انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
جہری اور سرّی قراءت کی کیا حکمت ہے؟ اصل یہ ہے کہ شریعت میں جس بات کا حکم دیا گیا ہے اس کو بےچون و چرا اور مصلحت وحکمت جانے بغیر ہی ہر مسلمان کو قبول کرنا چاہئے، خاص کر جو احکام عبادات سے متعلق ہیں ان میں عقل وقیاس کو کوئی دخل نہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ کا کوئی حکم حکمت سے خالی ہو، شریعت کا ہر حکم عقل ودانش پر مبنی ہے، لیکن جیسے ہماری نگاہ اور ہماری سماعت کا دائرہ محدود ہے، ہم قریب ہی کی آواز سن سکتے ہیں اور فرلانگ اور دو فرلانگ کی دوری ہی کو دیکھ سکتے ہیں، اسی طرح ہماری عقل بھی کوتاہ اور محدود ہے اور وہ مصالح غیبی کو سمجھنے سے عاجز ہے، اس لئے شریعت کی کوئی بات خلاف عقل تو نہیں لیکن بہت سی باتیں عقل سے ماوراء (اوپر کی) ہیں، پس ایسے مسائل میں بے فائدہ تجسس سے اجتناب ہی بہتر ہے۔ ویسے بظاہر یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ دن کا وقت شور وشغب کا ہوتا ہے اور اس میں ذہنی یکسوئی بھی نہیں ہوتی اس لئے ظہر وعصر کی نماز میں تلاوت آہستہ رکھی گئی ، رات کا وقت سکوت وسناٹے اور ذہنی وقلبی یکسوئی اور فراغی کا ہوتا ہے اس لئے اس وقت بلندآواز میں تلاوت کا حکم دیا گیا اور فجر کا وقت جو سب سے زیادہ قلبی نشاط کا ہے اس میں تلاوت بھی طویل رکھی گئی، جن نمازوں میں بڑا اجتماع ہوتا ہے یعنی عیدین ، جمعہ وغیرہ ان میں خصوصی طور پر دعوتی نقطۂ نظر سے قراءت کا حکم دیا گیا اور شاید اس لئے بھی کہ بڑے مجمع کو پُرسکون رکھنے اور لوگوں کی خاطر (دلوں) کو جمع رکھنے کی غرض سے بلند آواز ہی مناسب تھی۔ (کتاب الفتاویٰ:۲/۱۹۱،کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند)