انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** اللہ اور رسولﷺ "لاَاِلٰہ اِلاَّ اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ"۔ (اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں (یعنی کوئی عبادت اور بندگی کے لائق نہیں)اورمحمدﷺ اس کے رسول ہیں)۔ یہی کلمہ اسلام کا دروازہ اور دین وایمان کی جڑ،بنیادہے،اس کو قبول کرکے اور اعتقاد کے ساتھ پڑھ کے عمربھرکاکافر اور مشرک بھی مومن اور مسلمان اور نجات کا مستحق ہوجاتا ہے،مگریہ شرط ہے کہ اس کلمہ میں اللہ تعالی کی توحید اور حضرت محمدﷺ کی رسالت کا جواقرار ہے اس کو اس نے سمجھ کر مانا اور قبول کیا ہو،پس اگر کوئی شخص توحید ورسالت کو بالکل بھی نہ سمجھا ہو اور بغیر معنی مطلب سمجھے اس نے یہ کلمہ پڑھ لیا ہو تو وہ اللہ کے نزدیک مومن اور مسلمان نہ ہوگا،لہذا ضروری ہے کہ ہم اس کلمہ کے معنی اور مطلب کو سمجھیں۔ اس کلمہ کے دوجزو ہیں،پہلا جز ہے "لاَاِلٰہ اِلاَّ اللہُ" اس میں اللہ تعالی کی توحید کا اقرار ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی ایسی ہستی نہیں ہے جو عبادت اور بندگی کے لائق ہو، بس اللہ تعالی ہی کی ایک اکیلی ایسی ہستی ہے جو عبادت اور بندگی کے قابل ہے؛ کیونکہ وہی ہمارا اور سب کا خالق ومالک ہے، وہی پالنے والا اور روزی دینے والا ہے، وہی مارنے والا اوروہی زندہ کرنے والا ہے،بیماری اورتندرستی،امیر ی اور غریبی اور ہر طرح کا بناؤ، بگاڑ اور نفع نقصان صرف اسی کے قبضہ قدرت میں ہےاور اس کے سوا زمین وآسمان میں جوہستیاں ہیں خواہ انسان ہوں یا فرشتے سب اس کے بندے اور اس کے پیدا کیے ہوئے ہیں، اس کی خدائی میں کوئی اس کا شریک اور ساتھی نہیں ہے اور نہ اس کے حکموں میں الٹ پلٹ کا کسی کو اختیار ہے، اور نہ اس کے کاموں میں دخل دینے کی کسی کو مجال ہے؛ لہٰذا بس وہی اور صرف وہی اس لائق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے اور اسی سے لولگائی جائے اور مشکلوں اور مصیبتوں اور اپنی تمام حاجتوں میں گڑ گڑاکر اسی سے دعا اور التجا کی جائے اور وہی حقیقی مالک الملک اور احکم الحاکمین ہے،یعنی ساری دنیا کا بادشاہ ہے اور سب حاکموں سے بالاتر اور بڑا حاکم ہے؛ لہٰذا ضروری ہے کہ اس کے ہر حکم کو مانا جائے اور پوری وفاداری کے ساتھ اس کے حکموں پر چلاجائے۔ اوراس کے حکم کے مقابلہ میں کسی دوسرے کا کوئی حکم ہر گز نہ مانا جائے خواہ وہ کوئی ہو،اگرچہ اپنا باپ ہی ہو، یاحاکم وقت ہو، یابرادری کا چودھری ہو یا کوئی پیارادوست ہو،یاخود اپنے دل کی خواہش اور اپنے جی کی چاہت ہو،الغرض جب ہم نے جان لیا اور مان لیا کہ بس ایک اللہ ہی عبادت اوربندگی کے لائق ہے اور ہم صرف اسی کے بندے ہیں تو چاہئے کہ ہمارا عمل بھی اسی کے مطابق ہواوردنیاکے لوگ ہمیں دیکھ کر سمجھ لیا کریں کہ یہ صرف اللہ کے بندے ہیں،جو اللہ کے حکموں پر چلتے ہیں اور اللہ کے لیے جیتے اور مرتے ہیں۔ الغرض ! لاَاِلٰہ اِلاَّ اللہُ ہمارااقراراور اعلان ہو ۔ لاَاِلٰہ اِلاَّ اللہُ ہمارااعتقاداورایمان ہو ۔ لاَاِلٰہ اِلاَّ اللہُ ہمارا عمل اورہماری شان ہو ۔ بھائیو! لاَاِلٰہ اِلاَّ اللہُ دین کی بنیاد کی تمام باتوں میں اس کا درجہ سب سے اونچا ہے،حضورﷺ کی مشہور حدیث ہے،آپ نے فرمایا: "ایمان کے ستر(۷۰) سے بھی اوپرشعبے ہیں اور ان میں سب سے افضل اور اعلی لاَاِلٰہ اِلاَّ اللہُ کا قائل ہونا ہے"۔ (مسلم،باب بیان عدد شعب الایمان ،حدیث نمبر:۵۱، شاملہ، موقع الإسلام) اسی لیے ذکروں میں بھی سب سے افضل لاَاِلٰہ اِلاَّ اللہُ کا ذکرہے؛چنانچہ ایک دوسری حدیث میں ہے: "اَفْضَلُ الذِّکْرِ لاَاِلٰہ اِلاَّ اللہُ"تمام ذکروں میں افضل واعلی لاَاِلٰہ اِلاَّ اللہُ ہے۔ (ابن ماجہ،حدیث نمبر:۳۷۹۰، شاملہ،موقع الإسلام۔ السنن الکبریٰ للنسائی،حدیث نمبر:۱۰۶۶۷، شاملہ، موقع يعسوب) ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ اللہ تعالی نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ایک سوال کے جواب میں فرمایاکہ: "اے موسیٰ (علیہ السلام)!اگر ساتوں آسمان زمینیں اور جو کچھ ان میں ہے ایک پلڑے میں رکھی جائیں اور لاَاِلٰہ اِلاَّ اللہُ دوسرے پلڑے میں،تو لاَاِلٰہ اِلاَّ اللہُ کاپلڑا ہی بھاری رہے گا"۔ (شرح السنہ،باب ثواب التوحید:۱/۳۱۳، المؤلف:محيي السنة، أبومحمد الحسين بن مسعود البغوي(المتوفى:۵۱۰ھ)، شاملہ) بھائیو! لاَاِلٰہ اِلاَّ اللہُ میں فضیلت اور وزن اسی لیے ہے کہ اس میں اللہ تعالی کی توحید کا عہد واقرار ہے،یعنی صرف اسی کی عبادت وبندگی کرنے اور اسی کے حکموں پر چلنے اور اسی کو اپنا مقصودومطلوب بنانے اور اسی سے لو لگانے کا فیصلہ اور معاہدہ ہے اور یہی تو ایمان واسلام کی روح ہے اور اسی واسطے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا مسلمانوں کوحکم ہے کہ وہ اس کلمہ کو بار بار پڑھ کے اپنا ایمان تازہ کیا کریں، بہت مشہور حدیث ہے کہ ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ: "لوگو! اپنے ایمانوں کو تازہ کرتے رہا کرو،بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نےعرض کیا کہ:یارسول اللہ ہم کس طرح اپنے ایمانوں کو تازہ کیاکریں؟آپ نے فرمایا:" لاَاِلٰہ اِلاَّ اللہُ" کثرت سے پڑھا کرو"۔ (مسند احمد ،مسند ابی ھریرہ رضی اللہ عنہ،حدیث نمبر:۸۳۵۳، شاملہ،موقع الإسلام) لاَاِلٰہ اِلاَّ اللہُ کےپڑھنے سے ایمان کے تازہ ہونے کی وجہ یہی ہے کہ اس میں اللہ تعالی کی توحید یعنی صرف اسی کی عبادت وبندگی اور سب سے زیادہ اسی کی فدائیت ومحبت اور اسی کی اطاعت کا عہداوراقرارہے اور جیساکہ عرض کیا گیا یہ ہی تو ایمان کی روح ہے،پس ہم جتنا بھی سمجھ کے اور دھیان کے ساتھ اس کلمہ کو پڑھیں گے یقیناً اتنا ہی ہمارا ایمان تازہ اور ہمارا عہد پختہ ہوگااور انشاء اللہ لاَاِلٰہ اِلاَّ اللہُ پھرہمارا عمل اور ہمارا حال ہوجائے گا۔ پس بھائیو!طے کرلو کہ حضورﷺ کے حکم اور ارشاد کے مطابق ہم اس کلمہ کو دھیان کے ساتھ اور سچے دل سے کثرت کے ساتھ پڑھاکریں گے تاکہ ہمارا ایمان تازہ ہوتا رہےاور ہماری پوری زندگی لاَاِلٰہ اِلاَّ اللہُ کےسانچے میں ڈھل جائے۔ یہاں تک کلمہ شریف کے صرف پہلے جز لاَاِلٰہ اِلاَّ اللہُ کا بیان ہوا۔ ہمارے کلمہ کا دوسرا جزہے "مُحَمَّدٌرَّسُوْلُ اللہ" اس میں حضرت محمدﷺ کے رسول ِخدا ہونے کا اقرار اور اعلان ہے،حضورﷺ کے رسول ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو دنیا کی ہدایت کے لیے بھیجا تھا اور آپ نے جو کچھ بتلایا اور جو خبریں دیں وہ سب صحیح اور بالکل حق ہیں،مثلاًقرآن مجیدکاخداکی طرف سے ہونا،فرشتوں کا ہونا،قیامت کاآنا،قیامت کےبعد مردوں کا پھر سے زندہ کیاجانااوراپنےاپنے اعمال کے مطابق جنت یا دوزخ میں جانا وغیرہ وغیرہ۔ الغرض حضورؐﷺ کے رسول خدا ہونے کا مطلب یہی ہے کہ آپ نے جو باتیں اس طرح کی دنیا کو بتلائی ہیں وہ خدا کی طرف سے خاص اور یقینی علم حاصل کرکے بتلائی ہیں اور وہ سب بالکل حق اور صحیح ہیں جن میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں اور اسی طرح آپ نے لوگوں کو جو ہدایتیں کیں اور جو احکام دیئے وہ سب دراصل خدا کی ہدایات اور خدائی احکام ہیں جو آپ پر وحی کئے گئے تھے، اسی سے آپ نے سمجھ لیا ہوگا کہ کسی کو رسول ماننے سے خود بخود ہی یہ لازم آجاتا ہے کہ اس کی ہر ہدایت اور ہرحکم کو مانا جائے،کیونکہ اللہ تعالی کسی کو اپنا رسول اسی واسطے بناتا ہے کہ اس کے ذریعہ اپنے بندوں کو وہ احکام بھیجے جن پر وہ بندوں کو چلانا چاہتا ہے،قرآن شریف میں فرمایا گیا ہے: "وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِـاِذْنِ اللہِ "۔ (النساء:۶۴) اورہم نے ہر رسول کو اسی لیے بھیجا کہ ہمارے فرمان سے اس کی اطاعت کی جائے یعنی اس کے حکموں کومانا جائے۔ الغرض رسول پر ایمان لانے اور اسکو رسول ماننے کا مقصد ومطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ اس کی ہربات کو بالکل حق مانا جائے ،اس کی تعلیم وہدایت کو خدا کی تعلیم وہدایت سمجھا جائے اور اس کے حکموں پر چلنے کا فیصلہ کرلیا جائے ؛پس اگر کوئی شخص کلمہ تو پڑھتا ہو مگر اپنے متعلق اس نے یہ طے نہ کیا ہوکہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بتلائی ہوئی ہر بات کو بالکل حق اور اسکے خلاف تمام باتوں کو غلط جانوں گا اور ان کی شریعت اور ان کے حکموں پر چلوں گا،تو وہ آدمی دراصل مؤمن اور مسلمان ہی نہیں ہے اور شاید اس نے مسلمان ہونے کا مطلب ہی نہیں سمجھا ہے۔ کھلی ہوئی بات ہے کہ جب ہم نے کلمہ پڑھ کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خداکابرحق رسول مان لیا تو ہمارے لیے ضروری ہوگیا کہ اُن کے حکموں پر چلیں اور ان کی سب باتیں مانیں اور ان کی لائی ہوئی شریعت پر پورا عمل کریں۔ کلمہ شریف دراصل ایک عہداور اقرارہے کلمہ شریف کے دونوں جز(لاَاِلٰہ اِلاَّ اللہُ ،مُحَمَّدٌرَّسُوْلُ اللہ)کے مطلب کی جو تشریح اور وضاحت اوپر کی گئی ہے اس سے آپ نے سمجھ لیا ہوگا کہ یہ کلمہ دراصل ایک اقرار نامہ اور عہد نامہ ہے اس بات کا کہ میں صرف اللہ تعالیٰ کو خدائے برحق اور معبودومالک مانتا ہوں اور دنیاوآخرت کی ہر چیز کو صرف اسی کے قبضہ واختیار میں سمجھتا ہوں،لہذا میں اس کی اور صرف اسی کی عبادت اور بندگی کروں گااور بندہ کو جس طرح اپنے مولاوآقاکے حکموں پر چلنا چاہئے اسی طرح میں اس کے حکموں پر چلوں گا اور ہر چیز سے زیادہ میں اس سے محبت اور تعلق رکھوں گااورحضرت محمدﷺ کو میں خدا کا برحق رسول تسلیم کرتا ہوں؛اب میں امتی کی طرح اُن کی اطاعت وپیروی کروں گا اور ان کی لائی ہوئی شریعت پر عمل کرتا رہوں گا،دراصل اسی عہدواقرارکا نام ایمان ہے اور توحید ورسالت کی شہادت دینے کا بھی یہی مقصدومطلب ہے؛ لہٰذا کلمہ پڑھنے والے ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنے کو اس عہد و شہادت کا پابند سمجھے اور اس کی زندگی اسی اصول کے مطابق گزرے تاکہ وہ اللہ کے نزدیک ایک سچا مومن ومسلم ہواور نجات وجنت کا حقدار ہو۔ ایسے خوش نصیبوں کے لیے بڑی بشارتیں آئی ہیں جو کلمہ شریف کے ان دونوں جز (توحیدورسالت) کو سچے دل سے قبول کریں اور دل وزبان اور عمل سے اس کی شہادت دیں۔ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو کوئی لاَاِلٰہ اِلاَّ اللہُ مُحَمَّدٌرَّسُوْلُ اللہ کی شہادت دے تو اللہ تعالی نے دوزخ کی آگ ایسے شخص پر حرام کردی ہے"۔ (مسلم،باب الدلیل علی ان من مات علی التوحید،حدیث نمبر۴۲، شاملہ،موقع الإسلام) بھائیو! لاَاِلٰہ اِلاَّ اللہُ ،مُحَمَّدٌرَّسُوْلُ اللہ کی حقیقت اور اس کے وزن کو خوب سمجھ کے دل وزبان سے اس کی شہادت دو اور فیصلہ کرلوکہ اپنی زندگی اس شہادت کے مطابق گزاریں گے تاکہ ہماری شہادت جھوٹی نہ ٹھہرے، کیونکہ اس شہادت ہی پر ہمارے ایمان واسلام کا اور ہماری نجات کا دارومدارہے پس چاہئے کہ: لاَاِلٰہ اِلاَّ اللہُ ،مُحَمَّدٌرَّسُوْلُ اللہ ہمارا پکا اعتقاد وایمان ہو۔ لاَاِلٰہ اِلاَّ اللہُ ،مُحَمَّدٌرَّسُوْلُ اللہ ہمارا اقرارواعلان ہو۔ لاَاِلٰہ اِلاَّ اللہُ ،مُحَمَّدٌرَّسُوْلُ اللہ ہماری زندگی کا اصول اور پوری دنیا کے لیے