انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** اسلامی حکومت کے دور اول پر ایک نظر اندلس کا ملکمرکز خلافت یعنی دمشق سے بہت زیادہ فاصلہ پر واقع تھا اندلس تک پہنچنے کے لیے مسلمانوں کو قبطیوں ،بربریوں وغیرہ کی کئی قوموں کو زیر کرناپڑا تھا،مہینوں میں دربار خلافت کاحکم اندلس پہنچتا تھا اور اندلس کا کوئی پیغام دربار خلافت تک آتا تھا ،اندلس جس زمانے میں فتح ہوا ہے اس زمانے میں دربار خلافت اور مسلمانو ںکے نامور سپہ سالاروں اور مدبروں کی توجہ خانگی جھگڑوں میں بہت کچھ صرف ہورہی تھی ،عراق،شام اور ایران کے صوبوں نے مرکز خلافت کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کررکھا تھا اس لیے اندلس کی طرف کوئی خصوصی توجہ کبھی مبذول نہ ہوسکتی ،اندلس عامطور پر گورنر افریقہ کے ہی ماتحت رہا ،مگر چونکہ اندلس کی سر سبزی وشادابی اور خوش سوادی کی شہرت عام طور پر ممالک اسلامیہ میں ہگئی تھی اس لیے فتح اندلس کے بعد اندلس میں وہ لوگ جن کو حجاز ،شام اور عراق میں کوئی اہم خدمت سپرد نہ تھی ،اندلس چلےگئے اور برابر جاکر وہاں آباد ہوتے گئے،ان وارد عربوں کو اندلس میں ایک فاتح قوم کی حیثیت سے عزت وتکریم کے ساتھ دیکھا جاتا تھا اور ان کو معزز عہدے بھی بآسانی مل جاتے تھے ،اس لیے جو گیا وہیں کا ہورہا،افریقہ کے بربری قبائل شروع ہی سے زیادہ پہنچ گئے تھے اور بعد میں بھی وہاں جاتے اور آباد ہوتے رہے،لہذا اندلس چند روز میں مسلمانوں کی ایک نوآبادی بن گیا ،عیسائی لوگ جنہوں نے مسلمانوں کی اطاعت قبول کرلی تھی اس ملک کے باشندے تھے جن میں یہودیوں کی بھی ایک بڑی تعداد شامل تھی ، اس طرح اندلس کی مخلوط آبادی میں مختلف عناصر شامل تھے،پچاس سال کے عرصے میں بیسو حاکم تبدیل ہوئے،حکام کے اس جلد جلد تغیر وتبدل کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانان اندلس کے دلوں میں آزادی وخود سری بھی قائم رہی اور شان جمہوریت برابر ترقی کرتی ہوئی نظر آئی ،عیسائی آبادی کو کسی وقت بھی کوئی آزار نہیں پہنچا ،ان کے لیے صرف اقرار اطاعت ہی ہر قسم کےمصائب سے نجات کا باعث ہوگیا اور ان کو اقتصادی وعلمی ترقیات کاخوب موقعہ ملتا رہا۔ اول اول مسلمانوں میں فتوحات کا جوش غالب رہا اور وہ ملک فرانس کے مرکز تک فاتحانہ پہنچ گئے، ابھی اسلامی حکومت کو قائم ہوئے کچھ زیادہ دن گزرے نہ تھے کہ خانہ جنگیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ،ان خانہ جنگیوں نے مسلمانوں کی فتوحات کو روک دیا اور فرانس کے ان عیسائیوں کو جو سملمانوں کی حملہ آوری کےخوف سے ترسں ولرزاں تھے سوچنے سمجھنے اور اپنی حالت پر غور کرنے کا موقعہ مل گیا ،اس پچاس سالہ دور حکومت میں مختلف قبیلوں اور مختلف قابلیتوں اور مختلف دل ودماغ کے لوگ اندلس کے امیر وفرماں روا ہوتے رہے تاہم اندلس کی آبادی سرسبزی اور علوم وفنو میں بہت کچھ ترقیات ہوئیں سب سے بڑھ کر مسلمانوں کا وجود اور ان کا اعلی نمونہ ہی باشندگان اندلس کے لیے کافی تھا ،مگر اس سے بھی بڑھ کر رعایائے اندلس کو یہ فائدہ پہنچا کہ فاتحین نے مفتوحین کی عورتوں سے شادیاں کرنا شروع کردیں جب مسلمانوں کے گھر عیسائی عورتوں سے آباد ہوگئے تو وہ ذلت وحقارت کا خیال جو عیسائی مفتوحین کی نسبت مسلم فاتحین کے دلوں میں ہونا چاہیے تھا وہ خود بخود معدوم ہوگیا مسلمانوں کو عیسائیوں سے ہمدردی پیدا ہوگئی اور وہ ان کو تعلیم وتربیت اور اعلی اخلاق کی ترغیب دینے لگے ،یہاں تک کہ ملک فرانس کے بعض حکران جب آپس میں لڑتے تو اپنے مسلمان ہمسایوں سے فوجی امداد حاصل کرسکتے تھے جب اول اول مسلمان اندلس میں داخل ہوئے اور عیسائیوں کی گاتھ سلطنت کا چراغ گل ہوا تو بہت سے پادری اور پادری مزاج عیسائی اور مسلمانوں کا مقابلہ کونے والی فوجی سپہ سالار بھاگ بھاگ کر شمال کی طرف چلےگئے ،اندلس کا جنوبی حصہ گرم زرخیز اور خوش سواد زیادہ تھا ،مسلمان جنوب ہی کی طرف سے اس ملک میں داخل ہوئے تھے لہذا وہ جنوبی صوبوں میں کثرت سے آباد ہوگئے شمالی حصہ پہاڑی اور سرد زیادہ تھا عربوں کو یہ شمالی حصہ پسند نہ آیا اور بہت ہی کم مسلمان شمالی شہروں میں سکونت پذیر ہوئے پہاڑی علاقہ زیادہ قیمتی اور زرخیز بھی نہ تھا،مسلمانوں نے اس فتح کرکے اپنی حکمت تو قائم کی،مگر اس کو زیادہ محبوب اور قیمتی نہ سمجھا ،جبل البرتات کے دروں میں وہ مفرورین کا تعاقب کرتے ہوئے پہنچے تھے لیکن جب گاتھ سرداروں کی جمعیت اور مفرورین کے اجتماع نے جبل البرتات کے شمالی میدان یعنی فرانس کے جنوبی حصہ میں مسلمانوں کو دعوت دی تو ایک اور نئے ملک میں سلسلہ جنگ جاری ہوا جس کا نتیجہ ابھی اس قدر ظاہر ہوانے پایا تھا کہ صوبہ اربونیہ اور شہر ناربون اور اس کے شمالی میدانوں پر مسلمانوں کی حکومت قائم ہوگئی ؛لیکن اس کے بعدمسلمانوں کی خانہ جنگی نے اس کام کو آگے ترقی کرنے نہ دی۔