انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** قبولیت دعاء کے مراتب حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا جوبھی مسلمان اللہ تعالی سے دعاء کرتا ہے جس میں گناہ اور قطع رحمی کا سوال نہ ہو تو اللہ تعالی اس کو تین چیزوں میں سے ایک چیز ضرور عطا فرماتے ہیں: (۱)یا تو اس کی دعاء(بعینہ) قبول فرمالیتے ہیں۔ (۲)یا اس کے برابر کوئی مصیبت (جو آنے والی ہوتی ہے) دور فرمادیتے ہیں۔ (۳)یا اس کے بدلہ آخرت میں کوئی ذخیرہ بنا کر رکھ دیتے ہیں۔ یہ سن کر حضرات صحابہ کرامؓ اجمعین نے کہا" تب تو ہم لوگ خوب دعاء کریں گے، آپ ﷺ نے فرمایا اللہ اس سے بھی زائد دینے والا ہے۔(جو تم مانگوگے) (حاکم،مشکوٰۃ:۱۹۶) حدیث پاک میں جو شکلیں دعاء کی منقول ہیں وہ قبولیت ہی کی شکلیں ہیں کہ اللہ تعالی مومن کی دعاء رد نہیں کرتا؛بلکہ دنیا اورآخرت میں جو بھی اس کے حق میں بہتر ہوتا ہے عطا فرماتاہے۔ قبولیت کے چار مرتبے ہیں: (۱) جو دعاء کی بعینہ دنیا میں مل جائے۔ (۲) دعاء کے بدلہ آخرت میں نیکیوں کا ذخیرہ ملے۔ (۳) دعاء کے بدلے گناہ معاف کردیئے جائیں۔ (۳) آنےوالی مصیبت ٹال دی جائے۔ حضرت ابو سعید خدریؓ کی حدیث جو مسند احمد میں ہے اس میں یہ تین شکلیں ہیں: (۱) دعاکا قبول ہوجانا۔ (۲) آخرت میں نیکیوں کا ملنا۔ (۳) مصائب کا دفاع۔ حضرت ابوہریرہؓ کی حدیث ترمذی میں یہ تین شکلیں ہیں: (۱) مراد کامل جانا۔ (۲) آخرت میں نیکیوں کا ذخیرہ (۳) گناہوں کی معافی۔ اسی وجہ سے منقول ہے کہ انسان جب آخرت میں نہ قبول ہونے والی دعاؤں کی نیکیوں کو خلاف گمان دیکھے گا تو تمنا کرے گا کہ کاش ہماری کوئی دعاء قبول نہ ہوئی ہوتی اوراس کا ذخیرہ آخرت میں پاتے۔ دعاء کو آخرت کےلیے ذخیرہ بناکر رکھ دینا خدائے پاک کی بڑی مہربانی ہے۔ دنیائے فانی تو کسی نہ کسی طرح دکھ سکھ کے ساتھ گزر ہی جائے گی، آخرت کی چیز باقی رہنے والی ہے،وہاں ملی ہوئی دولت یقیناً بہت بڑی دولت ہوگی۔ اس سے معلوم ہوا کہ دعاء رائیگاں نہیں جاتی،دنیا میں نہ ملنے کی صورت میں بھی فائدہ سے خالی نہیں، اس لئے دعاء میں کمی نہ کرنی چاہیے،خوب مانگے اوریہ نہ کہے کہ قبول نہ ہوئی تو دعاء کرنے سے کیا فائدہ۔