انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** اخلاق وعادات اخلاق حضرت عثمان ؓ فطرتاً عفیف ،پارسا،دیانت دار اورراست باز تھے حیا اوررحمدلی ان کی خاص شان تھی، ایام جاہلیت میں جبکہ عرب کا ہربچہ مست شراب تھا، اس وقت بھی عثمان ذوالنورین ؓ کی زبان بادۂ گلگوں کے ذائقہ سے ناآشنا تھی۔(کنز العمال جلد ۶ : ۳۷۲) اورجب کذب و افتراء فسق وفجور عالمگیرتھا،آپ کا دامن ان دھبوں سے آلودہ نہیں ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت نے ان اوصاف کو اوربھی چمکادیا تھا۔ خوف خدا خوف خدا تمام محاسن کا سرچشمہ ہے جو دل خدا کی ہیبت وجلال سے لرزاں نہیں، اس سے کسی نیکی کی امید نہیں ہوسکتی ،حضرت عثمان ؓ اکثر خوف خداوندی سے آبدیدہ رہتے ،موت،قبراورعاقبت کاخیال ہمیشہ دامن گیر رہتا ،سامنے سے جنازہ گزرتا توکھڑے ہوجاتے اوربے اختیار آنکھوں سے آنسو نکل آتے،مقبروں سے گزرتے تو اس قدروتے کہ ڈاڑھی تر ہوجاتی،لوگ کہتے کہ دوزخ وجنت کے تذکروں سے توآ پ پر اس قدر رقت طاری نہیں ہوتی،آخرمقبروں میں کیا خاص بات ہے کہ انہیں دیکھ کر آپ بے قرار ہوجاتے ہیں؟ فرماتے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ قبر آخرت کی سب سے پہلی منزل ہے،اگر یہ معاملہ آسانی سے طئے ہوگیا تو پھر تمام منزلیں آسان ہیں اوراگر اس میں دشواری پیش آئی تو تمام مرحلے دشوار ہوں گے۔ حب رسول حضرت عثمان ؓ تقریبا تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمرکاب رہے اورآپ پر فدویت وجانثاری کا حق ادا کیا، آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک کے ساتھ اتنی محبت وشیفتگی تھی کہ اپنے محبوب آقا کی فقیرانہ اورزاہدانہ زندگی دیکھ کر بے قرار رہتے تھے اورجب موقع ملا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تحائف پیش کرتے ،ایک دفعہ چاردن تک آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فقروفاقہ سے بسرکیا، حضرت عثمان ؓ کو معلوم ہوا تو آنکھوں سے آنسو نکل آئے اور اسی وقت بہت سا سامان خورد ونوش اورتین سودرہم لاکر بطور نذرانہ پیش کئے۔ ( کنزالعمال ج ۶ : ۳۷۶) احترام رسول صلی اللہ علیہ وسلم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ادب واحترام اس قدر ملحوظ تھا کہ جس ہاتھ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر بیعت کی تھی،پھر اس کو نجاست یا محل نجاست سے مس نہ ہونے دیا،( ایضاً)اہل بیت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اورازواج مطہرات ؓ کا خاص طور سے پاس وخیال تھا؛چنانچہ اپنے عہد خلافت میں جب اصحاب وظائف کے رمضان کے روزینے مقرر کئے تو ازواج مطہرات ؓ کا روزینہ سب سے دونا مقرر کیا۔ اتباع سنت جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پاک سے اس محبت و ارادت کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ اپنے ہر قول وفعل یہاں تک کہ حرکات و سکنات اوراتفاقی باتوں میں بھی محبوب آقا کی اتباع کو پیش نظر رکھتے تھے،ایک دفعہ وضو کرتے ہوئے متبسم ہوئے، لوگوں نے بے موقع تبسم کی وجہ پوچھی فرمایا: میں نے ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (روحی فداہ)کو اسی طرح وضو کرکے ہنستے ہوئے دیکھا تھا،( طبری ص ۲۸۰۴ )ایک دفعہ سامنے سے جنازہ گزرا تو کھڑے ہوگئے اور فرمایا کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے(مسند ابن حنبل ج۱ : ۵۸)ایک دفعہ عصر کے وقت سب کے سامنے وضو کرکے دکھایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح وضو فرمایا کرتے تھے،(ایضاً : ۶۸) ایک بار مسجد کے دوسرے دروازہ پر بیٹھ کر بکری کا پٹھا منگوایا اورکھایا اوربغیر تازہ وضو کئے ہوئے نماز کو کھڑے ہوگئے، پھر فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی جگہ بیٹھ کر کھایا تھا اور اسی طرح کیا تھا،( ایضاً۶۷،۶۸)حج کے موقع پر آپ اورایک صحابی طواف کر رہے تھے، طواف میں انہوں نے رکن یماق کا بھی بوسہ لیا،حضرت عثمان ؓ نے ایسا نہیں کیا تو انہوں نے ان کا ہاتھ پکڑ کر اس کا استلام کرانا چاہا، حضرت عثمان ؓ نے کہا یہ کیا کرتے ہو؟ کیا تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ طواف نہیں کیا؟انہوں نے کہا،ہاں!کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا استلام کرتے تم نے دیکھا؟ کہا نہیں!فرمایا،پھر کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء مناسب نہیں ؟ انہوں نےجواب دیا بے شک (مسند ابن حنبل ج۱ : ۷۰،۷۱) حیاء شرم وحیاء حضرت عثمان ؓ کا امتیازی وصف تھا، اس لئے مؤرخین نے ان کے اخلاق وعادات کے بیان میں حیاء کا مستقل عنوان قائم کیا، آپ میں اس درجہ شرم وحیاء تھی کہ خود حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم اس حیا کا پاس ولحاظ رکھتے تھے، ایک دفعہ صحابہ کرام ؓ کا مجمع تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بے تکلفی کے ساتھ تشریف فرماتھے، زانوئے مبارک کا کچھ حصہ کھلا ہوا تھا، اسی حالت میں حضرت عثمان ؓ کے آنے کی اطلاع ملی تو سنبھل کر بیٹھ گئے اور زانوئے مبارک پر کپڑا برابر کرلیا،لوگوں نے حضرت عثمان کے لئے اس اہتمام کی وجہ پوچھی تو فرمایا کہ عثمان ؓ کی حیاء سے فرشتے بھی شرماتے ہیں،(بخاری ج ۲ مناقب حضرت عثمان ؓ)اسی قسم کا ایک اورواقعہ حضرت عائشہ ؓ بھی بیان فرماتی ہیں،(مسند ابن حنبل ج ۱ : ۷۱) حضرت ذوالنورین ؓ کی حیا کا یہ عالم تھا کہ تنہائی اوربند کمرے میں بھی وہ برہنہ نہیں ہوتے تھے۔ زہد حضرت عثمان ؓ اگرچہ اپنی خلقی ناتوانی اورضعف پیری کے باعث اورکسی قدر اس سبب سے کہ انہوں نے ناز ونعمت میں پرورش پائی تھی، ہلکی غذا اور نرم پوشاک استعمال کرنے پر مجبور تھے اور فاروق اعظم ؓ کی طرح موٹا چھوٹا کپڑا اور روکھا پھیکا نہیں کھاسکتے تھے؛لیکن اس سے یہ قیاس نہیں کرنا چاہئے کہ آپ عیش و تنعم کے گرویدہ تھے ؛بلکہ انہوں نے باوجود غیر معمولی دولت وثروت کے کبھی امیرانہ زندگی اختیار نہیں فرمائی اور نہ کبھی صرف زیب وزینت کی چیزیں استعمال کیں ،‘‘قز’’ ایک خوش وضع رومی کپڑا تھا جو عرب کا مطبوع عام لباس تھا،امراء توامراء متوسط درجہ کے لوگ بھی اس کو پہننے لگے تھے؛لیکن حضرت عثمان ؓ نے کبھی اس کو استعمال نہ فرمایا اورنہ اپنی بیویوں کو استعمال کرنے دیا۔ تواضع تواضع اورسادگی کا یہ حال تھا کہ گھر میں بیسیوں لونڈی اورغلام موجود تھے؛لیکن اپنا کام آپ ہی کرلیتے تھے اور کسی کو تکلیف نہ دیتے ،رات کو تہجد کے لئے اٹھتے اورکوئی بیدار نہ ہوتا توخود ہی وضو کا سامان کرلیتے اورکسی کو جگا کر اس کی نیند خراب نہ فرماتے،اگر کوئی درشت کلامی کرتا توآپ نرمی سے جواب دیتے،ایک دفعہ عمروبن العاص نے اثنائے گفتگو میں حضرت عثمان ؓ کے والد کی شرافت پر طعنہ زنی کی،حضرت عثمان ؓ نے نرمی سے جواب دیا کہ عہد اسلام میں زمانہ جاہلیت کا کیا تذکرہ ہے،(طبری ص ۲۹۶۶) اسی طرح ایک دفعہ جمعہ کے روز منبر پر خطبہ دے رہے تھے کہ ایک طرف سے آواز آئی، عثمان توبہ کر اور اپنی بے اعتدالیوں سے باز آ،حضرت عثمان ؓ نے اسی وقت قبلہ رخ ہوکر ہاتھ اٹھایا اورکہا: اللھم انی اول تائب تاب الیک (یضاً : ۱۹۷۲) "یعنی اے خدا میں پہلا توبہ کرنے والا ہوں جس نے تیری درسگاہ میں رجوع کیا۔" ایثار آپ نے مسلمانوں کے مال میں ہمیشہ ایثار سے کام لیا؛چنانچہ اپنے زمانہ خلافت میں ذاتی مصارف کے لئے بیت المال سے ایک حبہ نہیں لیا،(ایضاً ص ۲۹۵۳)اور اس طرح گویا اپنا مقررہ وظیفہ عام مسلمانوں کے لئے چھوڑ دیا۔ حضرت عمر ؓ کا سالانہ وظیفہ پانچ ہزار درہم تھا، اس حساب سے حضرت عثمان ؓ نے اپنے دوازدہ سالہ مدت خلافت میں ساٹھ ہزار درہم کی گراں قدررقم مسلمانوں کے لئے چھوڑی،جو درحقیقت ایثار نفس کا نمونہ ہے۔ فیاضی حضرت عثمان ؓ عرب میں سب سے زیادہ دولت مند تھے، اس کے ساتھ خدا نے فیاضی طبع بھی بنادیا تھا؛چنانچہ انہوں نے اپنی فیاضی،اپنے مال ودولت سے اس وقت اسلام کو فائدہ پہنچایا جب اس امت میں کوئی دوسرا ان کا ہمسر موجود نہ تھا۔ مدینہ میں تمام کنوئیں کھاری تھے،صرف بیررومہ جو ایک یہودی کی ملکیت میں تھا شیریں تھا، حضرت عثمان ؓ نے رفاہِ عام کے خیال سے اس کو بیس ہزار درہم میں خریدکر مسلمانوں کے لئے وقف کردیا، اسی طرح جب مسلمانوں کی کثر ت ہوئی اورمسجد نبوی میں جگہ کی تنگی کے باعث نمازیوں کو تکلیف ہونے لگی تو حضرت عثمانی ؓ نے ایک گراں قدر رقم صرف کرکے اس کی توسیع کرائی۔ آپ کی فیاضی کا سب سے زیادہ نمایاں کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے غزوہ تبوک کے موقع پر ہزاروں روپے کے صرف سے مجاہدین کو آراستہ کیا، یہ فیاضی ایسے وقت میں ظاہر ہوئی جبکہ عام طورپر مسلمانوں کی عسرت اورتنگی نے پریشان کررکھا تھا اور دوسری طرف قیصر روم کی جنگی تیاریوں سے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تشویش دامن گیر تھی۔ مذکورہ بالافیاضیوں کے علاوہ روزانہ جو دوکرم اورصدقات وخیرات کا سلسلہ جاری رہتا تھا، ہر جمعہ کو ایک غلام آزاد کرتے تھے، (نزہتہ الابرار قلمی : ۴۱ کتب خانہ حبیب گنج) بیواؤں اور یتیموں کی خبر گیری کرتے تھے، مسلمانوں کی عسرت وتنگ حالی سے ان کو دلی صدمہ ہوتا تھا، ایک دفعہ ایک جہاد میں ناداری اورمفلسی کے باعث مسلمانوں کے چہرے اداس تھے اور اہل نفاق ہشاش ہر طرف اکڑتے پھرتے تھے، اسی وقت چودہ اونٹوں پر سامان خوردونوش بارکرکے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا کہ اس کو مسلمانوں میں تقسیم کرادیں۔ (کنز العمال ج ۶ : ۳۷۴) اعزہ اور احباب کے ساتھ حسن سلوک اعزہ اوراحباب کے ساتھ مسلوک ہوتے تھے اور ان کی پرورش فرماتے تھے، آپ کے چچا حکم بن العاص کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کو جلاوطن کردیا تھا، حضرت عثمان ؓ نے بارگاہ نبوت میں کوشش کرکے ان کی خطامعاف کرائی اوراپنے عہد میں مدینہ بلوایا اورجیب خاص سے ان کی اولاد کو ایک لاکھ درہم عطا فرمائے، ( طبری : ۲۹۵۴) عبداللہ بن عامر، عبداللہ بن ابی سرح، عثمان بن ابن العاص ؓ، امیر معاویہؓ حضرت عثمان ؓ کے نہایت قریبی رشتہ دار تھے اور ان کے عہد خلافت میں ممتاز عہدوں پر متعین رہے۔ احباب کے ساتھ بھی یہی سلوک تھا،ان کی ضرورت پر بڑی بڑی رقمیں قرض دیتے تھے اور بسا اوقات واپس نہیں لیتے تھے، ایک دفعہ حضرت طلحہ ؓ نے ایک بڑی رقم قرض لی،کچھ دنوں بعد واپس دینے آئے تو لینے سے انکار کردیا اورفرمایا کہ یہ تمہاری مروت کاصلہ ہے۔ (طبری : ۳۰۳۷) صبر وتحمل صبر وتحمل کا پیکر تھے، مصائب وآلام کو نہایت صبر وسکون کے ساتھ برداشت کرتےتھے، شہادت کے موقع پر چالیس دن تک جس بردباری ضبط اورتحمل کا اظہار آپ کی ذات سے ہوا وہ اپنی آپ نظیر ہے،سینکڑوں وفا شعار غلام اورہزاروں معاون وانصار سرفروشی کے لئے تیار تھے مگر اس ایوب وقت نے خونریزی کی اجازت نہ دی اوراپنے اخلاقِ کریمانہ کا آخری منظر دکھا کر ہمیشہ کے لئے دنیا سے روپوش ہوگیا۔ مذہبی زندگی دن کے وقت مہمات خلافت میں مصروف رہتے اور رات کا اکثر حصہ عبادت وریاضت میں بسر فرماتے تھے،کبھی کبھی رات بھر جاگتے اورایک ہی رکعت میں پورا قرآن ختم کردیتے تھے۔ (ابن سعد) دوسرے تیسرے دن عموماً روزہ رکھتے تھے، کبھی کبھی مہینوں روزے سے رہتے،اورشب کے وقت صرف اس قدر کھالیتے تھے کہ سدرمق کے لئے کافی ہو۔ ہرسال حج کے لئے تشریف لے جاتےتھے، خود امیر الحج کے فرائض انجام دیتے تھے،خصوصاً ایام خلافت میں کوئی سال حج سے خالی نہیں گزرا البتہ جس سال شہید ہوئے اس سال محصور ہونے کے باعث نہ جاسکے۔