انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ۳۵۔طاؤس بن کیسانؒ نام ونسب طاؤس نام عبدالرحمن کنیت بحیرین ریسان حمیری کے غلام تھے،ان کے والد نسلاً عجمی تھے،لیکن آل حمدان سے تعلقات پیدا کرکے یمن کے شہر جند میں بود وباش اختیار کرلی تھی۔ فضل وکمال فضل وکمال کے اعتبار سے طاؤس کا شمار کبار تابعین میں تھا، علامہ نووی لکھتے ہیں طاؤس صاحبِ علم وفضل اورکبار تابعین میں تھے،ان کی جلالت ،فضیلت اور علم اورصلاح وحفظ پر سب کا اتفاق ہے (تہذیب الاسماء،ج اول،ق اول،ص ۲۵۱) ابن عماد حنبلی لکھتے ہیں کہ وہ امام اور علم و عمل کے اعتبار سے علماء اعلام میں تھے۔ (شذرات الذہب:۱/۱۳۳) حدیث حدیث کے وہ بڑے حافظ تھے ان کا حفظِ حدیث ارباب علم میں مسلم تھا ۔(تہذیب الاسماء:جلد اول، ق اول،ص۲۵۱)پچاس صحابہ کے دیدار کا شرف حاصل تھا،ان میں عبداللہ بن عمرؓ ،عمروؓ بن عباس،ابن عمروبن العاصؓ، ابن زبیرؓ،زید بن ارقمؓ،زید بن ثابتؓ،ابو ہریرہؓ، عائشہ صدیقہؓ،سراقہ بن مالکؓ،صفوان بن امیہؓ، اور جابرؓ وغیرہ صحابہ کرام کے سرچشمہ علم سے سیراب ہوئے تھے،حبر الامۃ عبداللہ بن مسعودؓ سے خصوصیت کے ساتھ زیادہ استفادہ کیا تھا۔ فقہ فقہ میں بڑا پایہ تھا،علامہ ابن خلکان لکھتے ہیں: کان فقیھا جلیل القدر رفیع الذکر تلامذہ تلامذہ کا دائرہ بھی خاصا وسیع تھا،ان میں سے بعض کے نام یہ ہیں، آپ کےصاحبزادے عبداللہ،وہب بن میسرہ،جلیب بن ابی ثابت، اصم بن عتیبہ،حسن بن مسلم، سلیمان بن موسیٰ ،عبد الکریم حزری،عبدالملک بن میسرہ ،عمرو بن شعیب ،عمروبن دینار ،عمرو بن مسلم،قیس بن سعد، مجاہد،لیث ابو سلیم اورہشام وغیرہ۔ (ابن خلکان:۱/۲۳۲) معاصر علماء میں ان کا درجہ علمی اعتبار سے ان کا شمار اس عہد کے اکابر علماء کے زمرہ میں تھا،ابن عینیہ کا بیان ہے کہ میں نے عبداللہ بن یزید سے پوچھا کہ تم کن لوگوں کے ساتھ ابن عباسؓ کے پاس جاتے تھے، انہوں نے جواب دیا، عطاء اوران کی جماعت کے ساتھ میں نے کہا اور طاؤس ،انہوں نے کہا وہ خواص کے ساتھ جاتے تھے۔ (تہذیب الاسماء:۱/۲۹۱) ارباب علم کا اعتراف اس عہد کے تمام ارباب ِ علم ان کے کمالِ علم کے معترف تھے،عمروبن دینار کہتے تھے کہ میں نے کسی شخص کو طاؤس کے برابر نہیں دیکھا ،بعض لوگوں کے نزدیک وہ یمن کے ابن سیرین تھے،سعید بن ابی سیرین کا بیان ہے کہ قیس بن سعد کہتے تھے کہ طاوس ہمارے یہاں کے ابن سیرین ہیں (ابن سعد:۵/۳۹۴) بعض علماء انہیں حضرت ابن جبیر کا ہم پایہ سمجھتے تھے عثمان دارمی کا بیان ہے کہ میں نے ابن معین سے پوچھا کہ آپ کو طاؤس زیادہ پسند ہیں یا سعید بن جبیر،انہوں نے کسی کو ترجیح نہیں دی۔ (تہذیب التہذیب:۵/۹) زہد وعبادت اس علم کے ساتھ طاؤس میں اسی درجہ کا عمل بھی تھا، ابن حبان کا بیان ہے کہ وہ یمن کے عبادت گزار لوگوں میں تھے (ایضاً) کثرتِ عبادت سے پیشانی پر نشانِ سجدہ تاباں تھا، بستر مرگ پر بھی کھڑے ہوکر نماز پڑھتے تھے (ابن سعد:۵/۹۳ وص ۳۵۹) چالیس حج کیے (تہذیب التہذیب :۵/۹) طواف میں خاموش رہتے تھے کسی بات کا جواب نہ دیتے تھے اورفرماتے تھے کہ طواف نماز ہے۔ (ابن سعد:/۳۹۳) انفاق فی سبیل اللہ خدا کی راہ میں بھی حسبِ استطاعت صرف کرتے تھے، ایک مرتبہ ایک سزایاب کو اس کا جرمانہ ادا کرکے چھڑایا۔ (ابن سعد:۵/۴۹۴) دولت دنیا سے بے نیازی دنیا اوراس کی خواہشوں سے بالکل بے نیاز تھے،کبھی دنیاوی نعمتوں کی خواہش نہیں کی، ہمیشہ یہی دعاکرتے تھے کہ ،خدایا مجھے مال اوراولاد سے محروم رکھ اوراس کے بدلہ میں ایمان وعمل کی دولت عطا فرما۔ (ایضاً) اہل دنیا سے بے تعلقی: ارباب حکومت اورثروت سے ہمیشہ گریز کرتے تھے،اور ان کو شر سمجھتے تھے،ابن عینیہ کا بیان ہے کہ حکومت اور حکمرانوں سے گریز کرنے والے تین آدمی تھے، ابو ذر ؓصحابی اپنے زمانے میں اور طاؤس وثوری اپنے زمانہ میں (ایضاً)فرماتے تھے ،ارباب شرف ودول سے زیادہ میں نے کسی کو شر نہیں دیکھا۔ (تہذیب التہذیب:۵/۱۰) امراء اورسلاطین کا معمولی احسان اٹھانا بھی پسند نہ کرتے تھے،ایک مرتبہ وہب بن منبہ کے ہمراہ حجاج بن یوسف کے بھائی محمد کے یہاں گئے اس وقت سردی زیادہ تھی،اس لیے محمد بن یوسف نے ان کے اوپر ایک چادر ڈالوادی،مگر انہوں نے کندھا ہلاکر گرادیا،محمد کو یہ بہت ناگوار ہوا،یہاں سے اٹھنے کے بعد ان کے ہمرا ہی وہب نے ان سے کہا اگر تم کو چادر کی ضرورت نہ تھی تو بھی لوگوں کو محمد کے غصہ سے بچانے کے لیے تم کو اس وقت لے لینا چاہئے تھا،زیادہ سے زیادہ اسے بیچ کر اس کی قیمت مساکین میں تقسیم کردیتے،انہوں نے جواب دیا،اگر اس کا خیال نہ ہوتا کہ میرے بعد لوگ میرے اس فعل کو سند جواز بنائیں گے تو ایسا کرتا۔ (ابن سعد:۵/۳۹۲) تحصیلداری کا عہدہ ایک مرتبہ محمد بن یوسف نے انہیں چند دنوں کے لیے تحصیلداری کے عہدہ پر مامور کردیا، ان کے جیسے شخص کو اس عہدہ سے کیا مناسبت ہوسکتی تھی وہ جس طرح اس کام کو کرتے تھے اس کی تفصیل خود ان کی زبان سے یہ ہے :ابراہیم بن میسرہ نے ان سے پوچھا آپ تحصیلداری کے زمانہ میں کیا کرتے تھے،فرمایا میں باقی دار سے کہتا تھا خدا تم پر رحم کرے اس نے تم کوجو عطاکیا، اس کو (شریعت کا حق دے کر) پاک کرو، اگر وہ اس کہنے پر خراج دے دیتا تھا،تو لے لیتا تھا اوراگر کوئی اعراض کرتا تھا تو میں اسے بلاتا بھی نہ تھا۔ (ابن سعد:۵/۲۹۳) خلفاء کو نصیحت قیامِ عدل وخدمت خلق کا دارومدار صالح عہدہ داروں پر ہے، اس لیے طاؤس سلاطین اورخلفاء کو حکام کے انتخاب کے باب میں نصیحت کیا کرتے تھے،عمرؓ بن عبد العزیز جب مسند خلافت پر متمکن ہوئے تو انہیں لکھ بھیجا کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے تمام کام اچھے ہوں تو اچھے لوگوں کو عہدہ دار بنائے،انہوں نے جواب میں لکھا کہ ، میری بھلائی کے لیے آپ کی نصیحت کافی ہے۔ (ابن خلکان:۱/۲۳۳) ان کے صاحبزادے ،عبداللہ بھی بالکل ان کے ہمرنگ تھے ایک مرتبہ ابو جعفر منصور عباسی نے انہیں اور امام مالک کو بلا بھیجا،یہ دونوں گئے،منصور نے عبداللہ سے کہا کہ اپنے والد کی کوئی حدیث سنائیے،انہوں نے یہ حدیث سنائی کہ قیامت کے دن سب سے زیادہ عذاب اس شخص پر ہوگا جو خدا کی حکومت میں شرک کرے گا، یعنی اس میں ظلم کو شریک بنائے گا، یہ نصیحت آموز حدیث سن کر منصور خاموش ہوگیا، تھوڑی دیر خاموشی کے بعد منصور نے تین مرتبہ عبداللہ سے داوات اٹھانے کے لیے کہا،مگر انہوں نے تعمیل نہیں کی،منصور نے کہا داوات کیوں نہیں اٹھاتے،انہوں نے کہا اس لیے کہ اگر تم اس سے کوئی ظالمانہ حکم لکھو گے،تو اس میں میری شرکت بھی ہوجائے گی،ان کی یہ کھری باتیں سن کر منصور نے دونوں کو اٹھادیا ،عبداللہ نے کہا ہم تو یہی چاہتے ہی تھے، امام مالک کا بیان ہے کہ اس واقعہ کے بعد سے میں عبداللہ کے فضل کا معترف ہوگیا۔ (ابن خلکان:۱/۲۳۳) قرآن کا احترام وہ کلامِ الہیٰ سے مالی فائدہ اٹھانے کو نہایت برا اوراحترامِ قرآن کے منافی سمجھتے تھے،ایک مرتبہ کچھ لوگوں کو قرآن مجید کا ہدیہ کرتے سُنا تو اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھنے لگے۔ نوجوانوں کی اصلاح نوجوانوں کی جدت آمیز وضع قطع اور چال ڈھال کو سخت ناپسند کرتے تھے،ایک مرتبہ قریش کے چند خوش پوش اورجدت پسند نوجوانوں کو طواف کی حالت میں دیکھ کر ٹوکا کہ تم لوگ ایسا لباس پہنتے ہوجو تمہارے اسلاف نہ پہنتے تھے اور ایسی اٹھلائی ہوئی چال چلتے ہو کہ نچنیے بھی نہیں چل سکتے۔ (ابن سعد:۵/۳۹۳) عید المومنین عید کی خوشی منانا ضروری سمجھتے تھے، اس دن اپنی تمام لونڈیوں کے ہاتھوں اورپیروں پر مہندی لگواتے تھے اور فرماتے تھے یہ عید کا دن ہے۔ (ایضاً:۳۹۵) وفات جیسا کہ اوپر گزرچکا ہے وہ حج بکثرت کرتے تھے اس کا سلسلہ آخر عمر تک جاری رہا،خدانے ان کے اس ذوق کو حسنِ قبول بخشا؛چنانچہ ۱۰۶ کے حج کے موسم میں مکہ ہی میں ترویہ سے ایک دن پہلے انتقال کیا، اس طرح وہ ہمیشہ کے لیے ارض مکہ میں مقیم ہوگئے (ایضاً:۳۹۵) حج کی وجہ سے جنازہ میں اتنا ہجوم تھا کہ جنازہ لے جانا دشوار ہوگیا،ابراہیم بن ہشام مخزومی نے انتظام کے لیے پولیس بھیجی،پھر بھی اتنا مجمع تھا کہ جنازہ اٹھانے والوں کے کپڑے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے اور ہزاروں حاجیوں کے ہاتھوں مدفون ہوئے۔