انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** اسلامی اندلس میں پھر طوائف الملوکی اوپر بیان ہوچکا ہے کہ جب اندلس کی خلافت بنو امیہ برباد ہوئی تو تمام جزیرہ نمائے اندلس میں بہت سی خود مختار اسلامی سلطنتیں الگ الگ قائم ہوگئی تھیں اورآپس میں ایک دوسرے کی مخالفت پر آمادہ تھیں، اس زمانہ میں عیسائی بادشاہوں نے خوب فائدہ اُٹھایا اوراپنی حدود کو وسیع کرکےاسلامی حکومت کے رقبہ کوکم کردیا،اس کے بعد مرابطین کی سلطنتِ اسلامی اندلس پر قابض و متصرف ہوگئی،یعنی الگ الگ چھوٹی چھوٹی مسلمان بادشاہتوں کا علاقہ مل کر ایک اسلامی سلطنت کے ماتحت ہوگیا، مگر جسقدر ملک اس گذشتہ طوائف الملوکی میں عیسائیوں کے قبضے میں پہنچ گیا تھا وہ عموماً واپس نہ ہوا، مرابطین کی سلطنت جب برباد ہوئی اوراس کی جگہ موحدین کی حکومت قائم ہوئی تو اس تبدیلی میں بھی عیسائیوں نے ایک قلیل حصہ اندلس کا اوردبالیا اور عیسائی مقبوضات اندلس میں زیادہ وسیع ہوگئے،اب موحدین کی سلطنت میں ضعف وانحطاط کے آثار ایسے وقت نمودار ہوئے جبکہ تمام یورپ مسلمانوں کی بیخ کنی پر آمادہ اورعیسائی لوگ مُسلم کشی کے لئے دیوانے ہورہے تھے،جنگ العقاب نے نہ صرف موحدین کی سلطنت کو پیغامِ مرگ پہنچایا ؛بلکہ عیسائیوں کے مقبوضات کو اندلس میں وسیع سے وسیع تر بنادیا،اسی زمانے میں اندلس سے مسلمانوں کا نام ونشان پورے طور پر مٹایا جاسکتا تھا،مگر عیسائی مجاہدین کی بد عنوانیوں اور نالائقیوں نے اندلسی عیسائیوں کو اُن سے متنفر کردیا اور اس طرح اندلسی عیسائیوں نے مسلمانوں کے استیصال کا کام کسی دوسرے وقت کے لئے ملتوی کردیا اور اس طرح اندلسی عیسائیوں نے مسلمانوں کے استیصال کا کام کسی دوسرے وقت کے لئے ملتوی کردیا، موحدین کی سلطنت جب اندلس سے مٹی ہے تو اندلس کا نصف سے زیادہ شمالی حصہ اور قریباً تمام مغربی صوبے عیسائیوں کے قبضہ و تصرف میں پہنچ چکے تھے،مسلمان ہٹتے اورسمٹتے ہوئے جنوب و مشرق کی طرف آگئے تھے،موحدین کی حکومت کے بعد بھی اُسی قسم کی طوائف الملوکی اندلس میں نمودار ہوئی ،جیسی کہ بنو امیہ کی حکومت کے بعد نمودار ہوئی تھی،مگر فرق یہ تھا کہ پہلی طوائف الملوکی میں مسلمانوں کا ملک زیادہ وسیع اورہر ایک رئیس کے قبضے میں بڑے بڑے صوبے تھے،اس طوائف الملوکی میں اسلامی اندلس کا رقبہ بہت مختصر ومحدود رہ گیا تھا اور اسی لیے ہر ایک رئیس کے قبضے میں بہت چھوٹے چھوٹے علاقے تھے،جس طرح پہلی طوائف الملوکی میں ایک دوسرے کے خون کا پیاسا تھا اسی طرح اس مرتبہ بھی ایک دوسرے کے جانی دشمن تھے؛بلکہ اس مرتبہ یہ اورمصیبت تھی کہ ہر ایک مسلمان رئیس دوسرے مسلمان رئیس کو برباد وتباہ کرانے کے لئے عماماً عیسائی بادشاہ کو چڑھا کر لاتا اوراس برادر کشی کے کام سے فارغ ہوکر اپنی مملکت کے بعض شہروں وقلعے عیسائی بادشاہ کی نذر کردیتا، عیسائی بہت خوش ہوتے اور مسلمانوں کی اس نالائقی کو اطمینان کی نظر سے دیکھتے تھے کہ ہمارا مقصود خود بخود حاصل ہورہا ہے۔