انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** سلطان ابو عبداللہ زغل سلطان ابو عبداللہ زغل نے تخت نشین ہوکر ملک کا بندوبست شروع کیا،مگر عیسائیوں کے ایک عظیم الشان لشکر نے صوبہ مالقہ پر حملہ کیا اورجو قلعے غیر محفوظ اور بے انتظام تھے ان پر بآسانی قابض ہوگئے آخر قلعہ بقوان کا محاصرہ کیا اوراپنی شدید گولہ باری سے قلعہ کی ایک دیوار گرادی، مسلمانوں نے جو بہت تھوڑی تعداد میں قلعہ کے اندر محصور تھے بڑی ہمت اوربہادری کے ساتھ مقابلہ کیا عیسائیوں کی ایک عظیم الشان تعداد کو کاٹ کر رکھ دیا،آخر ایک ایک کرکے سب شہید ہوئے اوریہ قلعہ عیسائیوں کے قبضے میں چلا گیا،ماہ جمادی الاول ۸۹۰ھ میں قلعہ مندہ کو فوج سے خالی پاکر عیسائیوں نے قبضہ میں لے لیا،۱۹ ماہ شعبان ۸۹۰ھ کو سلطان زغل غرناطہ سے سرحدی انتظام کے لئے روانہ ہوا، ابھی یہ غرناطہ کے متصل قلعہ مثلین کے انتظام میں مصروف اورقلعہ سے باہر ایک میدان میں خیمہ زن تھا کہ عیسائیوں کے ایک لشکر عظیم نے بالکل غیر مترقبہ طور پر حملہ کیاور یکایک آکر مسلمانوں کو قتل کرنا شروع کردیا؛چونکہ اس حملہ کا وہم وگمان بھی نہ تھا اس لئے مسلمانوں کی جمعیت میں سخت پریشانی ہوئی، عیسائیوں نے قتل کرتے ہوئے بڑھنا شروع کیا اورسلطان زغل کے خیمے کے قریب پہنچ گئے،مسلمانوں نے اپنے سلطان کو خطرے کی حالت میں دیکھ کر اپنے آپ کو سنبھالا اورپوری ہمت کے ساتھ عیسائیوں پر حملہ آور ہوئے،بہت جلد لڑائی کا نقشہ بدل دیا پورا توپ خانہ جو اس کے ساتھ تھا مسلمانوں کے قبضے میں آگیا،ان حملہ آور عیسائیوں کے پیچھےبادشاہ فروی نند خود بھی ایک لشکرِ عظیم لئے ہوئے آرہا تھا،ان مفروروں کو راستے میں روک کر حالات معلوم کئے اور آگے بڑھنے کا ارادہ کیا تو اس کو معلوم ہوا کہ سلطان زغل نے انہیں توپوں کو جو عیسائیوں سے چھینی ہیں،قلعہ مثلین پر چڑھا کر اُ س کو خوب مضبوط کرلیا ہے،اورمدافعت کے لئے ہر طرح تیار ہے،یہ سُن کر فردی نند کی ہمت نہ پڑی،واپس چلاگیا اور دوسرے قلعوں کو جو گیر محفوظ تھے،فتح کرتا اوراسلامی مقبوضات کو مختصر اورتنگ کرنے میں مصروف رہا۔ فردی نند کو باوجود کامیابیوں کے اس بات کا کامل یقین ہوگیا کہ مسلمانوں کی حکومت کا استیصال کوئی آسان کام نہیں ہے اوراگرچہ اسلامی ریاست کا رقبہ بہت ہی محدود ومختصر رہ گیا ہے تاہم اگر مسلمان متحدومتفق ہوکر شمشیر بکف ہوجائیں گے تو ان کے لئے تمام جزیرہ نمائے اندلس کا فتح کرلینا کچھ دشوار نہ ہوگا، جیسا کہ طارق وموسیٰ کے زمانے میں مٹھی بھر مسلمانوں نے عیسائی سلطنت کو بیخ وبُن سے اُکھیڑ کر پھینک دیا تھا،فردی نند کی اس مآل اندیشی اوردانائی نے اُس کو چند روز کے لئے جنگی سرگرمیوں سے روک دیا اوراُس نے فریب ودغاسے کام لینا مناسب سمجھا اُس کے پاس ابو عبداللہ محمد بن ابوالحسن جو جنگ نوشینہ میں گرفتار ہوکر آیا تھا موجود تھا۔ اُس نے ابوعبداللہ محمد کو اپنے سامنے بُلواکر بڑی محبت و ہمدردی اوردل سوزی کی باتیں کیں اور کہا کہ سلطنت غرناطہ کے اصل وارث وحق دار تو تم ہو تمہارے چچازغل نے غاصبانہ طور پر قبضہ کررکھا ہے،میری خواہش یہ ہے کہ زغل کو بے دخل کرکے تم خود سلطنت غرناطہ پر قابض ومتصرف ہو،اس کام میں تم کو جس قسم کی ضرورت پیش آئے میں امداد کو موجود ہوں،ی بھی کہا کہ میری عین خواہش یہ ہے کہ میری ہمسایہ اسلامی سلطنت اچھی ھالت میں رہے اورہمارے درمیان کبھی جنگ وپیکار کی نوبت نہ آئے، غرض ابو عبداللہ محمد کو خوب سبز باغ دکھا کر اوریہ وعدہ دے کر جس قدر رعایا اورشہر تیرے قبضے میں آجائیں گے،میں اُن کو ہرگز کسی قسم کا نقصان نہ پہنچاؤں گا،مگر زغل سے مجھ کو کوئی ہمدردی نہیں ہے، ابو عبداللہ محمد فردی نند سے رخصت ہوکر سیدھا مالقہ میں آیا اوریہاں کے لوگوں کو فردی نند کے عہد ومواثیق سے مطلع کرکے اپنی فرماں برداری کی درخواست کی،مالقہ والوں نے یہ سمجھ کر کہ ہم ابو عبداللہ محمد کو اگر اپنا سلطان تسلیم کرلیں گے تو عیسائیوں کے حملوں سے محفوظ ہوجائیں گے، فوراً اس کو اپنا سلطان تسلیم کرلیا اس کے بعد ابو عبداللہ محمد نے اپنے قبضہ کو وسیع کرنا شروع کیا، زغل نے اس بغاوت کے فرو کرنے کی کوشش کی مگر ان عیسائیوں نے جو ابھی تک اسلامی ملک میں آبا اور مقام بیزین میں سب سے زیادہ موجود تھے،ابو عبداللہ کی حمایت واعانت میں سب سے زیادہ حصہ لیا،آخر ایک نہایت اہم مقام لوشہ کو ابو عبداللہ نے اپنے چچازغل سے طلب کیا کہ لوشہ کی حکومت مجھ کوسپرد کردو تو میں آپ کے ساتھ مل کر فردی نند پر حملہ کروں گا،زغل نے اپنی رعایا کے اکثر افراد اور بعض سرداروں کو اس طرف متوجہ دیکھ کر لوشہ عبداللہ کو دے دیا،ادھر ابو عبداللہ نے لوشہ پر قبضہ کیا اُدھر فردی نند نے مع فوج لوشہ کی طرف کوچ کیا،ابو عبداللہ نے فردی نند کا استقبال کیا اور لوشہ پر اُس کا قبضہ کراکر بماہ جمادی الثانی ۸۹۱ھ قلعہ البیرہ، مثلین اورصخرہ کے محاصرہ کو روانہ ہوا، ان قلعوں پر بھی ابو عبداللہ محمد نے عیسائی افواج کی مدد سے قبضہ کرکے فردی نند کو دے دیا اورسلطنت غرناطہ کا ایک بڑا اہم اورقیمتی حصہ جس کا فتح کرنا فردی نند کے لئے بیحد دشوار تھا ابو عبداللہ محمد کی وجہ سے بآسانی قبضہ میں آگیا،کیونکہ رعایا کے اکثر افراد ابو عبداللہ کو اپنا شہزادہ اوروارثِ تخت وتاج سمجھ کر اُس کی مخالفت سے دست کش تھے اور عام طور پر مسلمانوں میں وہ جوش لڑائی کا پیدا ہی نہیں ہوسکتا تھا جو ایک عیسائی حملہ آور کے مقابلے میں پیدا ہونا لازمی تھا، اب ان اہم مقامات کے نکل جانے پر مسلمانوں کی آنکھیں کھلیں اورانہوں نے دیکھا کہ ابو عبداللہ محمد تو عیسائی بادشاہ کا ایجنٹ ہے اوراُس نے شہروں اورقلعوں پر قبضہ کرکے اُن کو بادشاہ قسطلہ کے سپرد کردیا ہے،مقام نبیر ین میں قیام کرکے اہل غرناطہ کو اپنی حمایت پر آمادہ کرنا چاہا، یہاں یہ ریشہ دوانیاں جاری تھیں،اُدھر اہل مالقہ نے سلطان زغل کی فرماں برداری کا ارادہ کرکے عیسائی حکومت کے تمام علامات کو مٹادیا،فردی نند نے ماہ ربیع الثانی ۸۹۶ھ میں بذاتِ خود ایک عظیم الشان فوج کے ساتھ مالقہ پر حملہ کیا اورجنگی جہاز بھی ساحلِ مالقہ پر روانہ کئے،فردی نند کے اس حملہ کی خبر سن کر سلطان زغل غرناطہ سے مالقہ کی طرف مع فوج روانہ ہوا ، اُدھر ۱۵ جمادی الاول ۸۹۶ ھ کو ابو عبداللہ محمد نے موقع پاکر اورغرناطہ کو خالی دیکھ کر اُس پر قبضہ کرلیا،زغل نے جب یہ سُنا کہ غرناطہ پر ابو عبداللہ محمد قابض ہوچکا ہے تو وہ مالقہ کو فردی نند کے محاصرہ میں چھوڑ کر خود غرناطہ کی طرف چلا راستہ میں یہ معلوم کرکے کہ ابو عبداللہ محمد کا غرناطہ پر قبضہ مکمل ہوچکا ہے وادی آش میں ٹھہرگیا،اہلِ مالقہ نے عیسائیوں کے حملوں کو بڑی پامردی اوربہادری کے ساتھ روکا،ساتھ ہی مراقش ،شاہ تونس، شاہِ مصر اورسلطان ترکی کو لکھا کہ اس وقت ہماری مدد کرو اورعیسائیوں کے پنجے سے چُھڑاؤ،مگر کسی نے بھی ان کی مدد کے لئے کوئی فوج نہ بھیجی’’ وَمَا لَهُمْ فِي الْأَرْضِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ‘‘ ہر طرف سے مایوس ہوکر ماہ شعبان ۸۹۲ھ میں مالقہ فروی نند کے حوالہ کردیا،اہلِ مالقہ نے جب اپنی نا اتفاقیوں اورخانہ جنگیوں کی پاداش میں ہر طرف سے مایوس ہوکر فردی نند سے صلح وامن کی درخواست کی تو اُس نے کہلا بھیجا کہ اب تمہارے پاس سامانِ رسد ختم ہوگیا ہے،نیز تم ہر طرف سے مایوس ہوچکے ہو لہذا بلا شرط شہر کی کنجیاں ہمارے پاس سامانِ رسد ختم ہوگیا ہے،نیز تم ہرطرف سے مایوس ہوچکے ہو لہذا بلا شرط شہر کی کنجیاں ہمارے پاس بھیج دو اورہمارے رحم وکرم کے امیدوار ہو،جب فردی نند مالقہ پر قابض ہوا تو اُس نے حُکم دیا کہ ہر ایک مسلمان کو قید کرلو اوران کے تمام اموال وجائداد ضبط کرلئے جائیں ؛چنانچہ پندرہ ہزار مسلمانوں کو تو عیسائیوں نے غلام