انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** احوال برزخ مرنے کےبعد مرنے کے بعد تین منزلیں آنے والی ہیں: پہلی منزل مرنے کے وقت سے لے کر قیامت آنے تک کی ہے،اس کو عالمِ برزخ کہتے ہیں،مرنے کے بعد آدمی کا جسم چاہے زمین میں دفن کردیا جائے،چاہے دریا میں بہادیاجائے، چاہے جلاکر راکھ کردیاجائے،لیکن اس کی روح کسی صورت میں بھی فنا نہیں ہوتی،صرف اتنا ہوتا ہے کہ وہ ہماری اس دنیا سے منتقل ہوکر ایک دوسرے عالم میں چلی جاتی ہے ،وہاں اللہ کے فرشتے اس کے دین ومذہب کے متعلق اس سے کچھ سوالات کرتے ہیں وہ اگر سچا ایمان والا ہے تو صحیح صحیح جواب دے دیتا ہے جس پر فرشتے اس کو خوش خبری سنادیتے ہیں،کہ توقیامت تک چین وآرام سے رہ اور اگروہ مومن نہیں ہوتا بلکہ کافر، یا صرف نام کا مسلمان منافق ہوتا ہے تو اسی وقت سے سخت عذاب اوردکھ میں مبتلاکردیا جاتا ہے ،جس کا سلسلہ قیامت تک جاری رہتا ہے،یہی برزخ کی منزل ہے،جس کا زمانہ مرنے کے وقت سے لیکر قیامت تک کا ہے۔ عالم برزخ کےحالات درج ذیل احادیث میں وضاحت کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں: عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا وُضِعَتْ الْجِنَازَةُ وَاحْتَمَلَهَا الرِّجَالُ عَلَى أَعْنَاقِهِمْ فَإِنْ كَانَتْ صَالِحَةً قَالَتْ قَدِّمُونِي وَإِنْ كَانَتْ غَيْرَ صَالِحَةٍ قَالَتْ يَا وَيْلَهَا أَيْنَ يَذْهَبُونَ بِهَا، يَسْمَعُ صَوْتَهَا كُلُّ شَيْءٍ إِلَّا الْإِنْسَانَ وَلَوْ سَمِعَهُ صَعِقَ۔ (بخاری،بَاب حَمْلِ الرِّجَالِ الْجِنَازَةَ دُونَ النِّسَاءِ،حدیث نمبر:۱۲۳۰) حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب نعش(چار پائی) پر رکھ دی جاتی ہےاور لوگ اس کو اپنی گردنوں پر اٹھالیتے ہیں تو وہ اگر نیک تھا تو کہتا ہے کہ مجھے جلد لے چلو اور وہ اگر نیک نہ تھا تو گھر والوں سے کہتا ہے کہ ہائے میری بربادی مجھے کہاں لے جاتے ہو (پھر فرمایا)کہ انسان کے علاوہ ہر چیز اس کی آواز سنتی ہے اگر انسان اس کی آواز سن لے تو بے ہوش ہوجائے۔ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ رِبْعِيٍّ عَنْ حُذَيْفَةَعَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ كَانَ رَجُلٌ مِمَّنْ كَانَ قَبْلَكُمْ يُسِيءُ الظَّنَّ بِعَمَلِهِ فَقَالَ لِأَهْلِهِ إِذَا أَنَا مُتُّ فَخُذُونِي فَذَرُّونِي فِي الْبَحْرِ فِي يَوْمٍ صَائِفٍ فَفَعَلُوا بِهِ فَجَمَعَهُ اللَّهُ ثُمَّ قَالَ مَا حَمَلَكَ عَلَى الَّذِي صَنَعْتَ قَالَ مَا حَمَلَنِي إِلَّا مَخَافَتُكَ فَغَفَرَ لَهُ۔ (بخاری،بَاب الْخَوْفِ مِنْ اللَّه،حدیث نمبر:۵۹۹۹) حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:تم سے پہلے(زمانےمیں) ایک آدمی اپنے اعمال کی وجہ سے برا گمان رکھتا تھا وہ شخص اپنے گھر والوں سے کہنے لگا جب میں مرجاؤں تو مجھے ریزہ ریزہ کرکے گرم دن میں اٹھاکر دریا میں ڈال دینا، گھر والوں نے ایسا ہی کیا، اللہ نے اس کو جمع کیا پھر پوچھا تجھے ایسا کرنے کے لیے کس چیز نے ابھارا،اس نے کہا مجھے کسی نے نہیں ابھارا سوائے آپ کے ڈر کے تو اللہ نے اس کی مغفرت فرمادی۔ عن قيس بن قبيصةمن لم يوص لم يؤذن له في الكلام مع الموتى قيل يا رسول اللہ ويتكلمون قال رغم يتزاورون۔ (دیلمی ،مسندالفردوس ،حدیث نمبر:۵۹۴۵) (سندہ ضعیف،الاصابۃ فی معرفۃ الصحابۃ ،ذکر من اسمہ قیس،۲/۴۷۶) جس نے وصیت نہیں کی اس کو بات کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی مردوں کے ساتھ کسی نےعرض کیایا رسول اللہ کیا مردے کلام بھی سنتے ہیں،ارشاد فرمایا: ہاں اور ایک دوسرے سےملاقات بھی کرتے ہیں۔ قبر کے احوال حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ( ایک دن) ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک انصاری کے جنازے میں قبرستان گئے،جب قبر تک پہنچے تو دیکھا کہ ابھی لحد نہیں بنائی گئی ہے اس وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے اور ہم بھی آپ کے آس پاس (باادب)اس طرح بیٹھ گئے جیسے ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں ،رسول اللہ صلی اللہ سلیہ وسلم کے ہاتھ مبارک میں ایک لکڑی تھی جس سے زمین کرید رہے تھے (جیسے کوئی غمگین کرتا ہے )آپ نے سر مبارک اٹھا کر فرمایا قبر کے عذاب سے پناہ مانگو دو یا تین مرتبہ یہی فرمایا ،پھر فرمایا کہ بلا شبہ جب مؤمن بندہ دنیا سے جانے اور آخرت کا رخ کرنے کو ہوتا ہے تو اس کےپاس آسمان سے فرشتے آتے ہیں ،جن کے سفید چہرے سورج کی طرح روشن ہوتے ہیں ،ان کے ساتھ جنتی کفن ہوتا ہے اور جنت کی خوشبو ہوتی ہے یہ فرشتے اس قدر ہوتے ہیں کہ جہاں تک اس کی نظر پہنچے وہاں تک بیٹھ جاتے ہیں پھر حضرت ملک الموت تشریف لاتے ہیں حتی کے اس کے پاس بیٹھ جاتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اے پاکیزہ روح اللہ کی مغفرت اور اس کی رضامندی کی طرف چل؛چنانچہ اس کی روح اس طرح سہولت سے نکل آتی ہے جیسے مشکیزہ میں سے(پانی کا )قطرہ باہر آجاتا ہے ،پس اسے حضرت ملک الموت علیہ السلام لے لیتے ہیں ان کے ہاتھ میں لیتے ہی دوسرے فرشتے(جو دور تک بیٹھے ہوتے ہیں )پل بھر بھی ان کے ہاتھ میں نہیں چھوڑتے حتی کہ اسے لے کر اسی کفن اور خوشبو میں رکھ کر لیتے ہیں اس خوشبو کے متعلق ارشاد فرمایا کہ زمین پر جو کبھی عمدہ سےعمدہ خوشبو مشک کی پائی گئی ہے اس جیسی وہ خوشبو ہوتی ہے ،پھر فرمایا کہ اس روح کو لے کر فرشتے (آسمان کی طرف)چڑھنے لگتے ہیں اور فرشتوں کی جس جماعت پر بھی ان کا گزر ہوتا ہے وہ کہتے ہیں کہ یہ کون پاکیزہ روح ہے وہ اس کا اچھے سے اچھا نام لے کر جواب دیتے ہیں جس سے دنیا میں بلایا جاتاتھاکہ فلاں کا بیٹا فلاں ہے اسی طرح پہلے آسمان تک پہنچتے ہیں اور آسمان کا دروازہ کھلواتے ہیں ؛چنانچہ دروازہ کھول دیا جاتا ہے (اور وہ اس روح کو لے کر اوپر چلے جاتے ہیں )حتی کہ ساتویں