انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** عقائد توحید کفار نے صحابیات رضی اللہ عنھن کوطرح طرح کی اذیتیں دیں؛ لیکن ان کی زبان سے کلمۂ توحید کے سوا کلمۂ شرک نہیں نکلا، حضرت اُمِ شریک رضی اللہ عنہا ایمان لائیں توان کے اعزۂ واقارب نے ان کودھوپ میں لیجاکر کھڑا کردیا اس حالت میں جب کہ وہ دھوپ میں جل رہی تھیں روٹی کے ساتھ شہدجیسی گرم چیز کھلاتے اور پانی نہیں پلاتے تھے، جب اس مصیبت میں تین دن گذر گئے توظالموں نے کہا کہ جس مذہب پرتم ہواب اس کوچھوڑ دو، وہ اس قدر بدحواس ہوگئی تھیں کہ ان جملوں کا مطلب نہ سمجھ سکیں اب ان ظالموں نے آسمان کی طرف انگلی اُٹھاکر بتایا توسمجھیں کہ توحیدِ الہٰی کا انکار مقصود ہے، بولیں خدا کی قسم میں تواب تک اس پرقائم ہوں۔ (طبقات ابن سعد، تذکرہ حضرت ام شریک رضی اللہ عنہا) شرک سے علیحدگی عورتیں قدیم رسم ورواج اور قدیم عقائد کی نہایت پابندہوتی ہیں اور عرب میں مشرکانہ عقائد ایک مدت سے پھیل کرقلوب میں راسخ ہوگئے تھے؛ لیکن صحابیات رضی اللہ عنھن نے اسلام لانے کے ساتھ ہی شدت کے ساتھ ان عقائد کا انکار کیا، عرب کا خیال تھا کہ جولوگ بتوں کی برائی بیان کرتے ہیں وہ مختلف امراض میں مبتلا ہوجاتے ہیں اس لیے حضرت زنیرہ رضی للہ عنہا اسلام لانے کے بعد اندھی ہوگئیں توکفار نے کہنا شروع کیا ان کولات اور عزیٰ نے اندھا کردیا؛ لیکن انہوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ لات وعزیٰ کواپنے پوجنے والوں کی کیا خبر یہ خدا کی طرف سے ہے۔ (اسدالغابہ، تذکرہ حضرت زنیرہ رضی اللہ عنہا) جاہلیت کے زمانہ میں بچوں کے بچھونوں کے نیچے استرا رکھ دیتے تھے اور سمجھتے تھے کہ اس طرح بچے آسیب سے محفوظ رہتے ہیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ایک بار کسی بچے کے سرہانے استرا دیکھا تومنع فرمایا اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ٹوٹکے کوسخت ناپسند فرماتے تھے۔ (ادب الضرو، باب الطیرزمن الجن) عرب میں شرک کا اصلی مرکز بت تھے جوگھرگھر میں نصب تھے؛ لیکن صحابیات رضی اللہ عنھن نے ہرموقع پران سے تبرّیٰ ظاہر کی؛ چنانچہ حضرت ہند بنت عتبہ جب ایمان لائیں توگھرمیں بت نصب تھے اس کوتوڑپھوڑ ڈالا اور کہا کہ ہم تیری نسبت بڑے دھوکے میں مبتلا تھے۔ (طبقات ابن سعد، تذکرۂ ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا) حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے جب اُم سلیم رضی اللہ عنہا سے نکاح کی خواہش کی توانہوں نے کہا: ابوطلحہ کیا تم کویہ خبرنہیں کہ جس خدا کوتم پوجتے ہووہ ایک درخت ہے (یعنی لکڑی کا بت) جوزمین سے اُگا ہے، اس کوفلاں حبشی نے گڑھ کرتیار کیا ہے، بولے مجھے معلوم ہے، بولیں کیا تمھیں اس کی عبادت سے شرم نہیں آتی؛ چنانچہ جب تک انہوں نے بت پرستی سے توبہ کرکے کلمۂ توحید نہیں پڑھا؛ انہوں نے ان سے نکاح کرنا پسند نہیں کیا۔ (طبقات ابن سعد، تذکرہ ام سلیم رضی اللہ عنہا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پرایمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا اعتقاد نہ صرف صحابیات کے لوحِ دل پرکالنقش فی الحجر تھا بلکہ ان کی چھوٹی چھوٹی لڑکیوں کے دل پربھی یہ عقیدہ نہایت شدت سے راسخ ہوگیا تھا؛ ایک بار آپ نے ایک لڑکی کوبددعا دیدی کہ تیرا سن زیادہ نہ ہو، اس نے شدتِ اعتقاد کی بناپراس کا یقین کرلیا اور حضرت اُم سلیم رضی اللہ عنہا کے پاس روتی ہوئی آئی اور کہا کہ آپ نے مجھ کویہ بددعا دی ہے، اب میرا سن نہ بڑھے گا وہ بدحواس آپ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہا کہ آپ نے میری یتیمہ کویہ بددعا دے دی، آپ ہنس پڑے اور فرمایا میں بھی آدمی ہوں اور آدمیوں کی طرح خوش اور رنجیدہ ہوتا ہوں بس جس کو میں ایسی بددعا دوں جس کا وہ مستحق نہیں ہے تویہ اس کے لیے پاکی تزکیہ اور نیکی ہوگی۔ (مسلم،كِتَاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ،بَاب مَنْ لَعَنَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ سَبَّهُ أَوْ دَعَا عَلَيْهِ)