بنایا،باقی تمام باشندگانِ مالقہ کو بے سروسامانی کے عالم میں وہاں سے نکال کر جلا وطن کردیا، ان میں بہت سے فاقہ اوربے سروسامانی کے سبب ہلاک ہوگئے، بعض ساحلِ افریقہ تک پہنچے اور وہیں آباد ہوئے مالقہ کے بعد فردی نند نے اُس کے بعد اس نے یکے بعد دیگرے ایک ایک شہر اورایک ایک قلعہ کو فتح کرنا اوروہاں سے مسلمانوں کا نام ونشان مٹانا شروع کیا،وادی آش میں پہنچ کر جہاں سلطان زغل مقیم تھا کوشش کی کہ کسی طرح زغل میرا شریک ہوجائے ،ابوعبداللہ محمد جو غرناطہ پر قابض ہوکر اب فردی نند کی پیش قدمی کو ناپسند کرتا اورغرناطہ اوراُس کے نواحی رقبہ کو اپنے تحتِ حکومت رکھنا چاہتا تھا اہلِ غرناطہ کی پامردی سے مقابلہ پر آنے اور عیسائیوں سے جنگ کرنے پر آمادہ ہوگیا تھا، اس حالت میں فردی نند نے زغل کو اپنا دوست بنانے اورغرناطہ کی حکومت دوبارہ دلوانے کا سبز باغ دکھایا اورزغل مجبوراًیا حقیقتاً اپنے رقیب ابو عبداللہ محمد کی تباہی دیکھنے کے شوق میں وادی آش فردی نند کے سپرد کرکے اس کے ساتھ ہولیا،غرض کہ اس عیسائی بادشاہ نے آخر وقت تک بھی مسلمانوں کی تباہی میں مسلمانوں سے امداد لینی ضروری سمجھی،زغل کے شریک ہونے سے فردی نند کا المیریہ پر بآسانی قبضہ ہوگیا،المیریہ اوروادی آش پر قبضہ ہونا گویا اندلس سے مسلمانوں کی حکومت کا نام ونشان گم ہونا تھا، اب صرف شہر غرناطہ اوراس کے مختصر مضافات ہی مسلمانوں کی حکومت کا نام ونشان گُم ہونا تھا، اب صرف شہر غرناطہ اوراس کے مختصر مضافات ہی مسلمانوں کے قبضہ میں رہ گئے،فردی نند نے ماہِ صفر ۸۹۵ھ میں وادی آش اورالمیریہ پر قبضہ کرکے سلطان نرغل کو اپنے ہمراہ لیا تھا، اس وقت سلطان ابو عبداللہ قصر الحمراء میں اپنے چچا زغل کی اس بدانجامی کا حال سُن کر خوش ہورہا تھا کہ اس کے قبضے سے تمام ملک نکل گیا،ابو عبداللہ محمد کو یقین تھا کہ غرناطہ میں اب تنہا میری ہی حکومت قائم رہے گی اورفردی نند غرناطہ کے لینے کی جرأت ہرگز نہ کرے گا،لیکن فردی نند نے ابو عبداللہ کو لکھا کہ جس طرح تمہارے چچا زغل نے اپنا تمام مقبوضہ ملک مجھ کو سپرد کردیا ہے،تم بھی قصر حمراء اورغرناطہ میرے سپرد کردو،اس تحریر کے آنے پر سلطان ابو عبداللہ نے باشندگانِ غرناطہ میں سے بااثر اشخاص کو جمع کرکے فردی نند کے خط کا مضمون سُنا یا اورکہا کہ زغل نے فردی نند کو غرناطہ کے لینے کی ترغیب دی ہے،اب ہمارے لئے دو ہی باتیں باقی ہیں یا تو غرناطہ اورقصر احمراء فردی نند کے سپرد کردیں یا یہ کہ جنگ پر آمادہ ہوجائیں،اہل غرناطہ ابو عبداللہ کی غداریوں اور نالائقیوں سے خوب واقف تھے اورجانتے تھے کہ اسی نے حکومتِ اسلامیہ کے برباد کرنے کے تمام سامان مہیا کئے ہیں،مگر اس حالت میں وہ بجز اس کے اور کسی بات پرمتفق نہیں ہوسکتے تھے کہ عیسائیوں سے جنگ کرنی چاہئے ؛چنانچہ سب نے جنگ کی رائے دی،ابو عبداللہ کی دلی خواہش چاہے کچھ ہو مگر سب کو جنگ پر آمادہ دیکھ کر اُس نے بھی اسی پر اپنی آمادگی ظاہر کی،یہاں یہ مشورے ہورہے تھے،اُدھر فردی نند شاہ قسطلہ اپنی عیسائی فوں کا ٹڈی دل لئے ہوئے آپہنچا اورآتے ہی ماہ رجب ۸۹۵ھ میں غرناطہ کا محاصرہ کرلیا، ادھر شہر والوں نے مدافعت اورمقابلہ پر کمر ہمت چست باندھی،لڑائیوں کا سلسلہ جاری ہوا،عیسائیوں نے غرناطہ کے کئی نواحی قلعوں پر قبضہ کرلیا مگر مسلمانوں نے قدم قدم پر اس بے جگری سے مقابلہ کیا کہ عیسائیوں کے دانت کھٹے کردیئے اور ان قلعوں کو جن پر عیسائیوں نے قبضہ کرلیا تھا واپس لے لیا،فردی نند نے یہ حالت دیکھ کر مناسمجھا کہ غرناطہ کی فتح کو کسی دوسرے وقت پر ملتوی کیا جائے اورزیادہ سازوسامان اورزیادہ سے زیادہ تازہ دم فوج لاکر محاصرہ کیا جائے،چنانچہ وہ محاصرہ اُٹھا کر چلا گیا،سلطان ابو عبداللہ نے اس فرصت کو غنیمت سمجھا اوراہل غرناطہ کو لے کر اُس علاقہ کی طرف بڑھا جو عیسائیوں کے قبضے میں آچکا تھا،بعض قلعوں کو فتح کرکے وہاں کی عیسائی افواج کو تہ تیغ کیا اور مسلمانوں کی فوج وہاں مقرر کی،غرناطہ میں واپس آکر پھر جنگی تیاری کی اورفوج لے کر بشرات کی جانب روانہ ہوا، یہاں کے بعض قصبوں کو اپنے قبضہ میں لایا اورقلعہ اندرش کو فتح کرکے عیسائی جھنڈا وہاں اُتار پھینکا اور اسلام علم نصب کیا ،علاقہ بشرات کے تمام باشندوں نے اطاعت قبول کی اور ازسرنو اس ملک میں اسلامی حکومت جاری ہوئی۔ اتفاقاً بشرات کے کسی گاؤں میں ابو عبداللہ کا چچازغل بھی مقیم تھا،اس نے ابو عبداللہ کو اس طرح کامیاب وفائز المرام دیکھ کر مقابلہ کی تیاری کی اور وہاں سے المیریہ میں جاکر عیسائیوں کو اپنے گرد جمع کیا اورابو عبداللہ کے مقابلہ پر مستعد ہوکر فردی نند کو اطلاع دی کہ ابو عبداللہ اس قدر طاقتور ہوگیا ہے کہ اگر اس کی طرف سے چند روزبے التفاتی اختیار کی گئی تو پھر اُس کا روکنا دُشوار ہوجائے گا،زغل کایہ خیال صحیح تھا،مگر اس نے خود ابو عبداللہ کے مدّ مقابل ہوکر اورلڑائیوں کا سلسلہ جاری کرکے ابو عبداللہ اوراہل غرناطہ کی اُس رفتارِ ترقی کو روک دیا جو چند روز میں فردی نند اور عیسائیوں کے بس کی نہ رہتی،اس موقع پر زغل کو چاہئے تھا کہ وہ اتفاق واتحاد سے کام لیتا اورذاتی رقابتوں کو فراموش کرکے اسلامی