انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** خلیفہ عبدالرحمن کی عالمگیر عظمت خلیفہ عبدالرحمن ناصر کی خدمت وشہرت نے بہت جلد دنیا کامحاصرہ کرلیا۳۲۶ھ میں قسطنطین بن الیون شہنشاہ قسطنطنیہ نے اپنے سفیر نہایت شان دار اورقیمتی تحائف کے ساتھ خلیفہ ناصر کی خدمت میں قرطبہ کی طرف روانہ کیے ،قسطنطین نے ان شاندار تحائف کوبھیج کر ایک طرف اپنی شان وعظمت اورمال ودولت کی نمائش کرنی چاہی تھی وار دوسری طرف خلیفہ ناصر کی دوستی سے فائدہ اٹھانے کاخواہاں تھا ،خلیفہ ناصر نے اس سفارت کے قریب پہنچنے کا حال سن کر شہر قرطبہ کی آراستگی کاحکم دیا فوجیں زرق برق وردیوں میں دورویہ استادہ ہوئیں ،دروازوں اور دیواروں پر زردوزی کے پردے،ریشمیں نمگیرے ،خوبصورت قاناقیں اورانواع واقسام ککی زینت اور صنعت کاری دیکھ کر قسطنطنیہ کے ایلچی حیران وششدر رہ گئےاور اپنے لائے ہوئے ہدیوں کو حقیر دیکھنے لگے ،سنگ مرمر کے خوبصورت ستونوں اورپچی کاری سنگین ورنگین فرشوں پر سے گزرتے ہوئےیہ ایلچی دربار کے ایوان عالی شان میں پہنچے جہاں خلیفہ ناصر تخت خلافت پر جلوہ فگن اورامراء وزراء علماء وشعراء وسرداران فوج اپنے اپنے قرینے اور مرتبہ پر ایستادہ تھے ان سفیروں پر یہ ہیبت وعظیم الشان نظارہ دیکھ کر عجب کیفیت طاری ہوئی بہر حال وہ سنبھلے اورنہایت ادب وتپاک سے کورنش بجالائے اور تخت کے قریب جاکر اپنے بادشاہ کا خط پیش کیا ،ایک آسمانی رنگ کا غلاف تھا جس پر سونے کے حروف سےکچھ لکھا ہواتھا اس غلاف کے اندر ایک صندوقچہ تھا جو نہایت خوبصورت اور مرصع کار تھا اس صندوقچہ پر سونے کی مہر لگی ہوئی تھی جس کا وزن چار مثقال تھا اس مہر کے ایک طرف مسیح کی اوردوسری طرف شاہ قسطنطین کی تصویر کندہ تھی اس صندوقچہ کے اندر اور ایک صندوقچہ کا بلور کا تھا جس پر طلائی ونقری مینا کار بیل بوٹے منقوش تھے اس کے اندر ایک نہایت خبصورت ریشمی لفافہ تھا جس کے اندر نہایت خوبصورت آسمانی رنگ کی جھلی پر طلائی حروف میں لکھا ہوا خط رکھاتھا،عنوان خط میں خلیفہ عبدالرحمن ناصر لدین اللہ کو نہایت شان دار القاب کے ساتھ مخاطب کیاگیا تھا ،خلیفہ نے خط پڑھواکر سنا،اس کے بعد محمد بن عبدالبر کی طرف اشارہ کیا کہ وہ حسب حال تقریر کریں ،اب فقیہ صاحب کوبرجستہ تقریر کرنے میں خاص ملکہ حاصل تھا مگر اس وقت اس دربار کی عظمت اور مجلس کے رعب کا یہ عالم تھا کہ فقیہ مذکور کھڑے ہوئے اور حمد ونعت کے بعد بیہوش ہوکر گرپڑے ان کے بعد ابوعلی اسماعیل بن قاسم کھڑے ہوئے وار چند الفاظ ادا کرنے کے بعد کوئی لفظ منہ سے نہ نکال سکے،یہ معلوم ہوتا تھا کہ فکر واندیشہ میں مستغرق ہیں یہ رنگ دیکھ کر منذر بن سعید جو معمولی درجہ کےعلماء میں شامل تھے کھڑے ہوئے اور بلا تامل تقریر شروع کردی،یہ تقریر اس قدر لطیف وپرجوش اور حسب موقع تھی کہ بے اختیار تحسین وآفرین کی صدائیں بلند ہوئیں،،خلیفہ نے اس حسن خدمت کے سلہ میں منذر بن سعید کو قاضی القضاۃ کے عہدہ پر مامور کردیا،معمولی مراسم کے بعد دربار برخاست ہوا سفیروں کو نہایت عزت واحترام کے ساتھ ٹھہرایاگیا اور بڑی شاندار مہمانی کی گئی ،چند روز کے بعد قسطنطنیہ کی سفارت کو واپسی دی گئی اوراس کے ساتھ ہی خلیفہ نے ہشام بن ہذیل کو اپنی طرف سے بطور سفیر شاہ قسطنطین کے پاس روانہ کیا اور اس کو ہدایت کردی کہ قسطنطین سے ایک دوستانہ معاہدہ لکھولائے چنانچہ ہشام بن ہذیل کامیابی کے ساتھ ۳۳۸ ھ میں شاہ قسطنطنیہ سے ایک دوستانہ عہد نامہ لکھواکر واپس