انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ناقابل معافی مجرموں کے لیے اذن قتل اس عفو عام سے سولہ بد قسمت مستثنیٰ تھے جن کے جرائم حضوراکرم ﷺ کی نظر میں نا قابل معافی تھے، ان کی دین اسلام کے خلاف مسلسل مجرمانہ سر گرمیوں کے پیش نظر انہیں قابل گردن زدنی قرار دیا گیا، انہیں عفو عام سے مستثنیٰ قرار دے کر ان کا خون مباح کردیا گیا، ارشاد نبوی ہوا کہ انہیں جہاں کہیں ملیں موت کے گھاٹ اتار دیا جائے چاہے وہ غلاف کعبہ ہی سے لپٹے ہوئے کیوں نہ ہوں ، وہ سولہ مجرم یہ تھے : ۱- وحشی بن حرب حضرت امیر حمزہؓ کا قاتل ۲- عکرمہ بن ابو جہل دشمن اسلام ابو جہل کا بیٹا، ان کی بیوی اُم حکیم بن الحارث اسلام لائیں تھیں، عکرمہ فرمان قتل سن کر یمن کی طرف بھاگ گئے، اُم حکیم نے اپنے شوہر کی جاں بخشی کی التجاء کی اور قبول عرض کے بعد خود یمن جاکر انھیں لے آئیں، انھوں نے اسلام قبول کیا اور ثابت قدمی سے اس پر جمے رہے ، ۳- صفوان بن اُمیہ اُمیہ بن خلف کا بیٹا، اس کی بھی جاں بخشی کی گئی ۴- ہبّار بن اسود بنی اسد کا ظالم، یہ وہی شخص ہے جس نے رسول اﷲ ﷺکی صاحبزادی حضرت زینب ؓ کو ان کی ہجرت کے موقع پر ایساکچھوکہ مارا تھاکہ وہ ہودج سے ایک چٹان پر جا گریں تھیں اور اس کی وجہ سے ان کا حمل ساقط ہوگیاتھا، یہ شخص فتح مکہ کے روز نکل بھاگاپھر مسلمان ہوگیا اور اس کے اسلام کی کیفیت اچھی رہی، ۵- زُہیر بن ابو امیہ اُم المومنین اُم سلمہ ؓ کا حقیقی بھائی، اُم ہانی بنت ابو طالب سے پناہ طلب کی ، اُم ہانی نے اس کو امان دے دی اورحضور ﷺ نے اس کو قائم رکھا، ۶- حارث بن طلاطلہ موذی دشمن دین، مکّہ میں رسول اﷲﷺ کوسخت اذیت پہنچایا کرتاتھا، بعد میں ایک انصاری کو قتل کرکے مرتدہوگیا اور بھاگ کرمشرکین کے پاس چلاگیا، ۷- عبداللہ بن ابی سرح مسلمان ہوجانے کے بعد کاتب وحی کے منصب پر فائز ہوا بعد میں ترک اسلام کرکے قریش کے پاس چلاگیااوررہنے لگا پھر وہ وحی کی کتابت میں کمی بیشی کرتے رہا،یہ مرتد حضرت عثمانؓ کا رضاعی بھائی تھا، حضور ﷺ کی خدمت میں لے جاکر جاںبخشی کی سفارش کی اور آپﷺنے اسے قبول فرماتے ہوئے اس کا اسلام قبول کرلیا، لیکن اس سے پہلے آپﷺ کچھ دیر اس امید میں خاموش رہے کہ کوئی صحابی اٹھ کر اسے قتل کردیں گے؛ کیونکہ یہ شخص اس سے پہلے بھی ایک بار اسلام قبول کرچکاتھا اور ہجرت کرکے مدینہ آیاتھا؛ لیکن پھر مرتد ہوکر بھاگ گیاتھا،بعدمیں وہ ایک سچے مسلمان ثابت ہوئے، ۸- کعب بن زہیر اسلمی مشہور ہجو گو شاعر، اس نے بعد میں آکر اسلام قبول کرلیا ۹- عبداللہ بن زبری بن قیس ہجو گو شاعر ۱۰- سہیل بن عمرو عامری صلح حدیبیہ کا طئے کرنے والا ۱۱- سارہ ہجو گو مغنیہ جواولاد عبدالمطلب میں سے کسی کی لونڈی تھی، اسی کے پاس حضرت حاطبؓ کا خط پایاگیا، امان کی درخواست نے اس کی جاںبخشی کرادی، ۱۲- قرنتی یا اُم سعدہجو گو مغنیہ ابن اخطل کی لونڈی ، بعض مورخوں نے دونوں لونڈیا ں لکھی ہیں ، ان کے نام ارنب اور اُم سعد تھے ، یہ دونوں قتل کی گئیں، ۱۳- ہند