انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** مسیلمۂ کذّاب فتح مکہ کے بعد جو وفود قبائل کی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو ہو کر مسلمان ہوئے تھے اُن میں مسیلمہ بن حبیب بھی بنو حنیفہ کے وفد میں شامل تھا،جس کا اوپر عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے واقعات میں تذکرہ آچکا ہے،جب وہ اپنے وطن یمامہ کی طرف واپس ہوا تو انہیں ایام میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ناسازی طبع کی خبر مشہور ہوئی مسیلمہ نے نبوت کا دعویٰ کیا، اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں خط روانہ کیا کہ نبوت میں آپ اور میں دونوں شریک ہیں،لہذا نصف ملک قریش کا اورنصف میرارہے گا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو جواباً لکھا کہ: بسم اللہ الرحمن الرحیم من محمد رسول اللہ الی مسیلمۃ الکذاب سلام علیٰ من اتبع الھدیٰ، اما بعد فان الارض للہ یورثھا من یشاء من عبادہ والعاقبۃ للمتقین۔ اس جواب کے روانہ کرنے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو حنیفہ کے ایک معزز شخص رجال بن عنفوہ کو جو ہجرت کرکے مدینہ میں آگیا تھا، اوراس کا اپنی قوم پر بوجہ ہجرت کرجانے کے اوربھی زیادہ اثر تھا،مسیلمہ کے پاس روانہ کیا کہ اس کو نصیحت کرکے اسلام پر قائم کرے۔ رجال نے یمامہ میں پہنچ کر مسیلمہ کی تائید کی اوراس کا متبع بن گیا،اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسیلمہ کی خوب گرم بازاری ہوگئی،وفات نبوی کے بعد مسیلمہ کذاب کا فوراً تدارک نہ ہوسکا،کیونکہ صدیق اکبرؓ کی توجہ مختلف جہات پر تقسیم ہوگئی تھی، عکرمہ بن ابی جہل کو مسیلمہ کی سرکوبی کے لئے نامزد فرما کر روانہ کیا گیا تھا اوران کے پیچھے شرجیل بن حسنہؓ کو کمک بناکر روانہ کیا تھا،عکرمہؓ نے مسیلمہ کے قریب پہنچ کر شرجیل کے شریک ہونے سےپہلے ہی شتاب زدگی سے حملہ کرکے شکست کھائی،اس خبر کو سُن کر حضرت ابوبکر صدیقؓ نے عکرمہؓ کو لکھا کہ تم اب مدینہ واپس نہ آؤ؛بلکہ حذیفہ وعرفجہ کے پاس چلے جاؤ،اوراُن کی ماتحتی میں مہرہ اوراہل عمان سے لڑو،جب اس مہم سے فراغت حاصل ہو تو معہ اپنے لشکر کے مہاجربن ابی امیہ کے پاس یمن وحضرت موت میں چلے جاؤ اورشرجیل بن حسنہ کو لکھا کہ تم خالد بن ولیدؓ کے صوبجات کی طرف جاکر وہاں سے قضاعہ کی طرف چلے جاؤ اور عمرو بن العاص کے شریک ہوکر ان لوگوں سے جنگ کرو،جو قضاعہ میں مرتد ہوگئے ہیں،اس عرصہ میں حضرت خالد بن ولیدؓ علاقہ بطاح یعنی بنو تمیم کے علاقہ سے فارغ ہوچکے تھے،وہ اپنی مہم کو پورے طور پر انجام دے کر واپس مدینہ منورہ میں تشریف لائے،یہاں دربارِ خلافت میں حاضر ہوکر اُن کو مالک بن نویرہ کے معاملہ میں صفائی پیش کرنی پڑی، حضرت عمر فاروقؓ اگرچہ حضرت خالدؓ کے ساتھ سخت گیری اورتعزیز وسزا دہی کا برتاؤ ضروری سمجھتے تھے،مگر حضرت صدیق اکبرؓ نے اُن کو معذور وبے گناہ پاکر قابل مواخذہ نہ سمجھا اوراپنی رضا مندی کا اظہار فرما کر ان کو سُرخ روئی کے ساتھ مہاجرین وانصار کا ایک لشکر دے کر مسیلمہ کذاب کی طرف روانہ فرمایا۔