قرطبہ میں آیا اس کے بعد بادشاہ اٹلی، بادشاہ جرمن، بادشاہ فرانس، بادشاہ صقالیہ کے سفیر یکے بعد دیگرے دربار قرطبہ میں حاضر ہوئے اور اپنے اپنے بادشاہوں کی طرف سے اظہار عقیدت بجالائے اور محبت وہمدردی کے تعلقات پیدا کرنے کی درخواست کی اور ہر ایک بادشاہ نے خلیفہ عبدالرحمن ناصر کی چشم عنایت اپنی طرف مبذول کرنے کے لیے منت وسماجت اور خوشامد میں کوتاہی نہیں کی ،یورپ کا ہر ایک بادشاہ یہ چاہتا تھا کہ خلیفہ عبدالرحمن میرا حامی ومددگار بن جائے تاکہ میں دشمنوں کے حملوں سے محفوظ ہوجاؤں۔ خلیفہ عبدالرحمن نے اپنے بیٹے حکم کو اپنا ولی عہد بنایا تھا دوسرا بیٹا عبداللہ نماز روزہ کی طرف زیادہ مائل اور الزاہد کے نام سے مشہور تھا،عبداللہ کو قرطبہ کے ایک فقیہ نے جن کا نام عبدالباری تھا بہکایااور حکومت کی طمع دلاکر اس بات پر آمادہ کرلیا کہ خلیفہ عبدالرحمن اور حکم کو قتل کرنے کی ایک زبردقت کوشش کی جائے ؛چنانچہ فقیہ عبدالباری اور عبداللہ نے مل کر خلیفہ اور ولی عہد کے قتل کرنے کی تیاری کی اس سازش میں اور لوگوں کو بھی شریک کیاگیا،۱۰ذی الحجہ ۳۳۹ھ یعنی بروز عیدالاضحی اس سازش کا انکشاف ہوگیا اور خلیفہ مع ولی عہد قتل ہوتے ہوتے بچ گئے، خلیفہ نے اپنے بیٹے عبداللہ اور فقیہ عبدالباری دونوں کو گرفتار کرکے جیل خانے بھجوادیا پھر اسی روز اول اپنے بیٹے عبداللہ کو جیل خانے سے نکال کر قتل کرایا ،فقیہ صاحب نے جب عبداللہ کےقتل ہونے کا حال سنا تو خود ہی جیل خانے میں خود کشی کرکے ہلاک ہوگئے۔ ۳۴۲ھ میں رذ میر بادشاہ جلیقیہ کے فوت ہونے پر اس کا بیٹا اردونی چہارم تخت نشین ہوا اور خلیفہ عبدالرحمن باصر کی خدمت میں سفیر بھیج کر اپنی حکومت اورباپ کی جانشینی کی اجازت چاہی خلیفہ نے اس کی تخت نشینی کو منظور کرکے اجازت نامہ بھیج دیا،۳۴۵ھ میں فردی نند سردار قسطلہ نے اردونی چہارم کو اپنا سفارششی بناکر خلیفہ کی خدمت میں اپنی مستقل ریاست وحکومت کے تسلیم کیے جانے کی درخوست بھیجی خلیفہ نے فردی نند کی اس درخواست کو منظور کرلیا اور اس کو ریاست قسطلہ کا مستقل حاکم وفرماں روا بنادیا ،فردی نند اب تک ریاست جلیقیہ یعنی رز میر کا ماتحت سمجھاجاتا تھا لیکن چونکہ اردونی چہارم سے سفارش کرکے اس کو بھی مستقل فرماں روا اور خود مختار رئیس بنوادیا اس سے قبل یہ صورت پیش آچکی تھی کہ شانجہ جس کاذکر اوپر آچکا ہے اپنی آبائی ریاست لیون پر قابض ہوچکا تھا اور کئی برس سے ریاست لیون جلیقیہ سے جدا شانجہ کے تصرف میں تھی ریاست نوار میں اس کی نانی طوطہ حکمران تھی شانجہ موٹاپے میں مبتلا ہوکر اس قدر موٹا ہوگیاتھا کہ گھوڑے پر چڑھنا توبڑی بات ہے پیدل بھی دوقدم نہیں چل سکتا تھا۴۴۶ھ میں فردی نند اور اردنی چہارم نے مل کر شانجہ کو ریاست لیون سے بےدخل کردیا شانجہ اپنی نانی طوط کے پاس ریاست نوار میں چلاگیا ریاست نوار میں شانجہ کا ایک ماموں بادشاہ تھا مفر عنان حکومت ان کی نانی ہی کے ہاتھ میں تھی جو قابلیت اور تجربہ کاری کی وجہ سے اپنے بیٹے شاہ نوار کی سرپرست واتالیق بھی تھی ملکہ طوطہ نے خلیفہ کی خدمت میں بہت سے تحفے اور ہدیے بھیج کر درخواست کی کہ خلیفہ شانجہ کا ملک اردنی سے واپس دلادے اور ایک طبیب قرطبہ سے بھیج دے جوشانجہ کے مرض کا علاج کرے خلیفہ نے ایک شاہی طبیب کو نوار کی طرف روانہ کردیا اور ملک کے واپس دلانے کا مسئلہ غور وتامل کے لیے دوسرے وقت پر ڈال دیا،طبیب کے علاج سے شانجہ کو آرام ہوگیا اور اس کی پہلی چستی وچالاکی پھر واپس آگئی۔