انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** نجران کے عیسائیوں کی جلاوطنی فاروق اعظمؓ نے یعلی بن اُمیہؓ کو حکم دیا کہ ملکِ یمن کی طرف جاکر نجران کے عیسائیوں سے کہہ دو کہ تم اس ملک کوچھوڑدو،ہم تم کو حدودِ عرب سے باہر ملک شام میں تمہاری ان زمینوں سے زیادہ زرخیز زمینیں اور ان زمینوں سے زیادہ وسیع زمینیں دیتے ہیں، اور تم کو کسی مالی وجسمانی محنت ونقصان میں مبتلا کرنا نہیں چاہتے ،ملکِ عرب اب صرف مسلمانوں کے لئے رہے گا،غیر مسلم ہونے کی حالت میں تمہارا قیام یہاں ممکن نہیں۔ بعض کوتاہِ فہم لوگ نجران کے نصرانیوں کی اس جلا وطنی کو ناجائز فعل قرار دے کر معترض ہوا کرتے ہیں لیکن وہ بات بھول جاتےہیں؛بلکہ مدینہ کےیہودیوں نے بھی مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں رومیوں کو مسلمانوں پر حملہ آور ہونے کی ترغیب دینے میں خاص طور پر کوشش کی تھی اوراب نجران کے عیسائی بھی مسلمانوں کے بیچ رہ کر رومی سلطنت کے لئے جو برسر پرخاش تھی جاسوسی اورہر قسم کی مخالف اسلام سازشوں کے کامیاب بنانے میں مصروف تھے،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ملکِ عرب کے عیسائیوں اوریہودیوں کی سود خوری اورمخالف اسلام سازشی کار روائیوں سے واقف تھے،آپ مسلمانوں کو یہودیوں اورعیسائیوں کی ہمسائیگی سے اس لئے بچانا چاہتے تھے کہ اُن کی یہ بد عادات کہیں مسلمانوں میں سرایت نہ کرجائیں،اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران کے عیسائیوں سے جو عہد نامہ کیا تھا، اس میں ایک یہ شرط بھی تھی کہ عیسائی سود خوری کی عادت ترک کردیں گے اور اسی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت فرمائی تھی کہ ملک عرب میں یہودی اور عیسائی نہ رہنے پائیں، نجران کے نصرانیوں نے ہر قل کے ساتھ ہمدردانہ طرز عمل اختیار کرکے اور سود خوری کو ترک نہ کرکے اپنے آپ کو خود ہی اس سلوک کا مستحق بنالیا تھا کہ اُن کو ملک عرب سے جلا وطن کردیا جائے آج کل بھی ہم یہودیوں کی جلا وطنیوں کا حال اخبارات میں پڑھا کرتے ہیں ،جو اُن کو یورپ کے متمدن ملکوں سے جبریہ اختیار کرنی اوراپنی جائدادیں حسرت کے ساتھ چھوڑنی پڑتی ہیں،ان جلاوطنیوں کے مقابلے میں نجران کے نصرانیوں کی جلا وطنی تو ایک رحمت تھی نہ کہ مصیبت۔