انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** خاتمۂ جنگ حضرت علی کرم اللہ وجہہ اُشتر کے کامیاب حملہ کو دیکھ کر جس قدر مسرور ومطمئن تھے امیر معاویہؓ اُسی قدر پریشان وحواس باختہ ہو رہے تھے،عمرو بن العاص نے معاویہؓ سے کہا کہ اب دیکھتے کیا ہو،لوگوں کو حکم دو کہ وہ فوراً نیزوں پر قرآن مجید کو بلند کریں اور بلند آواز سے کہیں: ھٰذَا کِتَابُ اللہِ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ (ہمارے تمہارے درمیان خدا تعالیٰ کی کتاب قرآن مجید ہے) چنانچہ فوراً یہ حکم دیا گیا اوراہلِ شام نے نیزوں پر قرآن شریف کو بلند کرکے کہنا شروع کیا کہ ہم کو قرآن شریف کا فیصلہ منظور ہے،بعض حصوں سے آواز آتی تھی کہ مسلمانو!ہماری لڑائی دین کے لئے ہے، آؤ قرآن شریف کو حکم بنالو،اگر لڑائی میں شامی لوگ تباہ ہوگئے تو رومیوں کے حملے کو کون روکے گا اور اہل ِ عراق برباد ہوگئے تو مشرقی حملو آوروں کا مقابلہ کون کرے گا؟ حضرت علیؓ کے لشکروالوں نے جب قرآن مجید کو نیزوں پر بلند دیکھا تو لڑائی سے ہاتھ کھینچ لیا، حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے شامیوں کی یہ حرکت دیکھ کر کہا کہ اب تک تو لڑائی تھی،لیکن اب فریب شروع ہوگیا،حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے لوگوں کو سمجھایا کہ تم اس وقت کوتاہی نہ کرو،بہت جلد تم کو کامیابی حاصل ہوجائے گی،لوگ مسلسل لڑتے لڑتے تھک گئے تھے اور اس لڑائی کو جس مسلمانوں کے درمیان ہو رہی تھی مضرِ اسلام بھی سمجھتے تھے،اس لئے انہوں نے لڑائی کے بند کرنے اور صلح پر رضا مند ہوجانے کی اس درخواست کو بہت ہی غنیمت سمجھا اورفوراً تلواریں میاں میں رکھ لیں،اب تک دونوں لشکروں کی طاقت مقابلہ میں بالکل مساوی ثابت ہوتی رہی تھی اور فتح کا قریب ہونا جس طرح حضرت علیؓ اوربعض تجربہ کار وباخبر سرداروں کو نظر آتا تھا،عام سپاہیوں اورلڑنے والوں کو اُس کے سمجھنے کا موقع نہ ملا تھا،اس لئے بھی فوج کی غالب تعداد نے شامیوں کی اس خواہش کو بہت ہی غنیمت اور مناسب سمجھا،یہ رنگ دیکھ کر سبائی گروہ کے افراد کی بھی آنکھیں کُھلیں وہ فوراً میدانِ عمل میں نکل آئے اورحضرت علیؓ کے گرد جمع ہوکر ان کو مجبور کرنا شروع کیا کہ آپ اُشتر کو واپس بُلا لیں۔ اشتر اپنی کامیابی کو یقینی سمجھتا اور فتح وفیروزی کو پیش پا افتادہ دیکھتا تھا،اُشتر کے واپس بلانے اورلڑائی بالکل بند کردینے کا مطالبہ کرنے والوں کے ساتھ عام لشکری آ آ کر شریک ہونے لگے،ادھر لوگوں نے لڑائی بند کردی اوراُشتر کے حملہ کو روکنے کے لئے شامی فوج فارغ ہوگئی،اُدھر حضرت علیؓ کو لوگوں نے چاروں طرف سے گھیر کر یہاں تک گستاخانہ کلام کیا کہ اگر آپ اُشتر کو واپسی کا حکم نہ دیں گے تو ہم آپ کے ساتھ بھی وہی سلوک کریں گے جو ہم نے عثمان غنیؓ کے ساتھ کیا ہے، یہ خطرناک صورت دیکھ کر حضرت علیؓ نے اشتر کے پاس فوراً آدمی