابو موسیٰ اشعرؓ کو کوفہ سے اذرج کی طرف روانہ کرنے لگے تو خوارج کی طرف سے حرقوص بن زہیر نے آکر حضرت علیؓ کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ نے ثالثی کے فیصلہ کو تسلیم کرنے میں بڑی غلطی کی ہے، اب بھی آپ باز آجائیے اوردشمنوں کی طرف لڑائی کے ارادے سےکوچ کیجئے،ہم سب آپ کے ساتھ ہیں،حضرت علیؓ نے جواب دیا کہ میں اقرار نامہ کے خلاف بد عہدی پر آمادہ نہیں ہوسکتا یہ وہی حرقوص بن زہیر ہے جو حضرت عثمان غنیؓ کے واقعہ قتل کے ہنگامہ میں بلوائیوں کا خاص الخاص سردار تھا اوراب خارجیوں کے گروہ میں بھی سرداری کا مرتبہ رکھتا تھا،ابو موسیٰ اشعریؓ کی روانگی کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ جلد جلد اورروزانہ خطوط روانہ کرتے رہتے تھے،اسی طرح حضرت امیر معاویہؓ بھی عمرو بن العاصؓ کے پاس رو زانہ بذریعہ قاصد خطوط اورپیغامات بھیجتے رہتے تھے،یہ معاملہ ہی ایسا تھا کہ دونوں صاحبوں کو اس کا خاص خیال ہونا چاہئے تھا، حضرت علیؓ کے خطوط عبداللہ بن عباسؓ کے نام آتے تھے اور امیر معاویہؓ کے خطوط عمرو بن العاص کے نام ،عمرو بن العاصؓ کے ہمراہیوں میں ضبط ونظام اعلیٰ درجہ کا تھا وہ سب کے سب عمرو بن العاصؓ کے فرماں بردار تھے اور ان میں سے کسی کو بھی اس کا خیال تک نہ آتا تھا کہ عمرو بن العاص سے یہ دریافت کریں کہ امیر معاویہؓ نے آپ کو کیا لکھا ہے؟ لیکن حضرت علیؓ کے بھیجے ہوئے چار سوآدمیوں کی حالت اس کے بالکل خلاف تھی،وہ روزانہ حضرت علیؓ کا خط آنے پر عبداللہ بن عباسؓ کے گرد جمع ہوجاتے تھے،ہر شخص پوچھتا تھا کہ حضرت علیؓ نے کیا لکھا ہے؟اس طرح کوئی بھی بات صیغہ راز میں نہیں رہ سکتی تھی اور فوراً اس کی شہرت ہوجاتی تھی،عبداللہ بن عباسؓ سخت مصیبت میں گرفتار تھے،بعض باتوں کو وہ پوشیدہ رکھنا چاہتے تھے اور بیان کرنے میں تامل کرتے تھے تو لوگ اُن سے ناراض ہوتے تھے؛چنانچہ عبداللہ بن عباسؓ سے ان کے تمام ہمراہی ناخوش ہوگئےاورعلانیہ اُن کی شکایتیں کرنے لگے کہ یہ علیؓ کے خطوط کو چھپاتے ہیں اور باتیں ہم کو نہیں سُناتے۔ غرض عبداللہ بن عمرؓ،عبدالرحمن بن ابی بکرؓ،عبداللہ بن زبیرؓ،عبدالرحمن بن الحرثؓ،عبدالرحمن بن عبدیغوث زہریؓ،ابو جہم بن حذیفہؓ،مغیرہ بن شعبہؓ،سعد بن وقاص وغیر ہم حضرات جب سب اذرج میں پہنچ گئے تو ان خاص الخاص اور نامور حضرات کی ایک محدود مجلس منعقد ہوئی اوراس میں ابو موسیٰ اشعریؓ اورعمرو بن العاصؓ بھی تشریف لائے،اس صحبتِ خاص میں عمرو بن العاصؓ اور ابو موسیٰ اشعرؓ کی گفتگو شروع ہوئی،عمرو بن العاصؓ نے ابو موسیٰ اشعریؓ سے اول اس بات کا اقرار کرایا کہ عثمان غنیؓ مظلوم قتل کئے گئے،پھر اس بات کا بھی اقرار کرایا کہ معاویہؓ ہم جد ہونے کی حیثیت سے عثمانؓ کے خون کا دعویٰ کرنے میں حق پر ہیں،یہ دونوں باتیں ایسی تھیں کہ ابو موسیٰ ؓ نے کبھی ان کے خلاف اپنی رائے ظاہر نہیں کی تھی،ان کے تسلیم کرنے میں ان کو کوئی تامل نہ ہوا۔ پھر عمرو بن العاصؓ نے مسئلہ خلافت کو چھیڑا اورکہا کہ امیر معاویہؓ قریش کے ایک شریف اورنامور خاندان سے تعلق رکھتے ہیں،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ام حبیبہؓ کے بھائی ہیں،صحابی بھی ہیں اور کاتبِ وحی بھی،ان باتوں کو سن کر ابو موسیٰؓ نے مخالفت کی اورکہا کہ امیر معاویہؓ کی ان خصوصیات سے مجھ کو انکار نہیں،لیکن امتِ مرحوم کی امارت،ان کو حضرت علیؓ یا دوسرے محترم حضرات کی موجودگی میں کیسے سپرد کی جاسکتی ہے،یہ باتیں حضرت علیؓ میں فائق تر موجود ہیں،یعنی وہ رشتہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت ہی قریب ہیں،شریف خاندان سے تعلق رکھتے اورسردارانِ قریش میں سے شمار ہوتے ہیں،علم شجاعت،تقویٰ وغیرہ صفات میں بھی وہ خاص طور پر ممتاز ہیں، عمرو بن العاصؓ نے کہا کہ امیر معاویہؓ میں انتظامی قابلیت اور سیاست دانی زیادہ ہے،ابو موسیٰ نے کہا: تقویٰ اورایمانداری کے مقابلہ میں یہ چیز قابلِ لحاظ نہیں،غرض اسی قسم کی باتیں ہوتی رہیں آخر ابو موسیٰ اشعریؓ نے کہا کہ میر ی تو رائے یہ ہے کہ معاویہؓ اورعلیؓ دونوں کو معزول کرکے عبداللہ بن عمرؓ کو خلیفہ بنادیا جائے،عبداللہ بن عمرؓ اس وقت آنکھیں بند کئے ہوئے اپنے کسی خیال میں محو بیٹھے تھے،انہوں نے اپنا نام سُن کر اورآنکھیں کھول کر بلند آواز سے کہا کہ مجھ کو منظور نہیں ہے،عمرو بن العاصؓ نے کہا کہ تم میرے بیٹے عبداللہ کو کیوں منتخب نہیں فرماتے۔ ابو موسیٰؓ نے کہا کہ ہاں تیرا بیٹا عبداللہ بھی بہت نیک ہے،لیکن تونے اس کواس لڑائی میں شریک کرکے فتنہ میں ڈال دیا ہے،جب دیر تک گفتگو کا سلسلہ جاری رہا اورکوئی ایسی بات طے نہ ہوئی جس پر دونوں متفق ہوجاتے تو عمروبن العاصؓ نے اپنی یہ رائے پیش کی کہ معاویہؓ اورعلیؓ دونوں کی مخالفت اورجنگ سے تمام مسلمان مصیبت اورفتنہ میں مبتلا ہورہے ہیں،بہتر یہ ہے کہ ان دونوں کو ہم معزول کردیں اور مسلمانوں کو اختیار دیں کہ وہ کثرتِ رائے یا اتفاق رائے سے کسی کو اپنا خلیفہ منتخب کرلیں،عمرو بن العاصؓ نے اس رائے کو پسند کیا اورتجویز ہوا کہ ابھی باہر چل کر جلسۂ عام میں اس کا اعلان کردیں، اگرچہ دونوں صاحب اس رائے پر متفق ہوگئے،لیکن یہ رائے بھی خطرے اوراندیشے سے خالی نہ تھی،کیونکہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ اپنی معزولی کو ہرگز تسلیم نہیں فرماسکتے تھے،حضرت امیر معاویہؓ بھی ملکِ شام کی پوری حمایت اوربعض صحابہ کرام کو اپنا معاون رکھتے ہوئے اس فیصلے کو رضا مندی اور خوشی کے ساتھ نہیں سُن سکتے تھے،بہر حال باقاعدہ طور پر مجمع عام کا اعلان ہوا تمام آدمی جو فیصلے کے لئے گوش بر آواز چشم برراہ تھے،فوراً جمع ہوگئے،منبر لاکر رکھا گیا اوردونوں پنچ معہ دیگر بااثر حضرات کے وہاں آئے۔