انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** قبول حق امیر معاویہؓ کی حکومت کو شخصی حکومت اورانہیں مستبد فرما نروا مانا جاتا ہے؛ لیکن اس کے باوجود انہوں نے سچی بات کے قبول کرنے میں کبھی عار نہ کیا، ایک مرتبہ ان سے حضرت ابو مریمؓ ازدی نے کہا رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے کہ خدا جس شخص کو مسلمانوں کا والی بنائے اگر وہ ان کی حاجتوں سے آنکھ بند کرکے پردہ میں بیٹھ جائے تو قیامت کے دن خدا بھی اس کی حاجتوں کے سامنے پردہ ڈال دے گا، امیر پر اس کا یہ اثر ہوا کہ انہوں نے عام لوگوں کی حاجت روائی کے لئے ایک مستقل آدمی مقرر کردیا۔ (ابوداؤد کتاب الخراج والامارہ) حضرت مقدام معدیکر ب کے بعض ممنوعات پر ٹوکنے اوراس کے صلہ میں ان کو امیر معاویہؓ کے انعام دینے کا واقعہ اوپر گذر چکا ہے۔ ضبط و تحمل امیر معاویہؓ کو جس قدر دنیاوی جاہ و جلال اورقوت واقتدار حاصل تھا، اس سے ہر تاریخ دان واقف ہے؛ لیکن اس دنیاوی وجاہت کے باوجود وہ حددرجہ متحمل مزاج تھے، وہ مورخین بھی جو ان کے مخالف ہیں ان کے اس وصف کے معترف ہیں ؛چنانچہ علامہ ابن طقطقی لکھتے ہیں کہ معاویہ حلم کے موقعہ پر حلم سے اورسختی کے موقع پر سختی سے کام لیتے تھے؛ لیکن حلم کا پہلو غالب تھا (الفخری:۹۵) جو لوگ ان کے ساتھ رہ چکے تھے وہ اپنا تجربہ بیان کرتے ہیں کہ میں معاویہ کی صحبت میں رہا، ان سے زیادہ کسی کو حلیم نہیں پایا، (تاریخ الخلفاء،سیوطی:۱۹۴) وہ تلخ سے تلخ اورناگوار سے ناگوار باتیں شربت کی طرح پی جاتے تھے ؛چنانچہ وہ کہا کرتے تھے کہ غصہ پی جانے سے زیادہ میرے لئے کوئی شئے لذیذ نہیں (طبری:۷/۲۱۳) ان کے حلم اورعفو پر جب کوئی شخص ٹوکتا تو جواب دیتے تھے کہ مجھے شرم معلوم ہوتی ہے کہ کسی کا گناہ میرے عفو سے اور کسی کی جہالت میرے حلم سے بڑھ جائے یا میں کسی کے عیب کی پردہ پوشی نہ کروں۔ اور وہ عملاً اس پر کار بند تھے،عبدالملک بن عمیر روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک شخص نے امیر معاویہؓ سے بڑی بد کلامی کی، کسی نے متعجب ہوکر پوچھا آپ اس حد تک انگیز کرلیتے ہیں جواب دیا کہ میں اس وقت تک لوگوں کی زبانون کے درمیان حائل نہیں ہوتا، جب تک وہ میری حکومت میں حائل نہ ہوں، ایک مرتبہ ایک شخص نے کہا معاویہ ہمارے ساتھ سیدھے رہو ورنہ تم کو درست کردیں گے، امیر نے پوچھا کس چیز سے اس نے کہا لکڑی سے جو ابد یا اس وقت سیدھے ہوجائیں گے۔ (تاریخ الخلفاء :۱۹۴) اسی طرح ایک مرتبہ ایک شخص نے ان سے بڑی بد کلامی کی، کسی نے کہا آپ اس کو سزا کیوں نہیں دیتے، جواب دیا مجھے خدا سے شرم آتی ہے کہ میرے حلم کا دامن میری رعایا کے گناہ کے مقابلہ میں تنگ ہوجائے، (البدایہ والنہایہ:۸/۱۳۸)ایک شخص ابو جہم نے ایک مرتبہ امیر معاویہؓ سے درشت گفتگو کی امیر معاویہؓ نے سن کر سرجھکا لیا پھر سر اٹھا کر کہا ابو جہم حاکم وقت سے بچا کرو، وہ بچوں کی طرح بگڑ جاتا ہے اور شیر کی طرح پکڑتا ہے اوراس کے تھوڑے غصہ کی لپیٹ میں بہت سے لوگ آجاتے ہیں، اس نصیحت کے بعد ابو جہم کو انعام دیا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ان کی مدح میں رطب اللسان ہوگئے (ایضا:۱۶) انہوں نے اپنے خاندان والوں کو نصیحت کی تھی کہ قریش کے ساتھ ہمیشہ حلم کے ساتھ پیش آیا کرو میرا حال یہ تھا کہ زمانہ جاہلیت میں جب کوئی شخص مجھ کو برا بھلا کہتا تھا تو میں حلم سے اس کا جواب دیتا تھا اس کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ وہ میرا دوست بن جاتا تھا اورہر وقت میری امدادوحمایت کے لئے تیار رہتا تھا، حلم سے کسی شریف کی شرافت میں فرق نہیں ؛بلکہ اس کی عزت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے، انسان اس وقت تک صائب الرائے نہیں ہوسکتا جب تک اس کی جہالت پر اس کا حلم اوراس کی خواہشات پر ضبط نفس غالب نہ آجائے۔ (البدایہ والنہایہ:۸/۱۶) چنانچہ قریش خصوصا ًبنی ہاشم اورآل ابی طالب کے افراد ان کو سخت سے سخت باتیں کہتے تھے؛ لیکن امیر معاویہؓ کبھی مذاق میں ٹال جاتے اورکبھی سنی ان سنی بنادیتے اوران کی اس سخت کلامی پر بھی ان کو مہمان بناتے ،خاطر مدارات کرتے اورانعام واکرام دیتے۔ (الفخری:۹۵)