آسمان پر پہنچ جاتے ہیں،ہر آسمان کے مقربین دوسرے آسمان تک اسے رخصت کرتے ہیں(جب ساتویں آسمان تک پہنچ جاتے ہیں)تو اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ میرے بندے کانام علیین میں لکھ دو اور اسے زمین پر واپس لے جاؤ،کیونکہ میں نے انسان کو زمین ہی سے پیدا کیا ہے اور اسی میں ان کو لوٹادوں گا اور اسی سے ان کو دوبارہ نکالوں گا چنانچہ اس کی روح اس کے جسم میں واپس کردی جاتی ہے اس کے بعد دو فرشتے اس کے پاس آتے ہیں اور اسے بٹھاتے ہیں اور اس سے سوال کرتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے ؟وہ جواب دیتا ہے میرا رب اللہ ہے پھر اس سے پوچھتے ہیں کہ تیرا دین کیا ہے ؟وہ جواب دیتا ہے میرا دین اسلام ہے پھر اس سے پوچھتے ہیں کہ یہ کون صاحب ہیں جو تمہارے اندر بھیجے گئے ہیں ؟وہ کہتا ہے کہ وہ اللہ کے رسول ہیں (صلی اللہ علیہ وسلم)پھر اس سے دریافت کرتے ہیں کہ تیرا عمل کیا ہے ؟وہ کہتا ہے کہ میں نے اللہ کی کتاب پڑھی سو اس پر ایمان لایا اور اس کی تصدیق کی، اس کے بعد ایک منادی آسمان سے آواز دیتا ہے (جو اللہ کا منادی ہوتا ہے)کہ میرے بندہ نے سچ کہا سو اس کے لیے جنت کے بچھونے بچھادو اور اس کو جنت کے کپڑے پہنادو اور اس کے لیے جنت کی طرف دروازہ کھول دو ؛چنانچہ جنت کی طرف دروازہ کھول دیا جاتا ہے جس کے ذریعے جنت کا آرام اور خوشبو آتی رہتی ہے اور اس کی قبر اتنی کشادہ کردی جاتی ہے کہ جہاں تک اس کی نظر پہنچے،اس کے بعد نہایت خوبصورت چہرے والا بہترین لباس والا ،پاکیزہ خوشبو والا ایک شخص اس کے پاس آکر کہتا ہے کہ خوشی کی چیزوں کی بشارت سن لے یہ تیرا وہ دن ہے جس کا تجھ سے وعدہ کیا جاتا تھا وہ کہتا ہے تم کون ہو ؟تمہارا چہرہ حقیقت میں چہرہ کہنے کے لائق ہے اور اس لائق ہے کہ اچھی خبر لائے وہ کہتا ہے میں تیرا عملِ صالح ہوں،اس کے بعد وہ (خوشی میں) کہتا ہےکہ اے رب قیامت قائم فرما تاکہ میں اپنے اہل وعیال اور مال میں پہنچ جاؤں۔ اور بلا شبہ جب کافر بندہ دنیا سے جانے اور آخرت کا رخ کرنے کو ہوتا ہے تو سیاہ چہرے والے فرشتے آسمان سے اس کے پاس آتے ہیں جن کے ساتھ ٹاٹ ہوتے ہیں اور اس کے پاس اتنی دور تک بیٹھ جاتے ہیں، جہاں تک اس کی نظر پہنچتی ہے پھر ملک الموت تشریف لاتے ہیں حتی کے اس کے سر کے پاس بیٹھ جاتے ہیں پھر کہتے ہیں کہ اے خبیث جان اللہ کی ناراضگی کی طرف نکل ملک الموت کا یہ فرمان سن کر روح اس کے جسم میں ادھرادھربھاگی پھرتی ہے ؛لہذا ملک ا لموت اس کے جسم سے روح کو اس طرح نکالتے ہیں جیسے بوٹیاں بھوننے کی سیخ بھیگے ہوئے اون سے صاف کی جاتی ہے ،پھر اس کی روح کو ملک الموت( اپنے ہاتھ میں) لے لیتے ہیں اور ان کے ہاتھ میں لیتے ہی دوسرے فرشتے پل جھپکنے کے برابر بھی ان کے پاس نہیں چھوڑتے حتی کے فورا ان سے لے کر اس کو ٹاٹوں میں لپٹ دیتےہیں(جو ان کے پاس ہوتے ہیں )اور ان ٹاٹوں میں سے ایسی بدبو آتی ہے جیسی کبھی کسی بدترین سڑی