انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** (۵)فروع فقہیہ میں احادیث احکام جس طرح فروع فقہیہ میں محفوظ ہوئیں اس کی مثال نہیں ملتی،مجتہدین کی پوری کوشش ہوتی؛کہ احادیث احکام میں راویوں کی پڑتال اور دیکھ بھال کچھ سخت رہے،حفاظت حدیث میں یہ فکر ہر باب میں کار فرما رہی، آنحضرتﷺ کا دین عالمگیر ہے اور قیامت تک کے لیے ہے اور زندگی کے ہر دور کو شامل ہے، قرآن کریم کی آیات اورآنحضرتﷺ کی احادیث میں لاکھوں ایسے مسائل اصولی طور پر لپٹے ہوئے ہیں جن تک مجتہدوں کی نظر ہی پہنچ سکتی ہے ہر ایک کی نہیں، مجتہدین کرام کتاب و سنت کی اسی گہرائی میں غوطےلگاتے رہے اور آیات واحادیث کی روشنی میں ان جزئیات کا حل تلاش کرتے رہے جو واضح اور صریح الفاظ میں پہلے سے مروی نہ ہوں، اجتہاد یعنی اصل سے فرع تک حکم پہنچانے میں ان کی پوری محنت کار فرما ہوتی تھی۔ اس سے پتہ چلتا ہے؛کہ احادیث کے مظان و محال اوراس کی دلالتوں اور اضافتوں کی حفاظت فروع فقہیہ میں ایک عجیب شان سے جلوہ گررہی، احادیث کی حفاظت جس طرح محدثین کے ہاں نقل وروایت کے ذریعہ جاری رہی، فقہاء کرام کے ہاں فروع و احکام کے ضمن میں ساری ہے،امام ترمذیؒ (۲۷۹ھ) ایک بحث میں لکھتے ہیں: "وَكَذَلِكَ قَالَ الْفُقَهَاءُ وَهُمْ أَعْلَمُ بِمَعَانِي الْحَدِيثِ"۔ (سنن الترمذی، باب ماجاء فی غسل المیت،حدیث نمبر:۹۱۱) ترجمہ: اوراسی طرح فقہاء نے کہا ہے اور یہ لوگ(فقہ کے ماہرین) ہی حدیث کے معنوں کو زیادہ جانتے ہیں۔ خطیب بغدادی (۴۶۳ھ) احمد بن محمد بن خالد البراثی سے روایت کرتے ہیں؛کہ ایک شخص حضرت امام احمد بن حنبلؒ کی خدمت میں حاضر ہوا اور حلال و حرام سے متعلق ایک مسئلے میں استفسار کیا،حضرت امام نے اس مسئلے میں اسے فقہاء کی طرف رجوع کرنے کی ہدایت فرمائی، اس سے پتہ چلتا ہے؛کہ حدیث کا حاصل فقہاء سے ہی ملتا تھا،حضرت امام نے اس سے فرمایا: "سل عافاک اللہ غیرنا سل الفقہاء وسل اباثور"۔ (بغدادی:۶/۶۶) ترجمہ: اللہ تجھے عافیت بخشے، کسی اور سے پوچھ، فقہا سے سوال کر ابوثور سے پوچھ لے۔