انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت مرثد بن ابی مرثد غنویؓ نام ونسب مرثد نام، سلسلۂ نسب یہ ہے ،مرثد بن کنازبن حصین بن یربوع بن جہینہ بن سعد بن طرایت بن خرشہ بن عبید بن عوف بن کعب بن جلاں بن غنم بن یحییٰ بن یعصر بن سعد ابن قیس عیلان بن مضر۔ (ابن سعد جزء۳،قسم ۱:۳۲) اسلام وہجرت مرثد بہت ابتدا میں مکہ میں مشرف باسلام ہوئے اور بدر کے قبل ہجرت کرکے مدینہ گئے،آنحضرتﷺ نے اوس بن صامت سے مواخات کرادی۔ (استیعاب :۱/۲۷۴) بدر سلسلۂ غزوات کے سب سے پہلے غزوۂ بدر میں شریک ہوئے،میدان جنگ میں آنحضرتﷺ کے پہلو بہ پہلو سبل نامی گھوڑے پر سوار دادِ شجاعت دے رہے تھے۔ (مستدرک حاکم:۳/۲۲۱) نزول آیت زمانہ ٔجاہلیت میں مکہ کی عناق نامی ایک طوائف سے تعلقات تھے، تحریم زنا کے بعد قطع تعلق کرلیا، مرثد نہایت قوی اوربہادر آدمی تھے،اس لیے قیدیوں کو مکہ سے مدینہ لے جانے کی خدمت ان ہی کے سپرد تھی، اس سلسلہ میں ایک مرتبہ مکہ جانے کا اتفاق ہوا،چاندنی رات میں ایک گلی سے گذررہے تھے،اتفاق سے عناق کی نظر پڑگئی،اس نے آواز دی،یہ رک گئے، اس نے اپنے مخصوص دلربائی کے اندز میں بڑی خندہ پیشانی سے خوش آمدید کہا اورشب باشی کی خواہش کی، فرمایا عناق، اب خدانے زنا حرام کردیا ہے، اس کو اس خشک جواب پر غصہ آگیا اورلوگوں سے کہہ دیا کہ مرثد یہاں کے قیدی مدینہ لے جاتے ہیں؛چنانچہ آٹھ آدمیوں نے ان کا تعاقب کیا، مگر یہ ایک محفوظ مقام پر چھپ گئے اورجب وہ لوگ تلاش کرکے واپس ہوگئے تو مدینہ کا راستہ لیا اورآنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ یا رسول اللہ !عناق سے میرا نکاح کردیجئے،آپ نے کوئی جواب نہیں دیا اور اس کے بعد یہ حکم نازل ہوا: الزَّانِي لَا يَنْكِحُ إِلَّا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لَا يَنْكِحُهَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ وَحُرِّمَ ذَلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ (النور:۳) بدکردار مرد بد کارعورت یا مشرکہ سے نکاح کریگا اوربدکردار عورت کو بدکار مردیا مشرک کے سوا کوئی نکاح میں نہ لائے گا اورایمان والوں پر یہ حرام ہے۔ شہادت بنو عضل وقارہ نے اسلام لانے کے بعد آنحضرتﷺ سے مذہبی تعلیم کے لیے چند معلم بھیجنے کی درخواست کی تھی، آپ نے ان کی درخواست پر باختلاف روایت حضرت مرثدؓ یا عاصم بن ثابت کی زیر امارت ایک جماعت بھیجی، یہ لوگ مقام رجیع تک پہنچے تھے کہ بنو ہذیل اچانک ننگی تلواریں لیے ہوئے آگئے اورکہا ہمارا مقصد تمہارا خون بہانا نہیں ہے؛بلکہ تمہارے بدلہ میں اہل مکہ سے روپیہ حاصل کرنا چاہتے ہیں اور تمہاری حفاظت جان کا عہد کرتے ہیں،حضرت مرثدؓ،خالدؓ اورعاصمؓ نے کہا کہ ہم مشرکین سے کسی قسم کا عہد کرنا نہیں چاہتے اور تینوں نے لڑکر جان دی۔ (ابن سعد حصہ مغازی:۳۹) فضل وکمال فضل وکمال کے ثبوت کے لیے یہ واقعہ کافی ہے کہ مذہبی تعلیم کے لیے آنحضرتﷺ نے ان کا انتخاب فرمایا تھا؛چونکہ آنحضرتﷺ کی حیات میں انتقال کرگئے،اس لیے ان کے علمی جوہر کھلنے نہ پائے ،تاہم ان کی روایت سے حدیث کی کتابیں یکسر خالی نہیں ہیں۔ (تہذیب الکمال:۳۷۲)