دوڑایا کہ یہاں فتنہ کا دروزہ کُھل گیا ہے،جس قدر جلد ممکن ہو اپنے آپ کو میرے پاس واپس پہنچاؤ،اشتر بادل ناخواستہ واپس آیا اور لڑائی کا ہنگامہ ایک لخت بند ہوکر تمام میدان پر سکون وخاموشی طاری ہوگئی،اُشتر کے واپس آنے پر حضرت علیؓ نے صورتِ واقعہ بیان کی،اشتر نے افسوس کیا اور کہا کہ اے اہلِ عراق جس وقت تم اہلِ شام پر غالب ہونے والے تھے اُسی وقت ان کے دامِ فریب میں مبتلا ہوگئے، لوگوں میں یہاں تک لڑائی کے خلاف جوش پیدا ہوچکا تھا کہ انہوں نے اُشتر پر حملہ کرنا چاہا،مگر حضرت علیؓ کے ڈانٹنے اور روکنے سے وہ رک گئے،اس کے بعد اشعث بن قیس نے آگے بڑھ کر عرض کیا کہ امیر المومنین لوگوں نے قرآن کو حکم تسلیم کرلیا اور لڑائی بند ہوگئی،اب اگرچہ آپ اجازت دیں تو میں معاویہؓ کے پاس جاکر اُن کے منشائے دلی کو معلوم کروں،حضرت علیؓ نے اُن کو اجازت دی وہ امیر معاویہؓ کے پاس گئے اور دریافت کیا کہ تم نے قرآن شریف کو کس غرض سے نیزوں پر بلند کیا تھا؟انہوں نے جواب دیا:ہم اور تم دونوں خدا اوررسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی طرف رجوع کریں،ایک شخص کو ہم اپنی طرف سے منتخب کریں اورایک کو تم اپنی طرف سے مقرر کردو،ان دونوں سے حلف لیا جائے کہ وہ قرآن مجید کے موافق فیصلہ کریں گے،اس کے بعد وہ جو فیصلہ صادر کریں،اُس پر ہم دونوں راضی ہوجائیں۔ اشعث بن قیس یہ سن کر حضرت علیؓ کی خدمت میں واپس آئے اورامیر معاویہؓ سے جو کچھ سُنا تھا وہ سب بیان کردیا،حضرت علیؓ کے ارد گرد جس قدر لوگ موجود تھے،یہ سُن کر اُن سب نے یک زبان ہوکر کہا کہ ہم اس بات پر راضی ہیں، اورایسے فیصلے کو پسند کرتے ہیں اس کے بعد حضرت امیر معاویہؓ اوراہل شام سے دریافت کیا گیا کہ تم اپنی طرف سے کس کو حکم منتخب کرتے ہو،انہوں نے کہا کہ عمروبن العاصؓ کو،اب حضرت علیؓ کی مجلس میں یہ مسئلہ پیش ہوا کہ ہماری طرف سے کون حکم مقرر کیا جائے؟ حضرت علیؓ نے کہا کہ میں عبداللہ بن عباسؓ کو پسند کرتا ہوں،اُن کے اہلِ مجلس نے کہا کہ عبداللہ بن عباسؓ آپ کے رشتہ دار ہیں ہم ایسے شخص کو حکم مقرر کرنا چاہتے ہیں جس کا آپ سے اورامیر معاویہؓ سے یکساں تعلق ہو،حضرت علیؓ نے فرمایا کہ اچھا تم بتاؤ کس کو پسند کرتے ہو؟ لوگوں نے کہا کہ ابو موسیٰ ؓ اشعری کو بہت مناسب سمجھتے ہیں،حضرت علیؓ نے کہا کہ میں ابو موسیٰؓ کو ثقہ نہیں سمجھتا،تم اگر ابن عباسؓ کو میرا رشتہ دار ہونے کی وجہ سے انتخاب نہیں کرتے ہو تو مالک اُشتر کو مقرر کردو، وہ میرا رشتہ دار بھی نہیں ہے، لوگوں نے کہا کہ ابو موسیٰؓ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت ملی ہے، وہ صحابی ہیں اورمالک اشتر اس شرف سے محروم ہے،لہذا اہم اس کو ابو موسیٰ پر ہرگز ترجیح نہ دیں گے،آخر ابو موسیٰ اشعریؓ حکم تجویز ہوگئے، ابھی یہ مجلس برپاہی تھی کہ امیر معاویہؓ کی طرف سے حضرت عمرو اقرار نامہ لکھنے کے لئے آگئے۔