انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نام ونسب حفصہ رضی اللہ عنہ نام، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی تھیں، سلسلۂ نسب یہ ہے (حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہ ابن خطاب بن نفیل بن عبدالعزیٰ بن رباع بن عبداللہ بن قرط بن رزاح بن عدی بن لوی بن فہر بن مالک) والدہ کا نام زینب رضی اللہ عنہا بنت مظعون تھا، جومشہور صحابی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بن مظعون رضی اللہ عنہ کی ہمشیرتھیں اور خود بھی صحابیہ تھیں، حضرت حفصہ رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ حقیقی بھائی بہن ہیں، حضرت حفصہ رضی اللہ عنہ بعثتِ نبوی سے پانچ سال قبل پیدا ہوئیں اس وقت قریش خانہ کعبہ کی تعمیر میں مصروف تھے۔ نکاح پہلا نکاح خنیس بن حذافہ سے ہوا، جوخاندان بنوسہم سے تھے۔ اسلام ماں، باپ اور شوہر کے ساتھ مسلمان ہوئیں۔ ہجرت اور نکاح ثانی شوہر کے ساتھ مدینہ کوہجرت کی، غزوۂ بدر میں خنیس رضی اللہ عنہ نے زخم کھائے اور واپس آکر ان ہی زخموں کی وجہ سے شہادت پائی، عدت کے بعد حضرت عمر رضی اللہ کو حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کی فکر ہوئی؛ اسی زمانہ میں حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوچکا تھا، اس بناپر حضرت عمررضی اللہ عنہ سب سے پہلے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے ملے اور ان سے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کی خواہش کی؛ انہوں نے کہا میں اس پرغور کرونگا، چند دنوں کے بعد ملاقات ہوئی توصاف انکار کیا، حضرت عمررضی اللہ عنہ نے مایوس ہوکر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ذکر کیا انہوں نے خاموشی اختیار کی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کوان کی بے التفاتی سے رنج ہوا، اس کے بعد خود رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کی خواہش کی، نکاح ہوگیا توحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ملے اور کہا کہ جب تم نے مجھ سے حفصہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کی خواہش کی اور میں خاموش رہا توتم کوناگوار گذرا؛ لیکن میں نے اسی بناپرکچھ جواب نہیں دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا ذکر کیا تھا اور میں ان کاراز فاش کرنا نہیں چاہتا تھا؛ اگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ان سے نکاح کا قصد نہ ہوتا تومیں اس کے لیے آمادہ تھا۔ (بخاری:۲/۵۷۱۔ اصابہ:۸/۵۱) وفات حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے شعبان سنہ۴۵ھ میں مدینہ میں انتقال کیا، یہ امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت کا زمانہ تھا، مروان نے جواس وقت مدینہ کا گورنرتھا، نمازِ جنازہ پڑھائی اور کچھ دور تک جنازہ کوکاندھا دیا، اس کے بعد حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ جنازہ کوقبر تک لے گئے ان کے بھائی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور ان کے لڑکوں عاصم، سالم، عبداللہ، حمزہ نے قبر میں اُتارا۔ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے سنہ وفات میں اختلاف ہے، ایک روایت ہے کہ جمادی الاول سنہ۴۱ھ میں وفات پائی، اس وقت ان کا سن ۵۹/سال کا تھا؛ لیکن اگرسنہ وفات سنہ۴۵ھ قرار دیا جائے توان کی عمر ۶۳/سال کی ہوگی، ایک روایت ہے کہ انہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت میں سنہ۲۷ھ میں انتقال کیا،یہ روایت اس بناپر پیدا ہوگئی کہ وہب نے ابن مالک سے روایت کی ہے کہ جس سال افریقہ فتح ہوا حضرت حفصہ نےاسی سال وفات پائی اور افریقہ حضرت عثمانؓ کی خلافت ۲۷ھ میں فتح ہوا؛ لیکن یہ سخت غلطی ہے، افریقہ دومرتبہ فتح ہوا، اس دوسری فتح کا فخر معاویہ رضی اللہ عنہ بن خدیج کوحاصل ہے، جنہوں نے امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے عہد میں حملہ کیا تھا۔ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے وفات کے وقت حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کوبلاکر وصیت کی اور غابہ میں جوجائداد تھی جسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ اُن کی نگرانی میں دے گئے تھے، اس کوصدقہ کرکے وقف کردیا۔ (زرقانی:۳/۲۷۱) اولاد کوئی اولاد نہیں چھوڑی۔ فضل وکمال البتہ معنوی یادگاریں بہت سی ہیں اور وہ یہ ہیں، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ، حمزہ رضی اللہ عنہ (ابن عبداللہ) صفیہ بنت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہا (زوجہ عبداللہ) حارثہ بن وہب، مطلب بن ابی وادعہ، ام مبصر انصاریہ، عبداللہ بن صفوان بن امیہ، عبدالرحمن بن حارث بن ہشام۔ (زرقانی:۳/۲۷۱) حضرت حفصہ رضی اللہ عنہ سے ۶۰/حدیثیں منقول ہیں۔ (زرقانی:۳/۲۷۱) جوانہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے سنی تھیں۔ تفقہ فی الدین کے لیے واقعہ ذیل کافی ہے، ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ میں امید کرتا ہوں کہ اصحاب بدروحدیبیہ جہنم میں داخل نہ ہوں گے، حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے اعتراض کیا کہ خدا توفرماتا ہے وَإِنْ مِنْكُمْ إِلَّاوَارِدُهَا (مریم:۷۱) ترجمہ: تم میں ہرشخص واردِ جہنم ہوگا آپ نے فرمایا: ہاں! لیکن یہ بھی تو ہے ثُمَّ نُنَجِّي الَّذِينَ اتَّقَوْا وَنَذَرُ الظَّالِمِينَ فِيهَا جِثِيًّا (مریم:۷۲) ترجمہ:پھرہم پرہیزگاروں کونجات دیں گے اور ظالموں کواس میں زانووں پرگراہوا چھوڑ دیں گے۔ (مسندابن حنبل:۶/۲۸۵) اسی شوق کا اثر تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوان کی تعلیم کی فکررہتی تھی، حضرت شفا رضی اللہ عنہ کوچیونٹی کے کاٹے کامنترآتا تھا، ایک دن وہ گھر میں آئیں توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ تم حفصہ رضی اللہ عنہا کومنتر سکھلادو۔ (مسندابن حنبل:۶/۲۸۱) اخلاق ابن سعد میں ان کے اخلاق کے متعلق ہے: فَإِنَّهَا صَوَّامَةٌ قَوَّامَةٌ۔ ترجمہ:انتقال کے وقت تک صائم رہیں۔ (الطبقات الکبریٰ، ابن سعد:۸/۸۴، شاملہ، المؤلف:محمدبن سعد بن منيع أبوعبدالله البصري الزهري، الناشر: دارصادر،بيروت) اختلاف سے سخت نفرت کرتی تھیں، جنگ صفین کے بعد جب تحکیم کا واقعہ پیش آیا توان کے بھائی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اس کوفتنہ سمجھ کرخانہ نشیں رہنا چاہتے تھے؛ لیکن حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ گواس شرکت میں تمہارا کوئی فائدہ نہیں؛ تاہم تمھیں شریک رہنا چاہئے؛ کیونکہ لوگوں کوتمہاری رائے کا انتظار ہوگا اور ممکن ہے کہ تمہاری عزلت گزینی ان میں اختلاف پیدا کردے۔ (بخاری:۲/۵۸۹) دجّال سے بہت ڈرتی تھیں، مدینہ میں ابن صیاد نامی ایک شخص تھا، دجال کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جوعلامتیں بتائی تھیں، اس میں بہت سی موجود تھیں، اس سے اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ایک دن راہ میں ملاقات ہوگئی، انہوں نے اس کوبہت سخت سست کہا، اس پروہ اس قدر پھولا کہ راستہ بند ہوگیا، ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اس کومارنا شروع کیا، حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کوخبر ہوئی توبولیں تم کواس سے کیا غرض؟ تمھیں معلوم نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دجال کے خروج کا محرک اس کا غصہ ہوگا۔ (مسند:۶/۲۸۳۔ مسلم، کتاب الفتن، ذکر ابن صیاد) حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے مزاج میں ذراتیزی تھی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کبھی کبھی دوبدوگفتگو کرتیں اور برابر کا جواب دیتی تھیں؛ چنانچہ صحیح بخاری میں خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ ہم لوگ جاہلیت میں عورتوں کوذرہ برابر بھی وقعت نہ دیتے تھے، اسلام نے ان کودرجہ دیا اور قرآن میں ان کے متعلق آیتیں اُتریں توان کی قدرومنزلت معلوم ہوئی، ایک دن میری بیوی نے کسی معاملہ میں مجھ کورائے دی میں نے کہا، تم کورائے ومشورہ سے کیا واسطہ، بولیں ابن خطاب! تم کوذراسی بات کی بھی برداشت نہیں؛ حالانکہ تمہاری بیٹی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کوبرابر کا جواب دیتی ہے؛ یہاں تک کہ آپ دن بھررنجیدہ رہتے ہیں، میں اٹھا اور حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا میں نے کہا: بیٹی! میں نے سنا ہے تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوبرابر کا جواب دیتی ہو؟ بولیں: ہاں! ہم ایسا کرتے ہیں، میں نے کہا: خبردار! میں تمھیں عذاب الہٰی سے ڈراتا ہوں (تم اس عورت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا) کی ریسں نہ کرو جس کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی وجہ سے اپنے حسن پرناز ہے۔ (بخاری، کتاب التفسیر وفتح الباری:۸/۵۰۴) ترمذی میں ہے کہ ایک دفعہ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا رورہی تھیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور رونے کی وجہ پوچھی؛ انہوں نے کہا کہ مجھ کوحفصہ رضی اللہ عنہانے کہا ہے کہ تم یہودی کی بیٹی ہو، آپ نے فرمایا: حفصہ! خدا سے ڈرو؛ پھرحضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے ارشاد ہوا، تم نبی کی بیٹی ہو، تمہارا چچا پیغمبر ہے اور پیغمبر کے نکاح میں ہو، حفصہ رضی اللہ عنہا تم پرکس بات میں فخر کرسکتی ہے۔ (ترمذی، باب فضل ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم) ایک بار حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک تم سے زیادہ معزم ہیں، ہم آپ کی بیوی بھی ہیں اور چچازاد بہن بھی، حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کی ناگوار گذرا؛ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی شکایت کی، آپ نے فرمایا: تم نے یہ کیوں نہیں کہا کہ تم مجھ سے زیادہ کیونکر معزز ہوسکتی ہو، میرے شوہر محمدصلی اللہ علیہ وسلم، میرے باپ ہارون علیہ السلام اور میرے چچا موسیٰ علیہ السلام ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ وحضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بیٹی تھیں جوتقریب نبوی میں دوش بدوش ھے، اس بناپر حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی دیگرازواج کے مقابلہ میں باہم ایک تھیں؛ چنانچہ واقعۂ تحریم جوسنہ۹ھ میں پیش آیا؛ اسی قسم کے اتفاق کا نتیجہ تھا، ایک دفعہ کئی دن تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے پاس معمول سے زیادہ بیٹھے، جس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے پاس کہیں سے شہد آگیا تھا؛ انہوں نے آپ کے سامنے پیش کیا، آپ کوشہد بہت مرغوب تھا، آپ نے نوش فرمایا، اس میں وقت مقررہ سے دیرہوگئی، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کورشک ہوا، حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ہمارے اور تمہارے گھر میں آئیں توکہنا چاہئے کہ آپ کے منہ سے مغافیر کی بوآتی ہے (مغافیر کے پھولوں سے شہد کی مکھیاں رس چوستی ہیں) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم کھالی کہ میں شہد نہ کھاؤں گا، اس پرقرآن مجید کی یہ آیت اُتری: يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَاأَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضَاتَ أَزْوَاجِكَ۔ (التحریم:۱) ترجمہ: اے پیغمبر! اپنی بیویوں کی خوشی کے لیے تم خدا کی حلال کی ہوئی چیز کوحرام کیوں کرتے ہو؟ ۔ (مغافیرکی بوکا اظہار کرنا کوئی جھوٹ بات نہ تھی، مغافیر کے پھولوں میں اگرکسی قسم کی کرختگی ہوتوتعجب کی بات نہیں) کبھی کبھی (حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا میں) باہم رشک ورقابت کا اظہار بھی ہوجایا کرتا تھا، ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا دونوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم راتوں کوحضرت عائشہ کے اونٹ پرچلتے تھے اور اُن سے باتیں کرتے تھے، ایک دن حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہا کہ آج رات کوتم میرے اونٹ پراور میں تمہارے اونٹ پرسوار ہوں؛ تاکہ مختلف مناظر دیکھنے میں آئیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا راضی ہوگئیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اونٹ کے پاس آئے جس پرحفصہ رضی اللہ عنہا سوار تھیں جب منزل پرپہنچے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ کونہیں پایا تواپنے پاؤں کواذخر (ایک گھاس ہے) کے درمیان لٹکاکر کہنے لگیں، خداوند! کسی بچھو یاسانپ کومتعین کرجومجھے ڈس جائے۔ (صحیح بخاری۔ سیرۃ النبی، جلد دوم)