انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** صحابہؓ کے بھی اعمال حدیث کا موضوع ہیں صحابہ کرامؓ کے اقوال و اعمال بھی بایں جہت کہ یہ حضرات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تر بیت یافتہ تھے اورآپ کے فیض صحبت سے تزکیہ کی دولت پائے ہوئے تھے،ان کے افعال و اقوال میں حضورﷺ کی تعلیم قدسی کی ہی جھلک تھی اوران سے ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کا تسلسل قائم ہوا ہے حدیث کا موضوع ہیں۔ سو علم حدیث وہ علم ہے جس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات واعمال کے ساتھ ساتھ آپ کے اصحاب کرام کے اقوال و اعمال سے بھی بحث کی جاتی ہے اور دیکھا جاتا ہے کہ اس میں سنت قائمہ کیا ہے؟ حدیث کی تقریبا سب کتابوں میں ان نفوس قدسیہ کے فضائل مناقب کے مستقل ابواب ہیں اور انہیں چھوڑ کر دین میں چلنے کی کوئی راہ نہیں۔ محدثین کرام کتب حدیث میں صرف مرفوع حدیثیں(وہ حدیثیں جو حضور تک پہنچتی ہوں) ہی نہیں لکھتے،بلکہ ان میں ایک بڑا ذخیرہ ان روایات کا بھی ہوتا ہے جن میں صحابہ کے اقوال و اعمال مروی ہوں اور یہ سلسلہ روایات مرفوع احادیث کے ساتھ ساتھ چلتا ہے اورانہی کی شرح ساتھ ساتھ کرتا ہے، امام زہری(۱۲۴ھ) اورصالح بن کیسان (۱۴۰ھ) حدیث کی طالب علمی میں اکٹھے رہے اوردونوں نے جمع احادیث پر کمر باندھی، جب دونوں مرفوع روایات لکھ توچکے آپس میں مشورہ کیا، صحابہؓ کے اقوال و اعمال بھی ساتھ لکھے جائیں یا نہ؟ صالح بن کیسانؒ نے کہا کہ وہ سنت نہیں ہیں، مگر بعد میں انہیں احساس ہوا کہ ان کی بات درست نہ تھی،پھر انہوں نے برملا کہا کہ: "اجتمعت أنا وابن شهاب ونحن نطلب العلم، فاجتمعنا على أن نكتب السنن، فكتبنا كل شئ سمعناه عن النبيﷺ ، ثم قال نکتب أيضا ما جاء عن أصحابه، فقلت : لا، ليس بسنة، وقال هو : بلى هو سنة، فكتب ولم أكتب، فأنجح وضيعت"۔ (مصنف عبدالرزاق،۱۱،:۲۵۸،بریکٹ کے الفاظ ہم نے شرح السنہ للبغوی،۱،:۲۹۶ سے لیکر المصنف کے متن کی تصحیح کی ہے، متن میں یہاں ثم کتبنا ایضا کے الفاظ کسی طرح صحیح نہیں فلیتنبہ) ترجمہ: میں اورابن شہاب زہری اکٹھے پڑہتے تھے، ہم نے باہمی اتفاق کیا کہ حدیثیں لکھیں،ہم نے ہر چیز جو حضورﷺ کے بارے میں سنی تھی لکھ ڈالی پھر ہم نے چاہا کہ وہ کچھ بھی لکھیں جو آپ کے صحابہ کے بارے میں روایت ہوا ہے میں نے کہا نہیں (ہم انہیں نہ لکھیں) یہ سنت نہیں ہیں اور انہوں نے (امام زہری نے) کہا کیوں نہیں وہ بھی سنت ہیں، سوانہوں نے لکھا اور میں نے نہ لکھا وہ کامیاب رہے اور میں ضائع ہوگیا۔ معلوم ہوا کہ ہر وہ عالم جو صحابہ سے منہ موڑے گا، انہیں دین کا سرمایہ علم نہ سمجھے گا اوران کے عمل کو سنت اسلام تسلیم نہ کرے گا وہ ضائع ہوگا اور دین مسلسل میں اس کے لیے جگہ نہ ہوگی، امام زہری(۱۲۴ھ) ہی نہیں علامہ شعبی (۱۰۳ھ) بھی کہتے ہیں کہ صحابہؓ حدیث کا موضوع ہیں انہیں عام لوگوں کی طرح نہ سمجھنا چاہئے، دوسروں کی بات آپ مانیں یا نہ مانیں، لیکن صحابہ کی بات ہمیشہ لینی چاہئے یہ سرمایہ علم ہیں اوران کی ہربات لائق اخذ ہے۔ (دیکھئے: الکفایہ خطیب بغدادی:۴۹) بہر حال یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ صحابہ کرام کے اقوال و اعمال بھی حدیث کا موضوع ہیں،صحیح بخاری اورصحیح مسلم کو ہی دیکھ لیجئے، ان میں صحابہ کی روایات کس قدر پائی جاتی ہیں،موطاامام مالک سے لے کر مستدرک حاکم اورسنن بیہقی تک کودیکھئے ہر کتاب میں صحابہ و تابعین کے ارشادات اور فتاوے بکثرت ملیں گے،انہیں دیکھ کر یقین ہوتا ہے کہ امام زہریؒ واقعی کامیاب رہے اور جنہوں نے صحابہ کی روایات کو حدیث کا موضوع نہ سمجھا ان کی محنتیں ضائع گئیں اور حق یہ ہے کہ علم حدیث کا موضوع صحابہ کی زندگیوں کو بھی شامل ہے اوران کے تعامل کو معلوم کئے بغیر حدیث کی معرفت واقعی بہت مشکل ہے، یہی اکابر امت ہیں کہ جب تک علم ان سے ملے گا، اس میں خیر ہے اورجب لوگ اپنے جیسوں سے علم لینے لگیں تو اس میں ہلاکت ہوگی، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ(۳۲ھ) فرماتے ہیں: "يزال الناس صالحين متماسكين ما أتاهم العلم من أصحاب محمدﷺ ومن أكابرهم، فإذا أتاهم من أصاغرهم هلكوا"۔ (المصنف عبدالرزاق،۱۱،:۱۴۶) ترجمہ: جب تک علم اصحاب رسول سے اوراپنے بڑوں سے آتا رہے لوگ نیک اورمضبوط رہیں گے اور جب لوگوں کو علم ان کے اصاغر سے ملنے لگے (جواوپر سے علم لینے والے نہیں اپنے طورپر سوچنے والے اہل اہواء ہیں وہ) ہلاک ہونگے۔ حضرت عبداللہ بن مبارکؓ فرماتے ہیں کہ یہاں اصاغر سے مراد اہل بدعت ہیں، سو اصاغر ہم میں اضافت عام لوگوں کی طرف ہے، اصحاب محمد کی طرف نہیں، حضرت امام اوزاعی(۷۵۱ھ) نے بقیہ بن ولید کو نہایت واضح الفاظ میں کہا تھا کہ جو چیز صحابہ سے منقول نہ ہو وہ علم ہی نہیں: "یابقیۃ العلم ماجاء عن اصحاب محمدﷺ وما لم یجی عن اصحاب محمد فلیس علم"۔ (جامع بیان العلم وفضلہ للقرطبی، باب معرفۃ اصول العلم وحقیقتہ:۲/۶۵) حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی منزلت وعظمت صحابہ میں محتاج بیان نہیں،آپ اکابر اہل علم سے ہیں جن کا قول و عمل اسلام میں سند سمجھا جاتا ہے، آپ کھل کر کہتے ہیں کہ حضورؓ کے بعد اگر کوئی قابل اقتداء ہے تو وہ اصحاب رسول ہیں، ان کا علم گہرا تھا،وہ تکلف سے کوسوں دور تھے اوران کے دل نیک تھے،اللہ تعالی نے انہیں اپنے نبی پاک کی صحبت کے لیے چن لیا تھا۔ "من كان مستنا فليسن بمن قد مات فإن الحي لا تؤمن عليه الفتنة، أولئك أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم كانوا أفضل هذه الأمة أبرها قلوبا وأعمقها علما وأقلها تكلفا اختارهم الله لصحبة نبيه ولإقامة دينه فاعرفوا لهم فضلهم واتبعوهم على آثارهم وتمسكوا بما استطعتم من أخلاقهم وسيرهم فإنهم كانوا على الهدى المستقيم، رواه رزين"۔ (مشکاۃ،:۳۲،دہلی،حدیث نمبر:۱۹۳،شاملہ،المكتب الإسلامي، بيروت) ترجمہ: جو شخص کسی کی پیروی کرنا چاہے اسے فوت شدگان کی پیروی کرنا چاہئے،کیونکہ زندہ کوفتنے سے محفوظ نہیں سمجھا جاسکتا،وہ فوت شدگان اصحاب رسول ہیں جو اس امت کا بہترین طبقہ تھے،ان کے دل نیک تھے ان کا علم گہرا تھا،تکلف سے بہت دور تھے،اللہ نے انہیں اپنے نبی کی صحبت کے لیے اور اس کے دین کی اقامت کے لیے چن لیا تھا ان کے فضل کو پہچانوان کے نقش پاکی پیروی کرو، جہاں تک ہوسکے ان کے اخلاق اوران کی عادات سے سند پکڑو، بے شک وہ سیدھی راہ پر تھے۔ امام بغوی نے شرح السنہ میں یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں: "اختارھم اللہ لصحبۃ نبیہ ونقل دینہ فتشبھواباخلافھم وطرائقھم فہم کانوا علی الھدی المستقیم"۔ (شرح السنہ:۱/۲۱۴) ترجمہ: چن لیا اللہ تعالی نے ان کو اپنے نبی کی مصاحبت کے لیے اور آپ کے دین کو آگے پہنچانے کے لیے سو ان کے اخلاق اور طریقوں کو اپناؤ وہ سب راہ مستقیم پر تھے۔ حضرت حسن بصری(۱۱۰ھ) نے تو اسے قسم کھا کر بیان کیا ہے اور انہی کے عمل کو صراط مستقیم ٹھہرایا ہے۔ "فتشبھوا باخلاقھم وطرائقہم فانھم ورب الکعبۃ علی الصراط المستقیم"۔ (فتح الملہم،۱،:۴۸) ترجمہ:ان کے اخلاق اورعادتوں کو اپناؤ، رب کعبہ کی قسم صحابہ سب صراط مستقیم پر تھے۔ پھر فرماتے ہیں: "ماحدثوك عن أصحاب رسول اللهﷺ فخذ به، وما قالوا برأيهم قبل عليه"۔ (مصنف عبدالرزاق:۲/۲۵۶،حدیث نمبر:۲۰۴۷۶، موقع يعسوب) ترجمہ: علماء جو باتیں تمہارے پاس اصحاب رسول سے روایت کریں انہیں تو لے لو اور جو بات وہ اپنی رائے سے کہیں سو اس کو جانے دو۔ اپنی رائے سے مرادیہ ہے کہ ان کی وہ بات جو قرآن و حدیث یا آثار صحابہ سے مستنبط نہ ہو وہ ان کی اپنی رائے ہوگی،ان کا قرآن وحدیث کی روشنی میں ایک اجتہاد ہوگا، اس سے اختلاف تو کیا جاسکتا ہے،لیکن اس کے بارے میں قیل علیہ کے سے سخت الفاظ نہیں کہے جاسکتے، سو رائے سے یہاں مراد محض رائے ہے اس سے کسی طرح اجتہادِ مجتہد مراد نہیں۔ یہ صحابہ کے کسی معتقد یا کسی عام امتی کی رائے نہیں، ایک جلیل القدر صحابی کی ہے، جو خود علم کی دولت سے مالا مال تھے، وہ یہاں صحابہ کرام کے صرف اخلاص و ایثار کی تعریف نہیں کررہے ؛بلکہ ان کے گہرے علم کی شہادت دے رہے ہیں، ایک اتنے بڑے عالم سے ان کے علم کی شہادت جمیع صحابہ کی علمی گہرائی اورفکری گیرائی کا پتہ دیتی ہے اور یہ تعریف بھی صرف خلفائے راشدین یا چنداکابر صحابہ کی ہی نہیں، بلکہ علی الاطلاق عام اصحاب رسول کی بیان ہورہی ہے اور اس میں انہیں مقتداء ٹھہرایا جارہا ہے، یہ صورت عمل اور انداز فکر خود پتہ دے رہا ہے کہ صحابہ کرام کو اسلام میں اس وقت بھی وہ درجہ حاصل تھا جو عام افراد امت میں کسی بڑے سے بڑے عالم اورکسی بڑے سے بڑے ولی کو حاصل نہیں اور یہ صحیح ہے کہ وہ سب صراط مستقیم کے عملی نمونے تھے۔ حضرت حسن بصری(۱۱۰ھ) نے تو اسے قسم کھاکر بیان کیا ہے اور صحابہ کے عمل کو ہی صراط مستقیم قرار دیا ہے،یہ قریب قریب وہی مضمون ہے جو حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے،صحابہ پراپنی حیثیت کچھ اس طرح واضح تھی کہ وہ برملا لوگوں کو اپنے نقش پاپر آنے کی دعوت دیتے تھے، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے ایک اورموقع پر فرمایا: "اتبعوااثارناولاتبتدعوافقد کفیتم"۔ (الاعتصام للشاطبی:۱/۵۴) ترجمہ:تم ہم صحابہ کے نقش قدم پر چلتے رہو، نئی نئی باتیں نہ نکالو، ہماری پیروی تمہارے لیے کافی ہے۔ آپ نے اس میں صحابہ کے آثار کو پوری امت کے لیے نمونہ کہا ہے اور اس پر بھی متنبہ فرمایا کہ بدعت کی حد صحابہ کے بعد سے شروع ہوتی ہے، حضورﷺ کے بعد پیدا ہونے والی ہر دینی ضرورت صحابہ کے علم کفایت کے سائے میں تمہارے لیے کافی نمونہ ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی صحابہ کرام کو فرمادیا تھا کہ لوگ تمہارے مقتدی ہوں گے دنیا کے مختلف کناروں سے تم سے دین لینے آئیں گے، حضرت ابو سعید الخدریؓ(۷۴ھ) کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "إِنَّ النَّاسَ لَكُمْ تَبَعٌ وَإِنَّ رِجَالًا يَأْتُونَكُمْ مِنْ أَقْطَارِ الْأَرَضِينَ يَتَفَقَّهُونَ فِي الدِّينِ"۔ (جامع ترمذی:۲/۲۷۱،حدیث نمبر:۲۵۷۴، موقع الإسلام) ترجمہ:بے شک (بعد میں آنے والے) لوگ تمہارے پیرو ہوں گے وہ دنیا کے کناروں سے تمہارے پاس پہنچیں گے تاکہ دین میں (اپنے لیے ) کچھ سمجھ پیدا کرلیں۔ اس میں یہ نہیں فرمایا کہ وہ میری روایات لینے کے لیے تمہارے پاس پہنچیں گے، بلکہ "يَتَفَقَّهُونَ فِي الدِّينِ" فرمایا کہ وہ دین کی سمجھ لینے کے لیے تمہارے پاس پہنچیں گے، اس سے معلوم ہوا کہ امت کے لیے فہم صحابہ حجت اورسند ہے اور بعد میں آنے والے لوگوں کے لیے ان کی پیروی اوران کے پاس دین سیکھنے کے لیے آنا اور ان سے دین سمجھنا لازم و ضروری ہے، حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں: "فیہ ان الصحابۃ متبوعون یجب علی الناس متابعتھم والایتان علیہم لطلب العلم"۔ (لمعات التنقیح:۱/۲۷۱) ترجمہ:اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ مقتدا اورپیشوا ہیں لوگوں پر ان کی پیروی کرنا اورطلب علم کے لیے ان کے پاس آنا واجب ہے۔ یہ نہ سمجھا جائے کہ صحابہ صرف اپنے تابعین کے لیے ہی متبوعون ہیں اوران کی پیروی صرف ان کے دورحیات میں ہی ہوگی، نہیں ہرگز نہیں؛ بلکہ ان کی پیروی ان کے بعد بھی جاری رہے گی اورامت ان کے عہد میں بھی اوران کے بعد بھی ہمیشہ ان کو اپنا مقتدا اور پیشوا سمجھے گی،حضرت امام نوویؒ (۶۷۶ھ) لکھتے ہیں: "انہم ائمۃ الاعلام وقادۃ الاسلام ویقتدی بھم فی عصرھم وبعدھم"۔ (شرح صحیح مسلم للنووی:۱/۳۸۶) ترجمہ:بے شک یہ حضرات (صحابہ کرام) مرکزی پیشوا ہیں اور یہی حضرات قافلہ اسلام کے قائد ہیں ان کی پیروی ان کے اپنے وقتوں میں بھی تھی اوران کے بعد بھی جاری رہے گی۔ امام نویؒ نے "یقتدی بہم" کی یہ تعبیر اپنی طرف سے نہیں کی، اکابر صحابہ سے لی ہے، صحابہ میں صرف ایک بزرگ تھے جن کا علمی مرتبہ اور مقام عرفان حضرت فاروق اعظم سے بھی اونچا تھا، وہ کون تھے؟حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ،اب دیکھئے حضرت عمرؓ اپنی نسبت ان سے کس طرح قائم کرتے ہیں، آپ انہیں "یقتدی بہم" کے تحت ہمیشہ اپنا پیشوا سمجھتے تھے(مسند امام احمد:۳/۴۱۰) حضورﷺ کی پیروی کے ساتھ آپ کی پیروی کو بھی لازمی سمجھتے رہے،حضرت ابووائل کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اورحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا: "هُمَا الْمَرْءَانِ أَقْتَدِي بِهِمَا"۔ (بخاری:۹/۱۱۴،حدیث نمبر:۱۴۹۱، موقع الإسلام) ترجمہ:یہ وہ دو مرد ہیں جن کی پیروی میں کرتا ہوں۔ یہ آپ اپنے لیے کہہ رہے تھے،باقی احادامت کے لیے آپ نے کل صحابہ کرام کو پیشوا ٹھہرایا ہے،ایک دفعہ آپ نے طلحہ بن عبیداللہ پر حالت احرام میں رنگ دار چادر دیکھی،طلحہ نے کہا جناب اس رنگ میں خوشبو نہیں، عام لوگوں کے لیے اس میں مغالطے کا اندیشہ تھا، اس پر حضرت عمرؓ نے حضرت طلحہ کو مخاطب کرکے کہا: "إِنَّكُمْ أَيُّهَا الرَّهْطُ أَئِمَّةٌ يَقْتَدِي بِكُمْ النَّاسُ"۔ (موطا امام مالک:۱۳۲،کتاب الحج،حدیث نمبر:۶۲۶) ترجمہ: اے لوگو! تم امام ہو، لوگ تمہاری پیروی کریں گے۔ ایک اور موقعہ پرفرمایا: "إنَّكُمْ مَعْشَرَ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ مَتَى تَخْتَلِفُونَ تَخْتَلِفُ النَّاسُ بَعْدَكُمْ وَالنَّاسُ حَدِيثُ عَهْدٍ بِالْجَاهِلِيَّةِ، فَأَجْمِعُوا عَلَى شَيْءٍ يَجْمَعُ عَلَيْهِ مَنْ بَعْدَكُمْ"۔ (فتح القدیر لابن الہمام:۲/۱۲۳) ترجمہ: بیشک تم حضور کے صحابہ ہو جب تم اختلاف میں پڑوگے تو تمہارے بعد اور اختلاف کرنے لگیں گے، لوگ ابھی ابھی جاہلیت سے نکلے ہیں، تم ایک بات پر جمع ہوکر رہو، بعدوالے بھی اس پر جمع رہیں گے۔ حضرت حذیفہ بن الیمان نے مدائن میں ایک یہودی عورت سے نکاح کرلیا تو باوجود یکہ اہل کتاب سےنکاح حلال تھا، حضرت عمرؓنے انہیں حکم دیا کہ وہ فورا اسے طلاق دے دیں، اس کےوجہ آپ نے یہ فرمائی کہ صحابی کی حیثیت چونکہ مقتدا کی ہے، اس لیے اندیشہ ہے کہ اور مسلمان بھی اس راہ پر نہ چل پڑیں،آپ نے انہیں لکھا: "اعزم علیک ان لا تضع کتابی حتی تخلی سبیلھا فانی اخاف ان یقتدیک المسلمون فیختا روانساء اھل الذمہ لجمالھن"۔ (کتاب الآثارامام محمد:۵۶) ترجمہ:میں تجھے قسم دیتا ہوں کہ میرا یہ خط رکھنے سے پہلے پہلے اس عورت کو فارغ کردو، مجھے ڈر ہے کہ مسلمان تمہاری پیروی کریں اور اہل ذمہ کی عورتوں کو ان کے حسن و جمال کی وجہ سے پسند کرنے لگیں۔ اسلام میں صحابہ کی مقتداء والی حیثیت ہمیشہ سے مسلم رہی ہے،حضرت عمرؓ نے ایک دفعہ حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف کو ایک خاص قسم کے موزے پہنے دیکھا، آپؓ نے فرمایا: "عزمت علیک ان لا نزعتہا فانی اخاف ان ینظر الناس الیک فیقتدون بک"۔ (مسنداحمد، حدیث عبدالرحمن بن عوف، حدیث نمبر:۱۶۶۸) ترجمہ:میں تمھیں قسم دیتا ہوں کہ انہیں ابھی اتار دو مجھے ڈر ہے کہ لوگ تمہیں اس طرح دیکھیں اور تمہاری پیروی کرنے لگیں۔ صحابہ کی مقتدا ہونے والی حیثیت مسلم نہ ہوتی تو بار پیروی کرنے والے پر آتا، صحابہ کو اتنا محتاط چلنے کا حکم نہ ہوتا، حضرت فاروق اعظمؓ نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کو جب کوفہ بھیجا تو ان کے ساتھ حضرت عمار بن یاسرؓ بھی تھے، دونوں کی عبقری شخصیت صحابہ میں خوب معروف تھی، حضرت فاروق اعظمؓ نے سب اہل کوفہ کو ان کی اقتداء کا حکم دیا۔ "فاقتدوا بهما واسمعوا،من قولھما قد آثرتكم بعبد الله بن مسعود على نفسي"۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۴،موقع يعسوب) ترجمہ: تم ان دونوں کی اتباع کرو اوران کی بات مانو اور بے شک میں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ نعہ کو تمہارے ہاں بھیج کر تمہیں اپنی ذات پر ترجیح دی ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کی یہ اتباع تابعین میں جاری رہی اور ہر ہر روایت پر کوئی نہ کوئی صحابی ضرور عامل رہا اور اس طرح جملہ احادیث تابعین میں پھیلتی چلی گئیں اورصحابہ کی مقتدا والی پوزیشن تابعین اور تبع تابعین میں مسلم رہی،حافظ ابن حجرعسقلانی فرماتے ہیں کہ تعلیم شریعت رہتی دنیا تک اس تسلسل سے رہنی چاہئے۔ "تَعَلَّمُوا مِنِّي أَحْكَامَ اَلشَّرِيعَةِ وَلْيَتَعَلَّمْ مِنْكُمْ اَلتَّابِعُونَ بَعْدكُمْ وَكَذَلِكَ أَتْبَاعهمْ إِلَى اِنْقِرَاض الدُّنْيَا"۔ (فتح الباری:۲/۱۷۱) ترجمہ: تم مجھ (حضور) سے احکام شریعت سیکھو تم سے تابعین اور اسی طرح تبع تابعین ان سے سکھیں یہاں تک کہ دنیا اپنے آخر کو جا پہنچے۔ حضرت سالم بن عبداللہ نے حضرت ابوبکرصدیقؓ کے پوتے حضرت قاسم بن محمد سے قراۃ خلف الامام (امام کے پیچھے قرآن پڑھے یا نہ) کا مسئلہ پوچھا آپ نے فرمایا: "إن تركت فقد تركه ناس يقتدى بهم وإن قرأت فقد قرأه ناس يقتدى بهم"۔ (موطا امام محمد:۹۶،حدیث نمبر:۱۱۹، دارالقلم،دمشق) ترجمہ:اگر قرأۃ خلف الامام کو چھوڑدو تو بیشک اسے ان لوگوں نے ترک کیا جو امت کے مقتدا تھے (یعنی صحابہ کرامؓ) اور تم پڑھ لو بیشک اسے ان لوگوں نے پڑھا ہے جن کی امت میں پیروی کی جارہی ہے۔ تابعین میں اس پیرایہ میں صحابہ کا ذکر ان کی مقتدا والی حیثیت کو واضح کرتا ہے؛ انہی سے سنت اسلام جاری ہوئی اوروہ اس کے اہل تھے،حضرت سعدبن ابی وقاصؓ(۵۵ھ) جب گھر میں نماز پڑھتے تو نماز لمبی کرتے،رکوع وسجود طویل کرتے اورجب مسجد میں نماز پڑہتے توجلدی کرتے، آپ کے بیٹے حضرت مصعب نے اس کی وجہ پوچھی،آپ نے فرمایا: "یا بنی انا ائمۃ یقتدی بنا"۔ (المصنف عبدالرزاق:۲/۳۶۷۔ مجمع الزواید للہثیمی:۱/۱۸۲) ترجمہ: اے میرے بیٹے بے شک ہم صحابہ ائمہ ہیں ہماری پیروی(امت میں) کی جاتی رہے گی۔