انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
جمعہ کی اذان ثانی مسجد کے اندر ہونا درست ہے؟ بعض حضرات کہتے ہیں کہ ابوداؤد میں حدیث ہے: كَانَ يُؤَذَّنُ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَاجَلَسَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ۔ (ابوداؤد، كِتَاب الصَّلَاةِ،بَاب النِّدَاءِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ،حدیث نمبر:۹۱۹، شاملہ، موقع الإسلام) اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جمعہ کی دوسری اذان بھی مسجد سے خارج ہونی چاہئے، علاوہ ازیں اذان فی المسجد کی کراہت کا اطلاق بھی اس کومقتضی ہے، اس کے باوجود یہ اذان منبر سے قریب کہنے کا عام دستور کیوں ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ بین یدی بمعنی قریب استعمال ہوتا ہے، یہ معنی اس قدر معروف اور متبادر ہیں کہ اس کے لیے دلیل کی حاجت نہیں، مع ھذا امام لغت امام راغب رحمہ اللہ تعالیٰ کی تحقیق ملاحظہ ہو، فرماتے ہیں: وَيُقَالُ هَذَا الشَّئْ بَيْنَ يَدَيْكَ أَيْ قَرِيْباً مِّنْكَ ۔ (مفردات غريب القرآن:۱/۶۸، شاملہ،موقع يعسوب، أبوالقاسم الحسين بن محمد المعروف بالراغب الاصفهانى۔ دیگر مکتبہ:۱/۱۴۲) لہٰذا حدیثِ مذکور میں بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کے الفاظ نص ہیں کہ اذان کا توارث وتعامل خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظِ نص ہیں کہ اذان بَيْنَ يَدَيْ الْخَطِیْبَ کا توارث وتعامل خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے؛ اگریہ الفاظِ حدیث سے نہ بھی ثابت ہوتے توبھی اُمت کا عمل متوارث ہی اس کے ثبوت پرحجت ہے؛ اس زمانہ میں مسجد نبوی زیادہ وسیع نہ تھی، عمدۃ القاری جلد نمبر:۲، صفحہ نمبر:۳۵۸، میں ہے کہ مسجد کے تین دروازے تھے، صحیح بخاری کی روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک دروازہ منبر کے سامنے تھا اور قرب باب کوعلی الباب سے تعبیر کرنا معروف ہے، حاصل یہ کہ یہ اذان حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آپ کے قریب ہوتی تھی اور سامنے کی طرف مسجد کا دروازہ بھی قریب ہی تھی؛ کیونکہ اوّلاً تومسجد ہی زیادہ وسیع نہ تھی؛ پھریہ دروازہ بھی صحن کا نہیں تھا؛ بلکہ مسقف حصہ کا تھا اس لیے کہ صحن مسجد پراحاطہ ہی نہیں تھا، جس میں دروازہ ہوتا، اس دروازہ سے بھی قریب ہوتا تھا، یعنی منبر اور اس کے سامنے کے دروازہ کے درمیان مسجد کے اندراذان ہوتی تھی۔ بالفرض یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ یہ اذان مسجد سے باہر ہوتی تھی تواس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت جمعہ کے لیے صرف یہی ایک ہی اذان تھی اس لیے تبلیغِ صوت کی خاطر مسجد سے خارج ہوتی تھی، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جب اذانِ اوّل کا اضافہ ہوا تواذانِ ثانی میں غائبین تک تبلیغِ صوت کی حاجت نہ رہی؛ بلکہ اس سے مقصد صرف تنبیہ حاضرین رہ گیا، چونکہ حاضرین مجسد کے اندر ہیں اس لیے ان کی خاطر اذان بھی مسجد کے اندر ہی متعین کردی گئی۔ (احسن الفتاویٰ:۴/۱۲۶، زکریا بکڈپو، دیوبند۔ فتاویٰ دارالعلوم دیوبند:۵/۸۱، مکتبہ دارالعلوم دیوبند، یوپی)