انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت نعیم النّحّامؓ نام ونسب نعیم نام، نحام لقب، نسب نامہ یہ ہے،نعیم بن عبداللہ بن اسید بن عوف بن عبید بن عویج بن عدی بن کعب عدوی قرشی،نحام کے لقب کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ آنحضرتﷺ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ میں نے جنت میں نعیم کی "نحمہ" یعنی آواز سنی اسی وقت سے نحام ان کا لقب ہوگیا۔ (مستدرک حاکم :۳/۲۵۹) اسلام نعیم نے اس وقت توحید کی دعوت پر لبیک کہا جب کل ۹یا ۱۰ بندگان خدانے اس دعوت حق کا جواب دیا تھا، حتیٰ کہ حضرت عمرؓ بھی اس وقت تک کفر کی تاریکی میں محصور تھے،(استیعاب:۱/۳۱۱) لیکن اس زمانہ میں اسلام کا اظہار تعزیراتِ مکہ میں شدید ترین جرم تھا، اس لیے عرصہ تک اسلام کا اعلان نہ کرسکے، ہجرت کے اذن کے بعد جب مسلمانوں کے لیے بیت الامن مدینہ کا دروازہ کھلا تو انہوں نے بھی ہجرت کا ارادہ کیا، مگربنی عدی کی جن بیواؤں اوریتیموں کی پرورش اور خبر گیری کرتے تھے،انہوں نے التجا کی کہ ہم کو چھوڑ کر نہ جائیے، جس مذہب میں دل چاہے رہیے مگر جانے کا قصد نہ کیجئے،آپ سے کوئی شخص تعرض نہیں کرسکتا، پہلے ہم سب کی جانیں قربان ہوجائیں گی، اسوقت آپ کو کوئی گزند پہنچ سکے گا، اس مجبوری کی بنا پر ابتدا میں ہجرت کا شرف حاصل نہ ہوسکا،(اسد الغابہ:۵/۳۳،حاکم نے مستدرک میں روایت کیا ہے کہ حبشہ کی ہجرت میں شریک تھے؛لیکن اورتمام ارباب سیر اس کے مخالف ہیں) لیکن یتیموں اور بیواؤں کی پرورش خود ایسی فضیلت ہے،جس کے مقابلہ میں ہجرت کی تاخیر چنداں اہمیت نہیں رکھتی۔ ہجرت ۶ھ میں اپنے چالیس اہل خاندان کے ساتھ ہجرت کرکے مدینہ گئے، آنحضرتﷺ نے گلے لگا کر بوسہ دیا،(ابن سعد،جلد۴،ق۱:۱۰۲) اورفرمایا نعیم تمہارا قبیلہ تمہارے حق میں میرے قبیلہ سے بہتر تھا، انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ کا قبیلہ بہتر تھا، فرمایا یہ کیسے ؟میرے قبیلہ نے تو مجھ کو نکال دیا، مگر تمہارے قبیلہ نے تم کو ٹھہرائے رکھا، عرض کیا یا رسول اللہﷺ آپ کی قوم نے آپ کو ہجرت پر آمادہ کیا اور میری قوم نے مجھ کو اس شرف سے محروم رکھا۔ (اصابہ:۶/۴۸) غزوات مدینہ آنے کے بعد تمام غزوات میں آنحضرتﷺ کے ہمرکاب رہے۔ وفات بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکرصدیقؓ کے عہدِ خلافت میں اجنادین کے معرکہ میں شہادت پائی اور بعض سے معلوم ہوتا ہے کہ ۱۵ھ میں یرموک میں شہید ہوئے۔ (اسد الغابہ:۵/۳۴) اولاد وفات کے بعد اولادذکور میں ابراہیم اوراناث میں امہ چھوڑیں، اول الذکر زینب بنت حنظلہ کے بطن سے تھے اور ثانی الذکر عاتکہ بنت حذیفہ کے بطن سے تھیں۔ (ابن سعد،جزو۴،ق ۱:۱۰۲) عام حالات نہایت فیاض،رحم دل، یتیموں کا ملجا،بیواؤں کا ماوی اورغیبوں کے مددگار تھے،بنی عدی میں یتیموں اوربیواؤں کے علاوہ اورجس قدر فقراء تھے،ان سب کو مہینہ مہینہ کرکے کھانا کھلاتے تھے۔ (ابن سعد،جزو۴،ق۱:۱۰۲)