انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** دوسرا الزام (۲)دوسرا الزام بنو ہاشم کے ساتھ عموماً اوراہل بیت نبوی کے ساتھ خصوصاً بد سلوکی کا لگایا جاتا ہے۔ لیکن یہ الزام بھی صریح افترا اوربہتان ہے،ممکن ہے خاندانی عصبیت کی وجہ سے امیر معاویہؓ بنو ہاشم کو اچھا نہ سمجھتے ہوں، لیکن ان کے ظاہری اعزاز واحترام میں انہوں نے کبھی کوئی فرق نہیں آنے دیا، خصوصا حضرت حسنؓ کی دست برداری کے بعد وہ بنو ہاشم سے جس حسن سلوک اورتحمل سے پیش آتے تھے وہ نہ صرف قابل ستائش ؛بلکہ حد درجہ حیرت انگیزہے، یہ ممکن ہے کہ ان کا یہ طرز عمل پولیٹکل اغراض کی بنا پر ہو، لیکن اس سے کوئی واقف کار حق پرست انکار نہیں کرسکتا کہ امیر معاویہؓ کا طرز عمل بنو ہاشم اوراہل بیت نبوی کے ساتھ حددرجہ شریفانہ اور متحملانہ تھا۔ اب واقعات سے اس کی مثالیں ملاحظہ ہوں،جب حسنؓ خلافت سے دستبردار ہوتے ہیں تو شرائط صلح میں ایک اہم دفعہ یہ ہوتی ہے کہ تمام بنی ہاشم کو وظائف دیئے جائیں گے اوران وظائف میں انہی بنی امیہ کے افراد پر ترجیح حاصل ہوگی۔ (اخبار الطوال:۲۳۱) اپنی وفات کے وقت انہوں نے حضرت حسینؓ کے بارہ میں جو وصیت کی تھی وہ خاص طور پر قابل لحاظ ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں کہ عراق والے حسینؓ کو تمہارے مقابلہ میں لاکر چھوڑیں گے، لیکن جب وہ تمہارے مقابلہ میں آئیں اورتم کو ان پر قابو حاصل ہو جائے تو درگذر سے کام لینا، کیونکہ قرابت دار ہیں،ان کا بڑاحق ہے اور وہ رسول اللہ کے عزیز ہیں۔ (طبری:۷/۱۹۷،والفزی:۱۰۳) بنو ہاشم کو ان کی ضرورت کے اوقات میں بڑی بڑی رقمیں دیتے تھے اوراس احسان کے باوجود ان کی درشت کلامی بھی برداشت کرتے تھے ،ایک مرتبہ حضرت علیؓ کے براوراکبر حضرت عقیل کو ۴۰ ہزار روپیہ کی ضرورت ہوئی، یہ حضرت علیؓ کے پاس گئے، یہاں کیا تھا آپ نے اپنے وظیفہ کی بر آورتک انتظار کرنے کو کہا لیکن اولاً وظیفہ کی رقم ان کے مطالبہ کے مقابلہ میں بہت قلیل تھی، پھر اس کے لئے وقت درکار تھا، اس لئے عقیل معاویہ کے پاس پہنچے،امیر معاویہؓ نے ان سے پوچھا تم نے علی کو کیسا پایا، جواب دیا رسول اللہ ﷺ کے صحیح صحابی ہیں، بس صرف اس قدر کمی ہے کہ آنحضرتﷺ ان میں نہیں ہیں اور تم اورتمہارے حواری ابو سفیان اور اس کے حواریوں کی طرح ہو،امیر معاویہؓ نے اپنے باپ پر یہ طعن سننے کے بعد بھی انہیں پچاس ہزار درہم دیئے، خصوصا ًحضرت امام حسنؓ اورامام حسینؓ کے ساتھ اس رقم کے علاوہ جوان کو شرائط صلح کے مطابق دیتے تھے، برابر مسلوک ہوتے رہتے تھے اور ایک مشت کئی کئی لاکھ دیتے تھے،ابن کثیر نے ان دونوں بھائیوں کے ساتھ امیر معاویہؓ کی فیاضی کے بہت سے واقعات نقل کئے ہیں، (تفصیل کے لئے دیکھو البدایہ والنہایہ :۵/۱۳۷) حضرت علیؓ کے بھتیجے عبداللہ بن جعفر کو کئی لاکھ سالانہ دیتے تھے، اس کے علاوہ جب کوئی ضرورت بیان کرتے تھے تو اس کو پوری کرتے تھے۔ بنو ہاشم کے مرد تو مرد عورتیں تک امیر معاویہؓ کو سخت الفاظ کہتی تھیں،امیر نہایت تحمل سے ان کو سنتے تھے اوران کی فرمائشیں پوری کرتے تھے، ایک مرتبہ حضرت علیؓ کی چچیری بہن ارویٰ ان کے پاس آئیں معاویہ نے نہایت خندہ پیشانی سے استقبال کیا اورکہا خالہ مرحبا، مزاج گرامی کیسا ہے، انہوں نے جواب دیا اچھی ہوں اوراہل بیت کے فضائل اور معاویہ کی مذمت پر ایک پرجوش تقریر کی عمرو بن العاصؓ بیٹھے تھے، ان سے نہ سنا گیا ،بول اٹھے کہ گمراہ بوڑھی تیری عقل جاتی رہی ہے، زبان بند کر، ارویٰ نے اس کے جواب میں عمرو بن العاصؓ کی بری طرح خبر لی، اوران کی ماں اوران کے نسب کے متعلق نہایت فحش باتیں سنا کر بولیں کہ تیری یہ مجال کہ میرے سامنے منہ کھولے،امیر معاویہؓ نے درمیان میں پڑ کر دونوں کو خاموش کردیا، کہ اب ان گزری ہوئی باتوں کو جانے دیجئے اوراپنی ضرورت بیان کیجئے ارویٰ نے کہا مجھ کو ۶ ہزار دینار کی ضرورت ہے ۲۰ ہزار مفلس بن حارث کے واسطے نہر خریدنے کے لئے اور دوہزار ان کے ناداروں کی شادی میں صرف کرنے کے لئے اور ۲ ہزار وقت بے وقت کی ضرورتوں کے لئے، امیر معاویہؓ نے اسی وقت چھ ہزار کی رقم ان کے حوالہ کی اوریہ اس کو لے کر واپس گئیں۔ (ابو انصار:۱/۱۸۸) حضرت عبداللہ بن عباسؓ جو ہاشمی خاندان کے بڑے صاحب کمال اورصاحب دماغ بزرگ تھے،بنی امیہ کے ساتھ تعصب رکھتے تھے،اوران کی یہ روش شروع سے آخر تک برابر قائم رہی اورجب بنی امیہ اوربنی ہاشم کے مقابلہ کا سوال ہوا تو حضرت عبداللہ کی عصبیت ظاہر ہوتی رہی؛چنانچہ جنگ صفین میں حضرت علیؓ کی حمایت میں میدان جنگ میں آئے اور بصریوں کی ایک جماعت اپنے ساتھ لائے پھر ثالثی میں حضرت ابو موسیٰ اشعری کو عمرو بن العاصؓ کی چال سے بچنے کی ہدایت کی اورجناب امیرؓ کی زندگی میں ان کی جانب سے بصرہ کے والی رہے، غرض جناب امیر اور معاویہؓ کے اختلاف کے زمانہ میں عبداللہ بن عباسؓ کی حیثیت نہ صرف جناب امیرؓ کے معمولی حامی کی تھی؛بلکہ وہ امیر معاویہؓ کے سخت مخالف تھے،لیکن ان مخالفتوں کے باوجود حضرت حسنؓ کی دست برداری سے کچھ قبل جب انہوں نے امیر معاویہؓ کے پاس اپنی جان اوراپنے اندوختہ کی امان کے بارہ میں خط لکھا تو امیر معاویہؓ نے اسے بخوشی منظور کرلیا اوران سے کوئی تعرض نہیں کیا(طبری:۷/۲) ایک مرتبہ ان کو دس لاکھ درہم دئے۔ (البدایہ وانہایہ:۸/۱۳۸) مشہور شیعی مؤرخ طباطبا المعروف بابن طقطقی لکھتے ہیں کہ اشراف قریش میں عبداللہ بن عباسؓ ،عبداللہ بن زبیرؓ، عبداللہ بن جعفر طیارؓ، عبداللہ بن عمرؓ، عبدالرحمن ؓبن ابی بکر، آبان بن عثمانؓ اورآل ابی طالب کے افراد معاویہ کے پاس دمشق آیا کرتے تھے،یہ ان سب کی بزرگ داشت اوراعلی پیمانہ پر ان کی مہمان نوازی کرتے تھے، ان کی تمام ضروریات پوری کرتے تھے، اس کے بدلہ میں یہ لوگ ہمیشہ ان سے سختی کے ساتھ گفتگو کرتے اورچیں بچیں رہتے؛ لیکن امیر معاویہ ان گفتگوؤں کو کبھی مذاق میں اڑادیتے اورکبھی ٹال جاتے اوراس کے جواب میں پیش قیمت تحائف اوربڑی بڑی رقمیں دیتے۔ (الفخری:۹۴) ان صریح شہادتوں کے بعد امیر معاویہؓ پر اہل بیت اوربنو ہاشم کے ساتھ ناروا سلوک کرنے کا الزام لگانا کس قدر زیادتی ہے۔