مقصد کو فوت نہ ہونے دیتا مگر مسلمانوں کی بد نصیبی نے اُن کو روزِ بددکھایا اوراس خانہ جنگی ونااتفاقی نے مسلمانوں کو کو سنبھلنے نہ دیا؛چنانچہ ماہ رمضان ۸۹۵ھ میں زغل نے عیسائی فوجوں کو فراہم ومتفق کرکے قلعہ اندر ش کو مسلمانوں کے قبضے سے نکال لیا،سلطان ابو عبداللہ نے اسی مہینے اہلِ غرناطہ کی پامردی وجواں ہمتی سے قلعہ ہمدان،منکب،شلوبانیہ کو فتح کرلیا،شلوبانیہ کا قلعہ ابھی فتح نہ ہوا تھا کہ خبر لگی کہ فردی نند بادشاہ قسطلہ مع فوج غزناطہ کے قریب پہنچ گیا ہے یہ سنتے ہی ابو عبداللہ قلعہ شلوبانیہ سے غرناطہ کی طرف متوجہ ہوا اور ۳ شوال ۸۹۵ ھ کو غرناطہ پہنچا،عیسائی لشکر نے برج ملاحہ کو مسمار کردیا تھا،آٹھویں روز انہوں نے غرناطہ کو چھوڑ کر وادی آش کا راستہ لیا اوروہاں پہنچ کر مسلمانوں کو چُن چُن کر قتل کیا، جو باقی رہے ان کو جلا وطن کردیا،ایک شخص بھی قسم کھانے کو وہاں خدا کا نام لینے والا نہ رہا،قلعہ اندرش کو بھی مسمار کرکے زمین کی برابر کردیا اوراس قتل وغارت کے بعد تمام عیسائی لشکر واپس چلا گیا۔ فردی نند نے قسطلہ کی جانب واپس جاتے ہوئے زغل کو(جس نے فردی نند کی حمایت میں ابو عبداللہ کی موثر مخالفت کی تھی) بُلا کر حُکم سُنایا کہ اب آپ کی اس ملک میں کوئی ضرورت نہیں ہے ہم آپ پر صرف اس قدر احسان کرسکتے ہیں کہ اگر آپ ا س ملک یعنی جزیرہ نمائے اندلس سے کہیں باہر جانا چاہیں تو ہم آپ کو جانے دیں گے،زغل یہ حکم سنتے ہی اندلس سے روانہ ہوکر افریقہ پہنچا اورمقام تلمسان میں اپنی زندگی کے دن گم نامی کی حالت میں بسر کردئیے،اس موقع پر فردی نند شاہِ قسطلہ کے عزم واستقلال اوراحتیاط کی ضرورداد دینی پڑتی ہے کہ وہ چونکہ اندلس سے ہمیشہ کے لئے مسلمانوں کا نام ونشان مٹانا چاہتا تھا لہذا اس کے کاموں میں صبر وتامل اورعقل ودانائی زیادہ تھی عجلت وشتاب زدگی سے وہ کوسوں دُور نفور تھا، اس مرتبہ پھر فردی نند کے واپس چلے جانے پر ابو عبداللہ نے برشلونہ کی طرف قدم بڑھایا اورمحاصرہ کے بعد فتح کرلیا، مگر چند ہی روز کے بعد ماہ ذی قعدہ کے آخر ایام میں عیسائیوں نے متفق ہوکر اس شہر کو مسلمانوں کے قبضےسے چھڑالیا اوروہاں کسی مسلمان متنفس کو زندہ باقی نہ چھوڑا،اب اہل غرناطہ اپنی تعداد کی کمی اورکاموں کی کثرت سے تنگ آکر افسردہ ہوگئے تھے،ان کی افسردگی وپژمردگی کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ وہ ملکِ اندلس سے مسلمانوں کے جا بجا قتل اور جلا وطن ہونے کے حالات سُنتے رہتے تھے اوربیرونی ممالک سے امداد نہ پہنچنے کا اُن کو یقین ہوچکا تھا۔