بنت عتبہ ابو سفیان کی بیوی ( بعض مورخوں نے ان کانام نہیں لکھا)غزوۂ اُحدمیں شہید ہونے کے بعد حضرت حمزہؓ کا کلیجہ چبانے والی ، اس نےبعدمیں اسلام قبول کرلیا، ۱۴- عبدالعزیٰ بن اخطل مشہور دشمن اسلام، یہ پہلے مسلمان ہوگیا تھا، اس کو حضور ﷺ نے صدقات وصول کرنے کے لئے بھیجا تھا، اس کے ساتھ ایک انصاری صحابی اور ایک رُومی غلام تھا، راستہ میں رُومی غلام کو اس نے قتل کرڈالا اور مرتد ہوکر مکّہ بھاگ گیاتھا، فتح مکّہ کے موقع پر معافی کے خیال سے کعبہ کا پردہ پکڑ لیاتھا لیکن اس کو وہاں بھی پناہ نہ ملی،سعد ؓبن حریث مخزومی اور ابو بردہ اسلمی ؓ نے اس کو قتل کردیا، ۱۵- مقیس بن صابہ مشہور دشمن اسلام، مسلمان ہونے کے بعد مرتد ہوگیاتھا، غزوۂ خندق کے موقع پر آیا اور ایک انصاری کو قتل کرکے بھاگ گیاتھا اس کو حضرت نمیلہؓ بن عبداﷲ لیثی نے قتل کیا، ۱۶- حُویرث بن نضیل بن وہب مشہور دشمن اسلام جو ہجرت سے قبل حضور ﷺ کو بہت ایذائیں دیتاتھا، حضرت علیؓ نے اسے قتل کیا، بعد میں مختلف صحابہؓ کی سفارش پر دس مردوں اور تین عورتوں کی جان بخشی ہو گئی البتہ موخر الذکر تین دشمنان اسلام کو قتل کر دیا گیا، فتح کے روز تمام مسلمان حضوراکرم ﷺ کے ساتھ عشاء سے فجر تک خانہ کعبہ میں تکبیر و تسبیح اور طواف کعبہ میں مصروف رہے، دوسرے دن حضور ﷺ نے پھر اہل مکہ کے سامنے خطبہ ارشاد فرمایا جس میں نو مسلموں کی بڑی تعداد شامل تھی ، حضور ﷺ کی خدمت میں یہ اطلاع پہنچائی گئی کہ بنو خزاعہ نے انتقامی کارروائی کے طور پر بنی لیث کے ایک آدمی کوقتل کر دیا ہے ، یہ سنتے ہی آپﷺ قصویٰ پر سوار ہوئے اور حمدو ثناء کے بعد ارشاد فرمایا : " اب ہجرت نہیں رہی لیکن جہاد باقی ہے ، ہجرت کی نیت باقی رہے گی ، جب تم کو جہاد کے لئے بلایا جائے تو نکل کھڑے ہو بے شک اللہ تعالیٰ نے اس شہر کو اس دن سے حرمت دی ہے جس دن آسمانوں اورزمین کو پیدا کیا اور وہ قیامت تک کے لئے حرم ہے ، بے شک اللہ نے مکہ سے ہاتھی والوں کو روک دیا تھا؛ لیکن اللہ نے اپنے رسول اور مسلمانوں کو اہل مکہ پر تسلط دے دیا ، خبر دار ہو جاؤ ، نہ مجھ سے پہلے کبھی کسی کے لئے یہاں خونریزی حلال ہوئی اور نہ میرے بعد کسی کے لئے حلال ہو گی ، خبر دار ہو جاؤ میرے لئے بھی کچھ دیر کے لئے حلال ہوئی تھی، اب وہ بدستور قیامت تک کے لئے حرام ہے، نہ یہاں کا کانٹا توڑا جائے نہ درخت کاٹا جائے نہ شکار بھگایا جائے نہ یہاں کی گری پڑی چیز اٹھائی جائے، البتہ اس کا اعلان کرنے والا اٹھا سکتا ہے ، اس شخص کا کوئی عزیز قتل ہو جائے اُسے دو باتوں میں سے ایک کا اختیار ہے ، خواہ وہ بدلہ لے لے یا خوں بہا لے لے ، حضرت عباسؓ نے عرض کیا ! ائے اللہ کے رسول… اذخر گھاس کے کاٹنے کو مستثنیٰ فرمادیجئے؛ کیونکہ وہ ہمارے گھروں لوہاروں اور قبروں کے کام آتی ہے ، یہ سن کرحضوراکرم ﷺ خاموش ہوگئے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد آپ ﷺ کی زبان سے نکلا … " مگر اذخر مگر اذخر " جب آپ ﷺ کا خطاب ختم ہو ا تو یمن کاایک شخص