انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** ابواب الحج حج فرائض اسلام میں اگرچہ حج صرف ایک بار فرض ہے لیکن صحابیات کوایک بار کے حج سے کیا تسکین ہوسکتی تھی اس لیے تقریباً ہرسال فریضہ حج ادا کرتی تھیں ایک بار حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جہاد کی اجازت چاہی توآپ نے فرمایا: بہترین جہاد حج مبرور ہے، اس کے بعد سے ان کا کوئی سال حج سے خالی نہ گیا۔ (بخاری، كِتَاب الْحَجِّ ،بَاب حَجِّ النِّسَاءِ) صحابیات جس ذوق وشوق سے حج ادا کرتی تھیں اس کا موثر منظر حجۃ الوداع میں دنیا کونظر آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلانِ حج کیا توحضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا اگرچہ حاملہ تھیں لیکن وہ بھی روانہ ہوئیں بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین حجۃ الوداع کی شرکت کے لیے جارہے تھے راستے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوئی توایک صحابیہ جھپٹ کے آپ کے پاس آئیں اور ہودج سے اپنے بچے کونکال کرپوچھا کیا اس کا حج بھی ہوسکتا ہے؟ فرمایا:ہاں! تمہیں اس کا ثواب ملے گا۔ (ابوداؤد، كِتَاب الْمَنَاسِكِ، بَاب فِي الصَّبِيِّ يَحُجُّ) صحابیات فریضۂ حج کے ادا کرنے میں طرح طرح کا التزام مالایلتزم کرتی تھیں ایک صحابیہ نے خانہ کعبہ تک پاپیادہ جانے کی نذرمانی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا توآپ نے فرمایا: پاپیادہ بھی چلو اور سوار بھی ہولو (بخاری، كِتَاب الْحَجِّ، بَاب وُجُوبِ الْحَجِّ وَفَضْلِهِ) اگرکسی مجبوری سے حج کے فوت ہوجانے کا اندیشہ ہوجاتا تھا توصحابیات رضی اللہ عنھن کوسخت صدمہ ہوتا تھا، حجۃ الوداع میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کوضرورتِ نسوانی سے معذوری ہوگئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گذرہوا تودیکھا کہ رورہی ہیں فرمایا کیا ماجرا ہے؟ بولیں کہ میں نے اب تک حج نہیں کیا تھا، فرمایا سبحان اللہ یہ توفطری چیز ہے، تمام مناسکِ حج ادا کرلو صرف خانہ کعبہ کا طواف نہ کرو۔ (ابوداؤد، كِتَاب الْمَنَاسِكِ، بَاب فِي إِفْرَادِ الْحَجِّ) ماں باپ کی طرف سے حج ادا کرنا صحابیات نہ صرف خود بلکہ اپنے ماں باپ کی جانب سے بھی حج ادا کرتی تھیں حجۃ الوداع کے زمانہ میں ایک صحابیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہا کہ میرے باپ پرحج فرض ہوگیا ہے؛ لیکن وہ بڑھاپے کی وجہ سے سواری پربیٹھ نہیں سکتے، کیا میں ان کی جانب سے حج ادا کردوں؟ آپ نے ان کواس کی اجازت دے دی (بخاری،كِتَاب الْحَجِّ،بَاب وُجُوبِ الْحَجِّ وَفَضْلِهِ) ایک صحابیہ کی ماں کا انتقال ہوچکا تھا وہ آپ کی خدمت میں آئیں اور کہا کہ میری ماں نے کبھی حج نہیں کیا، کیا میں اس کی جانب سے یہ فرض ادا کردوں؟ آپ نے ان کوبھی اجازت دی۔ (مسلم،كِتَاب الصِّيَامِ، بَاب قَضَاءِ الصِّيَامِ عَنْ الْمَيِّتِ) عمرہ ادا کرنا عمرہ فرض ہویانہ ہو؛ لیکن صحابیات اس کونہایت پابندی کے ساتھ ادا کرتی تھیں اور جب وہ فوت ہوجاتا تھا توان کوسخت قلق ہوتا تھا جب حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ جن لوگوں کے پاس ہدی نہ ہو وہ عمرہ ادا کرسکتے ہیں توخیمے میں آکردیکھا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا رورہی ہیں، وجہ پوچھی توبولیں کہ میں ضرورتِ نسوانی سے مجبور ہوں؛ لیکن لوگ دودوفرض (حج وعمرہ) کاثواب لے کرجاتے ہیں اور میں صرف ایک کا، فرمایا کوئی حرج نہیں خدا تم کوعمرہ کا ثواب بھی عطا فرمائے گا؛ چنانچہ آپ نے حضرت عبداالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کوساتھ کردیا اور مقامِ تیعم میں انہوں نے جاکر عمرہ کا احرام باندھا اور آدھی رات کو فارغ ہوکر آئیں۔ (بخاری، كِتَاب الْحَجِّ)