انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** عذابِ برزخ اگر کوئی انسان اپنی زندگی میں گناہوں سے پاکی حاصل نہیں کیا یا گناہ اتنے زیادہ تھے کہ اس کی دنیوی زندگی کے مذکورہ تین کفارے(نیکیاں،توبہ،مصائب) بھی اس کو دھوکر پاک نہیں کرسکے تو پھر اس کو مرنے کے بعد برزخ کے عالم (قبر) میں اپنے بداعمال کے مناسب سزاؤں کی صورتوں میں تکلیفیں اٹھا کر پاک وصاف ہونا پڑیگا۔ اس سے ظاہر ہوا کہ عالم برزخ کی یہ سزائیں اللہ تعالی نے اس لیے رکھی ہیں کہ ہم نے دنیا میں اپنی خواہشات سے بچنے کی جو زحمت نہیں اٹھائی اورنیک کام کرکے جو تھوڑی سی تکالیف برداشت نہیں کی ہیں اب ان دونوں کے بدلے میں عالم برزخ میں آکر عذاب کی تکالیف اٹھالیں تاکہ اگلی دائمی زندگی کے دروازے پر پہنچے تو ہم ان سزاؤں کے ذریعہ پاک وصاف ہوکر اپنی جنت حاصل کرسکیں، جو صرف پاک اوربے گناہ لوگوں کی جگہ ہے،جیسا کہ بعض احادیث میں آیا ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی رویت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا:میری امت کے لوگوں کا اپنی قبروں میں طبعی مدت تک رہنا ان کو گناہوں سے پاک کردیتا ہے۔ (کنزالعمال، الفصل الثانی فی عذاب القبر، حدیث نمبر:۴۲۵۲۱) حافظ ابن قیم ایک موقع پر لکھتے ہیں: اگر ان بیماریوں کا یہ علاج اس دنیا میں نجات کے لیے پورا ہوگیا تواچھا ہے ورنہ برزخ کی سزا سے علاج کیا جائے گا پھر اگر یہ علاج نجات کے لیے کافی ہوگیا تو اچھا ہے ورنہ پھر قیامت کا مقام اوراس کی ہولناکیاں باقی بیماریوں سے نجات دلائیں گے۔ (شفاء العلیل لابن القیم،۲۴/۹۶)