انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ذات باری پر ایمان گذشتہ تفصیل سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ اس دنیا کا بنانے والا اللہ موجود ہے تو پھر اس پر ایمان لانا اور یقین کرنا ضروری ہوا۔ ذاتِ باری پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ اس بات پر یقین کیا جائے کہ اللہ ایک ہے، اس کی ذات میں کوئی اس کا شریک نہیں نہ وہ کسی کی اولاد ہے اور نہ اس کی کوئی اولاد ہے، وہی آسمانوں اور زمینوں کا بنانے والا؛ ہرچیز کا رب اور مالک ہے، اس کے سوا حقیقی معبود اور کوئی پالنے والا نہیں۔ (الاعراف:۵۴۔ طٰہٰ:۱۴۔ الانبیاء:۲۲۔ ھود:۶۔ یونس:۳۱،۳۲) ۱۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "قُلْ ھُوَ اللہُ اَحَدٌ " (الاخلاص:۱) "ترجمہ:آپ لوگوں سے کہہ دیجئے کہ وہ یعنی اللہ (اپنے کمال ذات وصفات میں) ایک ہے"۔ (کمالِ ذات یہ ہے کہ واجب الوجود ہے یعنی ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہیگا او رکمال صفات یہ کہ علم قدرت وغیرہ اس کے قدیم اور محیط ہیں)اللہ بے نیاز ہے (یعنی وہ کسی کا محتاج نہیں اور اس کے سب محتاج ہیں)اس کے اولاد نہیں اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے اور نہ کوئی اس کے برابر ہے۔ (الاخلاص، معارف القرآن:۸/۲۰۲، مفتی محمدشفیع صاحبؒ، ولادت:۱۳۱۴ھ،۱۸۹۷ء ، وفات:، مطبوعہ:مکتبہ اشرفی دیوبند) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ تعالیٰ نے کہا کہ ابن آدم نے مجھے جھٹلایا حالانکہ اُس کو اُس کا حق نہیں تھا اور مجھے برابھلا کہا؛ حالانکہ اُس کو اُس کا حق نہیں تھا؛ بہرحال اس نے مجھے یہ کہکر جھٹلایا کہ میں اسے دوبارہ زندہ نہیں کرونگا؛ جیسا کہ پہلی بار کیا اور جو اس نے برابھلا کہا وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اولاد ہے حالانکہ میں اس سے بے نیاز ہوں نہ میں کسی کی اولاد ہوں اور نہ میری کوئی اولاد ہے اور نہ کوئی میرے برابر کا ہے ۔ (بخاری، باب قولہ اللّٰہ الصمد، حدیث نمبر:۴۵۹۳) ارشادِ باری ہے: "فَلَا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَنْدَادًا وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ"۔ (البقرہ:۲۲) "اب تو مت ٹھہراؤ اللہ پاک کے مقابل اور تم تو جانتے بوجھتے ہو"۔ (ترجمہ حضرت تھانویؒ) حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے بیان کیا کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اللہ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ کونسا ہے؟ آپ نے فرمایا:اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا؛ حالانکہ اسی نے تجھے پیدا کیا یقینا یہ بہت بڑا گناہ ہے ۔ (بخاری، باب قولہ فلاتجعلوا اللہ اندادا:حدیث نمبر:۴۱۱۷) ۲۔ تقریبا ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء ورسل علیہم السلام نے اللہ کی ہستی اور ساری کائنات کے لیے اس کے رب ہونے کی خبر دی ہے کہ وہی ان کا خالق ہے اور اسی کو ہر کام کے کرنے کا اختیار ہے اور ان انبیاء ورسل نے اللہ تعالی کے نام اور صفات کی خبر بھی دی ہے، اللہ جل شانہ نے ہر نبی اور رسول کے پاس اپنا پیغام لے جانے والے کو بھیجا یا بلاواسطہ اس سے بات کیا یا اس کے دل میں کچھ باتیں ڈالی ، جس سے انہیں اللہ تعالی کے کلام اور وحی کا یقین ہوگیا۔ اب مخلوقات میں سے برگزیدہ بندوں کی اتنی بڑی جماعت کو (جنہوں نے اللہ تعالی کے وجود کی خبردی ہے ) جھٹلا دینا عقلا ناممکن ہے اور یہ بھی ممکن نہیں کہ انہوں نے جھوٹ پر اتفاق کرلیا ہو یا بغیر تحقیق و علم اور بلا یقین بے تحقیق اور بے سند بات کا اعلان کردیا ہو، جبکہ انبیاء کا یہ گروہ پاکبازی، عقل ودانش اور سچائی میں تمام انسانوں سے بڑھ کر اور بہتر ہے ۔ ۳۔ کروڑوں انسان اللہ تعالی کو مانتے ہیں، اس کی عبادت کرتے ہیں جبکہ انسانی مزاج میں ہے کہ ایک دو آدمی کی خبر کا بھی اعتبار کرلیا جاتا ہے، علاوہ ازیں یہ جس ذات پر ایمان رکھتے ،اس کی خبر دیتے اس کی عبادت کرتے اور اس کا تقرب حاصل کرتے ہیں، عقل وفطرت بھی اس کے صحیح ہونے کی گواہی دیتی ہے۔