انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** قرآنی شواہد آپ صلی اللہ علیہ وسلم شرعی امورمیں اجتھاد سے کام لیتے تھے اس پر قرآن وحدیث سے دلائل موجود ہیں: مثلاً ارشادخداوندی ہے: ۱۔ "وَشَاوِرْھُمْ فِیْ الْاَمْرِ"۔ (آل عمران:۱۵۹) اور ان سے خاص خاص باتوں میں مشورہ لیتے رہاکیجئے۔ آیت بالامیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشورہ کا حکم دیا گیا ہے، اس سے درحقیقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اجتھاد کا حکم دینا ہے؛ کیونکہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام سے مشورہ لیں گے اور وہ اپنی آراء کا اظہار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کریں گے تو پھر آپ ان میں سے کسی ایک رائے کو آپﷺ اپنے اجتھاد سے قبول کریں گے جو موقع اور مصلحت کے مناسب ہو اور یہی تو اجتھاد ہے۔ ۲۔ "یَاَیُّہَاالَّذِیْنَ آمَنُوْا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرُ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْیٍٔ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآٰخِرْ ذٰلِکَ خَیْرٌوَّاَحْسَنُ تَأْوِیْلاً" (النساء:۵۹) اے ایمان والو! تم اللہ کا کہنا مانو اور رسول کا کہنا مانو اور تم میں جولوگ اہل حکومت ہیں ان کابھی؛ پھر اگر کسی امرمیں تم باہم اختلاف کرنے لگوتو اس امرکو اللہ اور اس کے رسول کے حوالے کردیاکرو؛ اگر تم اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو، یہ امور سب بہترہیں اور ان کا انجام خوشتر ہے۔ آیت بالا میں اللہ تعالیٰ نے اپنی اور رسول کی اطاعت کا حکم دیا ہے اور اطاعت خداوندی تو ان امورسے ہوگی جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بطوروحی نازل کی گئی، اور رسول کی اطاعت کرنا اس وقت ہوگا جبکہ ان کے ہراس حکم کی اتباع کی جائے جو وہ وحی کے ذریعہ سے، یا اجتھاد کے ذریعہ سے دیں، اگر اللہ اور رسول کی اطاعت سے صرف وحی کی اطاعت واتباع مرادلی جائے تو محض تکرار ہوگا، اور اطاعت رسول کا حکم جو مستقل طورپر دیا گیا ہے اس کا بظاہر کوئی فائدہ نہیں رہے گا۔ نیز باہمی اختلاف کی صورت میں فریقین کو یہ حکم ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف رجوع کریں، اللہ کی طرف رجوع کرنے کا مطلب تو یہ ہوگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئی وحی (خواہ وحی متلو (قرآن) ہو یا وحی غیرمتلو "حدیث") کی طرف رجوع کریں، اور ان سے جو رہنمائی ملے اس پر کاربند ہوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرنے کا مطلب یہ ہوگاکہ وہ اپنے اجتھاد سے جو حکم دیں یا فیصلہ کریں ان پر عمل پیراہوں، اور اپنے نفس کو دخل نہ دیں؛ اگر دونوں جگہ وحی ہی مرادلی جائے تو تکرار محض ہوگا، جو بہتر نہیں ہے؛ لہٰذا "وَأَطِیعُوالرَّسُوْلَ" سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتھادی احکام مراد ہوں گے؛ یہی وجہ ہے کہ ایک دوسری آیت میں "رسول" اور "اولی الامر" کے درمیان استنباط حکم میں برابری کا ذکر ہے۔ (النساء:۸۳) اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے اجتھاد جائز نہ ہوتا اور اس کی اطاعت ضروری نہ ہوتی تو باہمی نزاع کے تصفیہ کیلئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرنے کا کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ ۳۔ "فَاِنْ جَآءُوْکَ فَاحْکُمْ بَیْنَہُمْ اَوْ اَعْرِضْ عَنْہُمْ وَاِنْ تُعْرِضْ عَنْہُمْ فَلَنْ یَّضُرُّوْکَ شَـیْـاً وَاِنْ حَکَمْتَ فَاحْکُمْ بَیْنَہُمْ بِالْقِسْطِ اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ"۔ (المائدہ:۴۲) تواگر یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آویں، تو (آپ صلی اللہ علیہ وسلم مختار ہیں) خواہ آپ ان میں فیصلہ کردیجئے، یا ان کو ٹال دیجئے، اور اگر آپ ان کو ٹال دیں تو ان کی مجال نہیں کہ وہ آپ کو ذرابھی ضرر پہنچاسکیں، اور اگر آپ فیصلہ کریں تو ان میں عدل کے موافق فیصلہ کیجئے، بیشک حق تعالیٰ عدل کرنے والوں سے محبت کرتے ہیں۔ آیت بالامیں فیصلہ کرنے اور نہ کرنے کا اختیار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا ہے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اجتھاد سے یہ محسوس کریں کہ ہمارے فیصلہ کرنے میں مصلحت ہے، اور فریقین فیصلہ کے قبول کرنے پر آمادہ ہیں تو آپ فیصلہ کردیں، ورنہ ٹال دیں، ظاہر ہے کہ فیصلہ میں مصلحت وغیرہ پر نظر رکھنا تو اجتھادہی کے ذریعہ ہواکرتا ہے، نیز فیصلہ کرتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو انصاف کا دامن تھامے رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے، اور حتی الوسع حق تک پہنچنے کا مکلف بنایا گیا ہے، جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اجتھاد کی اجازت ہے؛ ورنہ اگر آپﷺ وحی کے ذریعہ ہی فیصلہ کرنے کے پابند ہوتے تو وحی کے سارے احکام تو حق وانصاف پرمبنی ہواکرتے ہیں، پھر "بالقسط" کی قید کا کوئی فائدہ نہیں رہ جائے گا۔ ان کے علاوہ اوربھی آیات ہیں جن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتھاد کے جوازپر استدلال کیا گیا ہے، مثلاً سورۂ نساء کی آیت نمبر:۶۵، ۱۰۵، سورۂ نور کی آیت نمبر:۶۲، سورۂ التحریم کی ابتدائی آیات، اور سورۂ انفال کی آیت نمبر:۶۹ اور اس طرح کی دیگر اور آیات ہیں ان آیاتِ قرآنیہ سے صاف پتہ چلتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو امورِشرعیہ میں اجتھاد کی اجازت تھی۔