ہوئی مردہ نعش سے روئے زمین پر بد بو پھوٹی ہو وہ فرشتے اسے لے کر آسمان کی طرف چڑھتے ہیں اور فرشتوں کی جس جماعت پر پہنچتے ہیں وہ کہتے ہیں یہ کون خبیث روح ہے وہ اس کا برے سے برا نام لے کر کہتے ہیں جس سے وہ دنیا میں بلایا جاتا تھا کہ فلاں کا بیٹا فلاں ہے حتی کے وہ اسے لے کر پہلے آسمان تک پہنچتے ہیں اور دروازہ کھلوانا چاہتے ہیں مگر اس کے لیے دروازہ نہیں کھولا جاتا ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت فرمائی: لَا تُفَتَّحُ لَہُمْ اَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا یَدْخُلُوْنَ الْجَـنَّۃَ حَتّٰی یَـلِجَ الْجَمَلُ فِیْ سَمِّ الْخِیَاطِ (اعراف:۴۰)۔ ان کے لیے آسمان کے دروازے نہ کھولے جائیں گےاور نہ وہ کبھی جنت میں داخل ہوں گےجب تک اونٹ سوئی کے ناکے میں نہ چلا جائے۔ (اور اونٹ سوئی کے ناکے میں جا نہیں سکتا لہذا وہ بھی جنت میں نہیں جاسکتے)۔ پھر اللہ عز وجل فرماتے ہیں کہ اس کانام سجین میں لکھ دوجو سب سے نیچی زمین میں ہے چنانچہ اس کی روح سب سے نیچی زمین میں پھینک دی جاتی ہے،پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: وَمَنْ یُّشْرِکْ بِاللہِ فَکَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُہُ الطَّیْرُ اَوْ تَہْوِیْ بِہِ الرِّیْحُ فِیْ مَکَانٍ سَحِیْقٍ (حج:۳۱) اور جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے گویا وہ آسمان سے گر پڑا پھر پرندوں نے اس کی بوٹیاں نوچ لیں یا ہوا نے اس کو دور دراز جگہ میں لے جاکر پھینک دیا ۔ پھر اس کی روح اس کے جسم میں لوٹادی جاتی ہے،اور اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اسے بٹھاکر پوچھتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے وہ کہتا ہے ہائے ہائے مجھے پتہ نہیں پھر اس سے دریافت کرتے ہیں کہ تیرا دین کیا ہے وہ کہتا ہے مجھے پتہ نہیں پھر اس سے دریافت کرتے ہیں کہ یہ شخص کون ہے جو تمہارے پاس بھیجے گئے وہ کہتا ہے ہائے ہائے مجھے پتہ نہیں ،پھر آسمان سے ایک منادی آواز دیتا ہے کہ اس نے جھوٹ کہااس کے نیچے آگ بچھا دو اس کے لیے دوزخ کا دروازہ کھول دو چنانچہ دوزخ کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے اور دوزخ کی تپش اور سخت گرم لو آتی رہتی ہے اور قبر اس پر تنگ کردی جاتی ہے حتی کے اس کی پسلیاں آپس میں ملکر ادھر کی ادھر چلی جاتی ہیں ،اور اس کے پاس ایک شخص آتا ہے جو بد صورت اور برے کپڑے پہنے ہوئے ہوتا ہے اس کے جسم سے بری بدبو آتی ہے وہ شخص اس سے کہتا ہے مصیبت کی خبر سن لے یہ وہ دن ہے جس کا تجھ سے وعدہ کیا جاتا تھا وہ کہتا ہے تو کون ہے واقعی تیری صورت اسی لائق ہے کہ بری خبر سنائے وہ کہتا ہے کہ میں تیرا برا عمل ہوں،یہ سن کر(اس ڈر سے کہ میں قیامت میں اس سے زیادہ عذاب میں گرفتار ہوں گا )یہ کہتا ہے کہ یارب !قیامت قائم نہ کر۔ (مسند احمد،حدیث براء بن عازب،حدیث نمبر:۱۷۸۰۳)