انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** نجران بعض واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ نجران میں بھی قدیم زمانہ سے یہود آباد تھے؛ لیکن یمن کی یہودی سلطنت کے زوال کا اثر نجران کے یہودیوں پربھی پڑا اور آہستہ آہستہ ان کی آبادی وہاں سے ختم ہوگئی اور ان کی جگہ نصرانیوں نے لے لی، ظہورِ اسلام سے پہلے نجران میں یہود کی موجودگی کے واقعات کے سلسلہ میں یہ واقعہ اربابِ تاریخ اور مفسرین عام طور پرلکھتے ہیں کہ عیسائیوں نے نجران کے کسی یہودی کے دولڑکوں کوکسی وجہ سے قتل کردیا، یہودی نے یمن کے یہودی حکمران ذونواس سے دادرسی کی، اس نے نجران پرحملہ کیا (اس حملہ کے سلسلہ میں یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ نجران کے عیسائیوں کارحجان اور ان کا تعاون دینی رشتہ کی بناپر حبشہ کی عیسائی حکومت کے ساتھ زیادہ تھا اور یمن کے یہودی حکمرانوں اور حبشہ کے عیسائی حکمرانوں میں برسوں سے سیاسی کشمکش چل رہی تھی، اس کشمکش کی موجودگی میں اہلِ نجران کی یہ روش یہودیوں کے لیے سیاسی حیثیت سے خلش کا سبب بنی ہوئی تھی، حبشہ پربراہِ راست حملہ کرنا ان کے بس سے باہر تھا، اس لیے انھوں نے نجران ہی کواپنی دشمنی کا نشانہ بنایا؛ ممکن ہے یہودی بچوں کے قتل ہی کویہودیوں نے نجران پرحملہ کرنے کا ایک سیاسی اور قانونی بہانہ بنایا ہو، جس طرح یمن کے عیسائیوں نے کعبہ پرحملہ کے لیے ایک معمولی بہانہ نکلال لیا تھا) اور وہاں کی عیسائی آبادی کا قتلِ عام کیا جس کی طرف قرآن کی اس آیت میں اشارہ ہے: قُتِلَ أَصْحَابُ الْأُخْدُودِo النَّارِ ذَاتِ الْوَقُودِ۔ (البروج:۴،۵) ترجمہ:کہ خدا کی مار ہے اُن خندق (کھودنے) والوں پرo اُس آگ والوں پرجوایندھن سے بھری ہوئی تھی۔ (توضیح القرآن:۳/۱۹۱۱، مفتی تقی عثمانی) اِس آیت کے شانِ نزول کے سلسہ میں تفسیروں میں متعدد واقعات مذکور ہیں؛ ممکن ہے ایک ہی واقعہ نے متعدد جگہ پرمختلف شکلیں اختیار کرلی ہوں، جیسا کہ عام طور پراس قسم کے واقعات میں ہوتا ہے۔ یہ واقعہ ظہورِ اسلام سے ایک صدی پہلے کا ہے، اس کے بعد ہی یمن کی یہودی سلطنت ذونواس کے بعد ختم ہوگئی اور پھریہودیوں کوجزیرۂ عرب میں سیاسی غلبہ نہیں ہوا، اس زوال کا اثر یہودیوں کی تمام آبادیوں پرپڑا، ظہورِ اسلام کے وقت نجران میں عیسائیوں کے ساتھ یہود بھی آباد تھے؛ مگرتاریخ کی عام کتابوں میں اس کا ذکر نہیں ملتا؛ البتہ ابوداؤد کی ایک روایت سے ان کی آبادی کا پتہ چلتا ہے اور وہ یہ ہے کہ نجران میں یہود کی آبادی تھی جوحضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے تک باقی رہے اور آپ ہی کے زمانہ میں بعض سیاسی مصلحتوں کی بناپر جلاوطن کردیے گئے۔ (ابوداؤد، جلد دوّم) آئندہ اوراق میں جزیرۂ عرب میں عیسائیت کے عنوان کے تحت اس کی پوری تفصیل آئے گی۔