انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** طریقِ کار جمعِ قرآن کے سلسلہ میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہٗ کے طریقہ کار کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے؛ جیسا کہ پیچھے ذکر آچکا ہے وہ خود حافظ قرآن تھے؛ لہٰذا وہ اپنی یادداشت سے پورا قرآن لکھ سکتے تھے ان کے علاوہ بھی سینکڑوں حفاظ اس وقت موجود تھے ان کی ایک جماعت بناکربھی قرآن کریم لکھا جاسکتا تھا؛ نیز قرآن کریم کے جو مکمل نسخہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں لکھ لئے گئے تھے حضرت زید رضی اللہ عنہٗ ان سے بھی قرآن کریم نقل فرماسکتے تھے؛ لیکن انھوں نے احتیاط کے پیشِ نظر ان میں سے صرف کسی ایک طریقہ پر اکتفا نہیں فرمایا؛ بلکہ ان تمام ذرائع سے بیک وقت کام لیکر اس وقت تک کوئی آیت اپنے صحیفوں میں درج نہیں کی جب تک اس کے متواتر ہونے کی تحریری اور زبانی شہادتیں نہیں مل گئیں اس کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کی جو آیات اپنی نگرانی میں لکھوائی تھیں وہ مختلف صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس محفوظ تھیں حضرت زید رضی اللہ عنہٗ نے انھیں یکجافرمایا تاکہ نیا نسخہ ان سے ہی نقل کیا جائے؛ چنانچہ یہ اعلان عام کردیا گیا کہ جس شخص کے پاس قرآن کریم کی کچھ بھی آیات لکھی ہوئی ہو ں وہ حضرت زید کے پاس لے آئے (فتح الباری:۹/۱۷، علوم القرآن:۱۸۳۔ الاتقان:۱۲۸) اور اس کام کی حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہٗ خود نگرانی فرماتے رہے اور انھیں اپنے مفید مشوروں سے نوازتے رہے؛ چنانچہ روایات سے ثابت ہے کہ انھوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ کو بھی بطورِ معاون کے حضرت زید کے ساتھ اس کام میں لگادیا تھا (الاتقان:۱/۱۲۹۔ فتح الباری:۹/۱۹) اور ساتھ ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ اور زید رضی اللہ عنہٗ کو یہ حکم بھی فرمادیا تھا: "کہ مسجد کے دروازے کے پاس بیٹھ جاؤ؛ پھرجوشخص بھی تمہارے پاس قرآن کریم کے کسی جزء پر دوگواہ لے آئے اس کو صحیفوں میں لکھ لو" (الاتقان:۱/۱۲۸۔ فتح الباری:۹/۱۷) الغرض جو جو شخص بھی حضرت زید کے پاس قرآن مجید کی آیتیں لے کر آتا حضرت زیدرضی اللہ عنہٗ چارطریقوں سے اس کی تصدیق کرتے تھے: (۱)سب سے پہلے اپنے حافظہ سے اس کی تصدیق کرتے تھے۔ (۲)پھر جیسا کہ اوپر تحریر کیا جاچکا، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہٗ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ کو بھی اس کام میں ان کا معاون بنادیا تھا اس لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی اپنے حافظہ سے اس کی جانچ کرتے تھے۔ (۳)کوئی لکھی ہوئی آیت اس وقت تک قبول نہ کی جاتی تھی جب تک کہ دوقابل اعتبارگواہوں نے اس بات کی گواہی نہ دیدی ہو کہ یہ تحریر رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لکھی گئی ہے، حافظ سیوطی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ بظاہر اس بات کی بھی گواہی لی جاتی تھی کہ یہ لکھی ہوئی آیتیں حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے سال آپ پر پیش کردی گئی تھی اور آپ نے اس بات کی تصدیق فرمادی تھی کہ یہ ان حروفِ سبعہ کے مطاق ہے جن پر قرآن کریم نازل ہوا ہے (الاتقان:۱/۱۲۸،۱۲۹) علامہ سیوطی رحمہ اللہ کی اس بات کی تائید متعدد روایات سے بھی ہوتی ہے (الاتقان:۱/۱۱۰) (۴)اس کے بعد ان لکھی ہوئی آیتوں کا ان مجموعوں کے ساتھ مقابلہ کیا جاتا تھا، جو مختلف صحابہ رضی اللہ عنہم نے تیار کررکھے تھے، امام ابوشامہ فرماتے ہیں: "کہ اس طریقِ کار کا مقصد یہ تھا کہ قرآن کریم کی کتابت میں زیادہ سے زیادہ احتیاط سے کام لیا جائے اور صرف حافظہ پر اکتفا کرنے کے بجائے بعینہ ان تحریرات سے نقل کیا جائے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لکھی گئی تھی (الاتقان:۱/۱۲۸) عہدِصدیقی میں تیار کردہ نسخہ کی خصوصیات (۱)اس نسخہ میں آیاتِ قرآنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی ترتیب کے مطابق مرتب تھیں؛ لیکن سورتیں مرتب نہ تھیں ہرسورت الگ الگ پاروں کی شکل میں لکھی ہوئی تھی۔ (۲)اس نسخہ میں ایسی کوئی آیت آنے نہیں دی گئی جس کی تلاوت منسوخ ہوچکی ہو۔ (۳)اس نسخہ کے تیار کرنے میں پوری باریک بینی سے تلاش وتفحص کیا گیا اور پوری احتیاط کے ساتھ اسے قلمبند کیا گیا۔ (۴)یہ نسخہ ساتوں حروف کی رعایت پر مشتمل تھا۔ (۵)اس نسخہ کے لکھوانے کا اصل مقصد یہ تھا کہ ایک مرتب نسخہ تمام امت کی اجماعی تصدیق کے ساتھ تیار ہوجائے تاکہ ضرورت پڑنے پر اس کی طرف رجوع کیا جاسکے ۔ (مناہل العرفان:۱۸۲۔ آپ تلاوت کیسے کریں:۵۹) حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہٗ کی اس کوشش سے پہلے بعض صحابہ مثلاً حضرت علی رضی اللہ عنہٗ وغیرہ نے قرآن کریم کے جمع کرنے کی کوشش کی تھی جیسا کہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے (فتح الباری:۹/۱۵، الاتقان:۱/۱۲۸) اور کسی حد تک اس میں کامیاب رہے؛ لیکن وہ ان کی اپنی انفرادی کوشش تھی، ان کا نسخہ ان خصوصیات سے خالی تھا جو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہٗ کے تیار کردہ نسخہ میں پائے جاتے تھے، اس کے علاوہ امت کی اجماعی تصدیق بھی اسے حاصل نہ تھی؛ اس کے برعکس حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ وہ پہلے صحابی ہیں جنھوں نے پورے امت کی اجماعی تصدیق سے ایک معیاری نسخہ "قرآن عظیم" کا تیار کروایا اس لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے قرآن کریم کے تعلق سے سب سے زیادہ اجر پانے والے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں، اللہ ابوبکر رضی اللہ عنہٗ پر رحم فرمائے؛ انھوں نے سب سے پہلے قرآن کو جمع فرمایا۔ (فتح الباری:۹/۱۵) الغرض جب تک حضرت ابوبکر باحیات رہے وہ صحیفے انھیں کے پاس رہے؛ پھرحضرت عمر رضی اللہ عنہٗ کے پاس منتقل ہوے اور تاحیات انھیں کے پاس رہے؛ پھروہاں سے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہٗ کے پاس منتقل ہوے۔ (صحیح بخاری، فضائل القرآن، باب جمع القرآن:۲/۷۴۶، رقم:۴۹۸۷).