انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** ۷۰۔مسعر بن کدامؒ نام ونسب مسعود نام، ابو سلمہ کنیت، نسب نامہ یہ ہے مسعر بن کدام بن ظہیر بن عبید اللہ بن حارث ابن عبداللہ بن عمرو بن مناف بن ہلال بن عامر بن صعصعہ قرشی عامری۔ فضل وکمال مسعر علمی اورمذہبی دونوں کمالات کے اعتبار سے ممتاز ترین تابعین میں تھے،یعلی بن مرہ کا بیان ہے کہ مسعر کی ذات علم اورورع دونوں کی جامع تھی (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۷۰)عراق میں ان کے پایہ کے علماء کم تھے ہشام بن عروہ کا بیان ہے کہ عراقیوں میں مسعر اورایوب سے افضل ہمارے یہاں کوئی نہیں آیا (تہذیب التہذیب:۱۰/۱۱۴) امام نووی لکھتے ہیں کہ ان کی جلالت پر سب کا اتفاق ہے۔ (تہذیب الاسماء،ج۱،ق اول،ص۸۹) حدیث حدیث کے وہ اکابر حفاظ میں تھے، امام ذہبی انہیں حافظ اورعلمائے اعلام میں لکھتے ہیں ان کے حافظہ میں ایک ہزار حدیثیں محفوظ تھیں۔ (ایضاً) حدیث میں انہوں نے عمرو بن سعید نخعی،ابو اسحٰق سبیعی، عطاء، سعید بن ابراہیم ثابت ابن عبید اللہ انصاری، عبدالملک بن نمیر، ہلال بن خباب ، حبیب بن ابی ثابت ،علقمہ بن مرثد قتادہ معن بن عبدالرحمن مقدام بن شریح اور اعمش وغیرہ ایک کثیر جماعت سے استفادہ کیا تھا۔ (تہذیب التہذیب:۱۰/۱۳ وتہذیب الاسماء) ان کی مرویات کا پایہ ان کی روایات کی صحت کے لیے یہ کافی ہے کہ شعبہ کے پایہ کے محدث انہیں مصحف کہتے تھے(تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۷۰) ان کی ذات ہی احادیث کی جانچ کے لیے معیار تھی؛چنانچہ ،میزان ان کا لقب ہوگیا تھا۔ (تہذیب :۱/۱۴) کم ایسے محدثین نکلیں گے جن کی مرویات پر کسی نہ کسی حیثیت سے تنقید نہ کی گئی ہو ؛لیکن مسعر کی ذات اس سے مستثنیٰ تھی۔ (تہذیب التہذیب:۱۰/۱۱۴) آئمہ حدیث شک واختلاف کے موقع پر ان کی طرف رجوع کرتے تھے،سفیان ثوری کا بیان ہے کہ جب ہم لوگوں میں (حدیث کی ) کسی چیز کے بارہ میں اختلاف ہوتا تھا، تو مسعر سے پوچھتے تھے (تہذیب الاسماء:۱/۸۹)ابراہیم بن سعد کہتے تھے کہ جب سفیان اور شعبہ میں کسی کے بارہ میں اختلاف ہوتا تھا تو میزان مسعر کے پاس جاتے تھے۔ (تذکرۃ الحفاظ :۱/۱۷۰) احتیاط اس محدثانہ کمال کے با وجود وہ روایت حدیث میں بڑے محتاط تھے،اس ذمہ داری سے وہ اس قدر گھبراتے تھے کہ فرماتے تھے کہ کاش! حدیثیں میرے سر پر شیشوں کا بار ہوتیں کہ گر کر چور چورہوجاتیں،ان کی احتیاط شک کے درجہ تک پہنچ گئی تھی،ابو نعیم کا بیان ہے کہ مسعر اپنی احادیث میں بڑے شکی تھے،لیکن وہ کوئی غلطی نہ کرتے تھے،اعمش کہا کرتے تھے کہ مسعر کا شیطان ان کو کمزور کرکے شک دلاتا رہتا ہے۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۶۹) ان کے اس شک نے ان کی احادیث کا درجہ اتنا بلند کردیا تھا کہ محدثین ان کے شک کو یقین کا درجہ دیتے تھے، اعمش سے بعض لوگوں نے کہا کہ مسعر اپنی حدیثوں میں شک کرتے ہیں،انہوں نے کہا ان کا شک اوروں کے یقین کے برابر ہے۔ (اعلام الموقعین:۲۸) فقہ فقہ میں اگرچہ کوئی قابلِ ذکر شخصیت نہ تھی،تاہم کوفہ کی صاحبِ افتا جماعت میں تھی ۔ حلقہ درس مسجد میں حلقہ درس تھا،عبادت کے معمولات کے بعد روزانہ مسجد میں بیٹھ جاتے تھے اور شائقین حدیث اردگرد حلقہ باندھ کر استفادہ کرتے تھے۔ (ابن سعد:۶/۲۵۳) زہد وعبادت ان کی ماں بڑی عابدہ تھیں، ان کے فیضِ تربیت کا مسعر پر بڑا گہرا اثر پڑا تھا،ان کی ماں بھی مسجد میں نماز پڑھتی تھیں، اکثر دونوں ماں بیٹے ایک ساتھ مسجد میں جاتے،مسعر نمدہ لیے ہوتے تھے،مسجد پہنچ کر ماں کے لیے نمدہ بچھا دیتے ،جس پر کھڑی ہوکر وہ نماز پڑھتیں مسعر علیحدہ مسجد کے اگلے حصہ میں نماز میں مشغول ہوجاتے تھے، نماز تمام کرنے کے بعد ایک مقام پر بیٹھ جاتے اور شائقین حدیث آکر جمع ہوجاتے،نماز تمام کرنے کے بعد ایک مقام پر بیٹھ جاتے اور شائقینِ حدیث آکر جمع ہوجاتے،مسعر انہیں حدیثیں سناتے،اس درمیان میں ان کی ماں عبادت سے فارغ ہوتیں، مسعر درس سے فارغ ہونے کے بعد ماں کا نمدہ اٹھاتے اوران کے ساتھ گھر واپس آتے (ایضاً:۲۵۴)ان کے صرف دو ٹھکانے تھے گھر یا مسجد،کثرتِ عبادت سے پیشانی پر اونٹ کے گھٹنے کی طرح نہایت موٹا گھٹا پڑ گیا تھا۔ (تذکرہ الحفاظ:۱/۱۷۰) روزانہ نصف قرآن کی تلاوت کرتے تھے ،ان کے صاحبزادے محمد کا بیان ہے کہ والد آدھا قرآن ختم کیےبغیرنہ سوتے تھے (ایضاً:۱۷۰) وہ کسی درجہ پر پہنچ کر رکے نہیں اوران کے روحانی مدارج ہمیشہ ترقی پذیر رہے، ابن عینیہ کا بیان ہے کہ میں نے مسعر کو خیر میں ہر روز ترقی کرتے دیکھا (ایضاً)معن کا بیان ہے کہ ہم نے ان کو ہر دن سے پہلے دن سے افضل پایا وہ عبادت و ریاضت اور فضائل اخلاق کے اس درجہ پر پہنچ گئے کہ لوگ اس کے جنتی ہونے میں کوئی شک نہ کرتے تھے،حسن بن عمارہ کہا کرتے تھے کہ اگر مسعر جیسے آدمی بھی جنت میں داخل نہ ہوں گے تب تو جنتیوں کی تعداد بہت ہی کم ہوگی۔ (ایضاً:۱۶۹) ابن مبارک یا کسی اوپر اوراسی درجہ کے کسی بزرگ ان کے فضائل سے متاثر ہوکر ان کی شان میں یہ اشعار کہے تھے۔ من کان ملتمسا جلیسا صلحا فلیات حلقۃ مسعوبن کدام جس شخص کو اچھے جلیس کی تلاش ہو اس کو مسعر بن کدام کے حلقہ میں آجانا چاہیے فیھا السکینۃ والوقاروا علھا اھد العفاف وعلیہ الا قوام اس میں سکینہ ہے اور وقار ہے اوراس کے ارکان پاکباز اوراونچے درجے کے ہیں۔ دولت دنیا سے بے نیازی دنیا اوراس کے شان وشکوہ سے بالکل بے نیاز تھے؛چنانچہ حکومت کے عہدوں کو وہ آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھتے تھے، ابو جعفر عباسی آپ کا عزیز تھا اس نے ان کو کسی مقام کا والی بنا نا چاہا، انہوں نے کہا میرے گھر والے تو مجھے دو درہم سود الانے کے لائق بھی نہیں سمجھتے اورکہتے ہیں ہم تمہارا دودرہم کا سودا کرنا بھی نہیں پسند کرتے، اور تم مجھے والی بنانا چاہتے ہو، خدا تم کو صلاحیت دے،ہماری قرابت داری ہے،اس لیے ہمارا حق ہے (کہ ہم بھی کچھ کہہ سکیں) ان کے اس عذر پر ابو جعفر نے ان کو اس خدمت سے معاف کردیا۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۷۰) خوش اخلاق نہایت خوش اخلاق تھے، دوسروں کے جذبات کا بڑا لحاظ رکھتے تھے،جب کبھی انہیں کوئی ایسی حدیث سناتا جس سے وہ خود اس شخص سے زیادہ واقف ہوتے، تو وہ محض اس کی دل شکنی اوراحترامِ حدیث کے خیال سے انجان بن کر نہایت خاموشی سے سنتے تھے۔ (ابن سعد:۶/۲۵۳) وفات باختلافِ روایت ۱۵۲،یا ۱۵۵ ھ میں کوفہ میں وفات پائی۔ (ایضا)