انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** (۳)امام سفیان الثوریؒ (۱۶۱ھ) آپؒ کوفہ کے رہنے والے تھے، کوفہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اور حضرت علیؓ کی آمد کے باعث علم کا گہوارہ بنا ہوا تھا؛ گوحضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے مسندنشین حضرت امام ابوحنیفہؒ ہوئے؛ مگراس میں شک نہیں کہ اختلافِ ائمہ میں اہلِ کوفہ کے الفاظ ان کوبھی شامل سمجھے جاتے ہیں، صاحبِ مشکوٰۃ فرماتے ہیں: "سفیان الثوری امام فی الحدیث، ولیس بامام فی السنۃ والاوزاعی امام فی السنۃ ولیس بامام فی الحدیث ومالک بن انسؓ امام فی جمیعہا" (الاکمال:۶۲۸) آپؒ نے ایک مجموعہ حدیث بھی مرتب فرمایا تھا جس کا نام جامع سفیان ثوری تھا، یہ مجموعہ آپ نے کوفہ میں تحریر کیا تھا، فتح الباری وغیرہ میں جامع سفیان الثوری کا ذکر کئی جگہ ملتا ہے۔ (دیکھئے: فتح الباری، کتاب الجہاد:۶/۵۳، اب یہ کتاب شائع بھی ہوچکی ہے) "عن ثابت الزاہد قال کان اذااشکل علی الثوری مسئلۃ قال مایحسن جوابھا الامن حسدناہ ثم یسأل عن اصحابہ ویقول ماقال فیہ صاحبکم فیحفظ الجواب ثم یفتیٰ بہ"۔ (کتاب المناقب للموفق:۱/۲۶۸) ترجمہ:ثابت زاہدؒ جوکہ امام سفیان ثوریؒ کے تلامذہ اور امام بخاریؒ اور امام ترمذیؒ کے اساتذہ میں ہیں، کہتے ہیں کہ جب امام سفیان ثوریؒ کوکسی مسئلہ میں کوئی اشکال پیش آتا توفرماتے کہ اس کا جواب بہتر طور پر وہی دے سکتا ہے جس پر ہم لوگ (یعنی تم لوگ) حسد کرتے ہیں یعنی امام ابوحنیفہؒ؛ پھرامام ابوحنیفہؒ کے تلامذہ سے پوچھتے کہ بتلاؤ تمہارے استاد اس بارے میں کیا فرماتے ہیں اور پھر اس کو یاد رکھتے اور اسی کے مطابق فتوےٰ دیتے تھے۔ اِس سے بھی یہی معلوم ہوا کہ حدیث کا عالم فقط وہی نہیں جسے حدیث کے الفاظ زیادہ یاد ہوں؛ بلکہ حدیث کا اصل عالم اور امام وہی ہے، جوحدیث کے معانی اور اس کے حقائق ودقائق کوبخوبی سمجھتا ہو اور حدیث کی حفاظت وخدمت کا جذبہ رکھتا ہو، امام ابوحنیفہؒ حدیث کے اِس قدر قائل تھے کہ حدیث ضعیف کوبھی قیاس پر مقدم رکھتے "الحدیث الضعیف احب الی من رای الرجال" (شرح سنن ابوداؤد، عبدالمحسن العباد:۱۸/۱۶۳، شاملہ،القسم: شروح الحدیث) اِن کا مشہور قول ہے کوفہ کے محدثین حدیث کے بغیر فقیہ بننا جرم سمجھتے تھے: "وکان سفیان الثوری وابنِ عیینہ وعبداللہ بن سنان یقولون لوکان احدنا قاضیاً لضربنا بالجرید فقیہاً لایتعلم الحدیث ومحدثا لایتعلم الفقہ" (لواقح الانوار:۳۶) ترجمہ: سفیان ثوریؒ اور سفیان بن عیینہؒ اور عبداللہ بن سنان کہا کرتے تھے کہ اگر ہم میں سے کوئی قاضی ہوجائے تودوشخصوں کوضرور کوڑے لگائیں، ایک وہ کہ جو فقہ سیکھتا ہو اور حدیث کا علم حاصل نہ کرتا ہو اور ایک وہ جو حدیث پڑھتا ہو اور فقہ حاصل نہ کرتا ہو۔ علامہ ذہبیؒ نے امام ثوریؒ کوالامام، شیخ الاسلام، سیدالحفاظ اور الفقیہ لکھا ہے (تذکرہ:۱/۱۹۰) امام شعبہؒ وابنِ معینؒ اور ایک کثیر تعداد کہتی ہے کہ سفیانؒ فن حدیث میں امیرالمؤمنین تھے، ابنِ مبارکؒ نے کہا کہ میں نے گیارہ سو شیوخ سے احادیث کی سماعت کی ہے، جن میں سفیان ثوریؒ سے افضل کسی کو نہ پایا، امام اوزاعیؒ فرماتے ہیں کہ اس سرزمین پر کوئی بھی ایسا نہیں رہا کہ جس پر تمام امت متفق ہو؛ ہاں مگر حضرت سفیان ثوریؒ ایسے ضرور تھے (تذکرہ:۱/۱۹۱) حافظ ابنِ کثیرؒ فرماتے ہیں کہ سفیان ثوریؒ احدائمہ الاسلام اور عابد ومقتدی اور احدالتابعین تھے (البدایہ والنہایہ:۱۰/۱۳۴) علامہ خطیب رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ وہ ائمہ مسلمین میں سے تھے اور بڑے امام اور دین کے بہت بڑے عالم تھے، سب کا ان کی امامت پر اتفاق ہے۔ (بغدادی:۹/۱۵۲۔ تہذیب التہذیب:۴/۱۱۴) امام سیوطیؒ لکھتے ہیں: آپ کے مقلد پانچویں صدی کے بعد تک پائے جاتے رہے ہیں۔ (تدریب الراوی:۳۶۰)