انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** محدثین میں اہلُ الرّائے ائمہ حدیث میں اہلُ الرائے صرف وہی حضرات ہوئے جومجتہد کے درجہ تک پہنچے تھے، نص صریح نہ ہونے کی صورت میں کسی مسئلہ میں رائے دینا کوئی معمولی کام نہ تھا، ابن قتیبہؒ نے معارف میں اصحاب الرائے کا عنوان قائم کرکے اِن میں سفیان الثوریؒ، امام مالکؒ اور امام اوزاعیؒ کو بھی ذکر کیا ہے؛ سواگرکسی نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو اہلُ الرائے میں لکھ دیا تویہ ان کے مجہتدانہ مقام کا ایک علمی اعتراف ہے، محدث ہونے کا انکار نہیں؛ پھرصرف حنفیہ میں ہی اہل الرائے نہیں، حافظ محمد بن الحارث الخشنی نے قضاۃ قرطبہ میں مالکیہ کوبھی اصحاب الرائے میں ذکر کیا ہے، علامہ سلیمان بن عبدالقوی الطوقی الحنبلی نے اصولِ حنابلہ پر مختصر الروضہ کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے، اِس میں ہے: "اعلم ان اصحاب الرای بحسب الاضافۃ ہم کل من تصرف فی الاحکام بالرای فیتناول جمیع علماء الاسلام لان کل واحد من المجتہدین لایستغنی فی اجتہادہ عن نظر ورای ولوبتحقیق المناط وتنقیحہ الذی لانزاع فیہ"۔ ترجمہ:جان لوکہ اصحاب الرائے باعتبار اضافت تمام وہ علماء ہیں جو احکام میں فکر کوراہ دیتے ہیں؛ سویہ لفظ تمام علماءِ اسلام کوشامل ہوگا؛ کیونکہ مجتہدین میں سے کوئی بھی اپنے اجتہاد میں نظرورای سے مستغنی نہیں؛ گووہ تحقیقِ مناط سے ہو اور اس تنقیح سے ہو جس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ تدوین فقہ کے کام کوسرانجام دینے کے باعث حضرت امام نے حدیث کا کوئی مجموعہ مرتب نہیں کیا؛ لیکن فقہی مباحث کے ضمن میں بہت سی احادیث آپ نے اپنے تلامذہ کے سامنے روایت کیں، آپ کی جوروایات آپ سے آگے آپ کے تلامذہ میں چلتی رہیں انہیں حصفکیؒنے جمع کیا ہے؛ پھرابوالموید محمدبن محمود الخوارزمی نے تمام مسانید کو سنہ ۶۶۵ھ میں یکجا جمع کیا؛ اِسی مجموعہ کو "مسندِامام اعظمؒ" کہا جاتا ہے، اِس کے لائق اعتماد ہونے کے لیئے موسیٰ بن زکریا الحصفکی کی ثقہ شخصیت کے علاوہ یہ بات بھی لائقِ غور ہے کہ عمدۃ المحدثین ملاعلی قاریؒ جیسے اکابر نے اس مسندِامام کی شرح لکھی ہے، جو"سندالانام" کے نام سے معروف ہے اور علماء میں بے حد مقبول ہے، امام وکیع بن الجراح کی علمی منزلت اور فن حدیث میں مرکزی حیثیت اہلِ علم سے مخفی نہیں ہے، صحیح بخاری اور صحیح مسلم آپ کی مرویات سے بھری پڑی ہیں، علمِ حدیث کے ایسے بالغ نظر علماء کا امام ابوحنیفہؒ سے حدیث سننا اور پھراِن کے اس قدر گرویدہ ہوجانا کہ انہی کے قول پر فتوےٰ دینا حضرت امام کی علمی منزلت کی ناقابلِ انکار تاریخی شہادت ہے، حافظ ابنِ عبدالبر مالکیؒ امام الجرح والتعدیل یحییٰ بن معین سے نقل کرتے ہیں: "وکان (وکیع) یفتی برأی أبی حنیفۃ وکان یحفظ حدیثہ کلہ وکان قد سمع من ابی حنیفۃ حدیثاً کثیراً"۔ (کتاب الانتقاء:۲/۱۵۰۔ جامع بیان العلم:۲/۱۴۹) ترجمہ:حضرت وکیع حضرت امام ابوحنیفہؒ کی فقہ کے مطابق فتوےٰ دیتے تھے اور آپ کی روایت کردہ تمام احادیث یاد رکھتے تھے اور انہوں نے آپ سے بہت سی احادیث سنی تھیں۔ حافظ شمس الدین الذہبیؒ (۷۴۸ھ) بھی وکیع کے ترجمہ میں لکھتے ہیں: "وقال يحيى: مارأيت افضل منه يقوم الليل ويسرد الصوم ويفتى بقول ابي حنيفة"۔ (تذکرۃ الحفاظ:۲۸۲) وکیع جیسے حافظ الحدیث اور عظیم محدث کا آپ کی تقلید کرنا اور فقہ حنفی پر فتوےٰ دینا حضرت امام کے مقام حدیث کی ایک کھلی شہادت ہے؛ پھرچند نہیں آپ نے ان سے کثیراحادیث سنیں، علم حدیث اور علم فقہ کے علاوہ آپ کی کلام پر بھی گہری نظر تھی، عراق کے کوفی اور بصری اعتقادی فتنوں نے حضرت امام کواس طرف بھی متوجہ کردیا تھا، آپ نے محدثین کے مسلک پررہتے ہوئے ان الحادی تحریکات کا خوب مقابلہ کیا، خطیب بغدادی (۴۶۳ھ) لکھتے ہیں: "علمِ عقائد اور علمِ کلام میں لوگ ابوحنیفہؒ کے عیال اور خوشہ چیں ہیں"۔ (بغدادی:۱۳/۱۶۱) علامہ ابنِ خلدونؒ لکھتے ہیں: "والامام أبوحنيفة إنماقلت روايته لماشدد في شروط الرواية والتحمل"۔ (مقدمہ تاریخ ابنِ خلدون:۱/۴۴۵،شاملہ، موقعِ یعسوب) ترجمہ:اور امام ابوحنیفہؒ کی روایت قلیل اس لیئے ہیں کہ آپ نے روایت اور تحملِ روایت کی شرطوں میں سختی کی ہے۔ بایں ہمہ آپ کثیرالروایۃ تھے، وکیع نے آپ سے کثیراحادیث سنی ہیں۔