ابو شاہ آگے بڑھا اور درخواست کی کہ یا رسول اللہ…یہ خطبہ مجھے لکھوا دیجئے ، آپﷺ نے ارشاد فرمایا ! یہ خطبہ لکھ کر دیدو، فتح کے دوسرے روز حضوراکرم ﷺ نے خطاب میں حمد و ثناء کے بعد فرمایا : " یقیناً مکہ کو اللہ نے حرمت دی ہے نہ کہ ان انسانوں نے، جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اُس کے لئے حلا ل نہیں کہ یہاں خون ریزی کرے یا یہا ں کا درخت کاٹے ، اگر کوئی شخص اللہ کے رسول کے قتال کی بنیادپر ( یہاں قتال کرنا ) جائز سمجھے تو اس سے کہو کہ یقیناً اللہ نے اپنے رسول کو اجازت دیدی تھی، اب پھر اس کی حرمت بدستور اسی طرح لوٹ آئی جس طرح ( میرے قتال سے پہلے) تھی ، حاضر کو چاہئیے کہ غائب کو یہ حدیث پہنچا دے" بیعت بنو اسد کے لوگوں نے عرض کیا کہ مکہ ولوں سے بیعت لی جائے ، حضوراکرم ﷺ نے قرن مستقبلہ کے قریب تشریف فرما ہو کر ان سے اسلام کی بیعت لی، جب لوگوں کا ہجوم بڑھ گیا تو کوہ صفا پر ان سے بیعت لی، اس وقت حضرت عمرؓ بن خطاب بائیں جانب کھڑے ہو کر ہر شخص سے بیعت کے الفاظ سن رہے تھے ، مردوں سے بیعت لینے کے بعد عورتوں سے بیعت لینے کی باری آئی تو اُن سے اقرار اسلام کے بعد ایک پانی سے بھرے بر تن میں حضور اکرم ﷺ اپنا دست مبارک ڈبو کر نکال لیتے پھر خواتین اس میں اپنا ہاتھ ڈالتیں، عورتوں کے ہجوم میں حضرت ابو سفیان ؓ کی بیوی ہند نقاب پہن کر آئی، اس لئے کہ اس کو اپنے سابقہ کرتو ت کی بناء پر اپنی جان جانے کا ڈر تھا اور اس کے قتل کو مباح قرار دے دیا گیاتھا ، جب وہ قریب آئی تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا عہد کرو کہ اللہ کے سوا کسی کو شریک نہ بناؤ گی، عرض کیا ، یا رسول اللہ ! آپ میرے پچھلے اعمال پر مواخذہ تو نہیں فرمائیں گے ، فرمایا ان اعمال پر توبہ کرو اللہ معاف کرنے والاہے ، پھر اس نے نقاب الٹ کر کہا کہ میں ہند ہوں، آپﷺ نے فرمایا تو مسلمان ہو گئی بہت اچھا ہوا، عرض کیا کہ میں آپﷺ کے دست مبارک میں ہاتھ دے کر بیعت کرنا چاہتی ہوں، فرمایا میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا، اسلام قبول کرنے کے بعد انہوں نے ایک بکری کا بچہ ہدیہ میں بھیجا، اس کے بعد آپﷺ نے حضرت عمرؓ کو حکم دیا کہ بقیہ عورتوں سے بیعت لیں ، بیعت کے الفاظ یہ تھے : " اللہ تعالیٰ کا کسی کو شریک نہ بناؤگی ، اپنی اولادکو قتل نہ کروگی ، چوری اور زنا نہ کرو گی" مکہ سے بتوں کو پاک کرنے کے بعد گرد و نواح میں جتنے بت تھے وہ سب گرا دئے گئے اور اعلان کر دیا گیا کہ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والا شخص اپنے گھر میں بت نہ رکھے ، مکہ ۲۰ رمضان المبارک کو فتح ہوا، اس کے بعد حضور ﷺ پندرہ دن اور وہاں رہے، حضرت عبداللہ ؓ بن عباس کی روایت ہے کہ (۱۹) روز رہے ، جتنے دن رہے قصر نماز پڑھتے رہے، روزوں کی بھی قضاء فرمائی، آپﷺ کے قیام سے انصار کے دل میں شبہ پیدا ہوا کہ اب شائد آپﷺ مکّہ ہی میں رہیں گے اور مدینہ واپس نہ جائیں گے (تاریخ اسلام- اکبر شاہ خاں نجیب آبادی)