انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** ابن زیاد کا تہدیدی فرمان ابن سعد گو دنیاوی جاہ وحشم کی طمع میں حضرت حسینؓ سے لڑنے پر آمادہ ہوگیا تھا پھر بھی متعدد وجوہ سے اس کا دل اب تک برابر ملامت کررہا تھا، حضرت حسینؓ کی ذات گرامی وہ تھی کہ قرابت نبویﷺ کی وجہ سے غیر متعلق اوربیگانہ اشخاص بھی مشکل سے آپ کے ساتھ کسی بد سلوکی کی جرأت کرسکتے تھے اور ابن سعد تو آپ کا عزیز بھی تھا اس لئے نینوٰی آنے کے بعد بھی وہ برابر جنگ ٹالتا رہا کہ شاید اس طرح اس گناہ عظیم سے بچنے کی کوئی صورت نکل آئے، ابن زیاد نے اس ڈھیل کو محسوس کیا تو آخر میں نہایت سخت فرمان بھیجا کہ میں نے تم کو اس لئے نہیں بھیجا ہے کہ تم ڈھیل دیتے رہو، دن بڑھاتے چلے جاؤ اورحسینؓ کے سفارشی بن کر ان کی بقا اور ان کی سلامتی کی تمنا کرو، تم حسینؓ اوران کے ساتھیوں سے میرا حکم ماننے کے لئے کہو اگر مان جائیں تو سب کو ہمارے پاس بھیج دو، ورنہ فوراً حملہ کردو، کہ دو سرکش اورجھگڑنے والے ہیں اوراگر یہ کام تم سے نہ ہوسکے تو فوج ذی الجوشن کے حوالہ کرکے تم الگ ہوجاؤ، ہم نے جو حکم دیا ہے اسے وہ پورا کریں گے۔ (طبری:۷/۳۱۶) ابن زیاد نے یہ فرمان شمر ذی الجوشن اور عبداللہ بن ابی المحل کے ذریعہ سے ابن سعد کے پاس بھجوایا تھا،عبداللہ کی پھوپھی ام نبین حضرت علیؓ کو بیاہی تھیں، اور عباس، عبداللہ ،جعفر اورعثمان ان ہی کے بطن سے تھے ،اس لئے عبداللہ نے اسے اپنے غلام کرمان کے ہاتھ عباس وغیرہ کے پاس بھجوادیا،غلام نے انہیں لیجا کر دیا کہ تمہارے ماموں نے یہ امان نامہ دیا ہے اس پر غیور باحمیت بھانجوں نے جواب دیا کہ ماموں سے جاکر سلام کہنا اور کہنا امان نامہ پہنچا، لیکن ہمیں امان کی ضرورت نہیں،خدا کی امان ابن سمیہ (ابن زیاد) کی امان سے بہتر ہے۔ (طبری:۷/۳۱۶)