انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حادثہ کربلا عبیداللہ بن زیاد نے عمروبن سعد بن ابی وقاص کورے کی حکومت پرنامزد کیا اور فی الحال چار ہزار فوج دیکر مامور کیا کہ صحرا میں نکل کرتمام راستوں اور سڑکوں کی نگرانی کرواؤ، حسین بن علی رضی اللہ عنہما کا کھوج لگاؤ کہ وہ کس طرف سے آرہے ہیں اور کہاں ہیں اور ایک ہزار آدمی حربن یزید تمیمی کے سپرد کرکے اس کوبھی گشت وگرداوری پرمامور کیا، عمروبن سعد مقام قادسیہ میں ہوکر ہرسمت کی خبریں منگانے کا انتظام کرنے لگے، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ایک عجیب شش وپنج کے عالم میں مقام شراف تک پہنچے، اس سے آگے بڑھے توحربن یزید تمیمی معہ اپنی ایک ہزار فوج کے سامنے آیا، امام حسین نے آگے بڑھ کرحرسے کہا کہ میں تم ہی لوگوں کے بلانے سے یہاں آیا ہوں؛ اگرتم لوگ اپنے عہدواقرار پرقائم ہوتومیں تمہارے شہر میں داخل ہوں نہیں توجس طرف سے آیا ہوں؛ اسی طرح واپس چلاجاؤنگا، حر نے کہا ہم کوعبیداللہ بن زیاد کا حکم ہے کہ آپ کے ساتھ رہیں اور آپ کواس کے سامنے زیرحراست لے چلیں، امام حسین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ ذلت توہرگز گوارا نہیں ہوسکتی کہ ابن یزید کے سامنے گرفتار ہوکر جائیں، اس کے بعد انھوں نے واپسی کا ارادہ کیا توحر نے ابنِ زیاد کے خوف سے واپس ہونے سے روکا اور واپسی کے راستے میں اپنی فوج لے کرکھڑا ہوگیا، امام حسین رضی اللہ عنہ نے وہاں سے شمال کی جانب کوچ کیا اور قادسیہ کے قریب پہنچ گئے، وہاں معلوم ہوا کہ عمروبن سعد ایک بڑی فوج کے ساتھ مقیم ہے، حر آپ کے پیچھے پیچھے تھا، قادسیہ کے قریب پہنچ کرامام حسین علیہ السلام وہاں سے لوٹے اور دس میل چل کرمقامِ کربلا میں آکرمقیم ہوئے، عمروبن سعد آپ کی خبر سن کرمعہ فوج روانہ ہوا اور سراغ لیتا ہوا اگلے روز کربلا پہنچ گیا، قریب پہنچ کرعمروبن سعد اپنی فوج سے جدا ہوکر آگے آیا اور امام حسین علیہ السلام کوآواز دے کراپنے قریب بلایا، سلام علیک کے بعد ابن سعد نے کہا کہ: بیشک آپ یزید کے مقابلے میں زیادہ مستحقِ خلافت ہیں؛ لیکن خدائے تعالیٰ کویہ منظور نہیں کہ آپ کے خاندان میں حکومت وخلافت آئے، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے حالات آپ کے سامنے گذرچکے ہیں؛ اگرآپ اس سلطنت وحکومت کے خیال کوچھوڑ دیں توبڑی آسانی سے آزاد ہوسکتے ہیں، نہیں توپھرآپ کی جان کا خطرہ ہے اور ہم لوگ آپ کی گرفتاری پرمامور ہیں۔ حضرت امام حسین علیہ السلام نے فرمایا کہ: میں اس وقت تین باتیں پیش کرتا ہوں، تم ان تین میں سے جس کوچاہو میرے لیے منظور کرلو: اوّل تویہ کہ جس طرف سے میں آرہا ہوں؛ اسی طرف مجھے واپس جانے دوتاکہ میں مکہ معظمہ میں پہنچ کرعبادتِ الہٰی میں مصروف رہوں۔ دوّم یہ کہ مجھ کوکسی سرحد کی طرف نکل جانے دوکہ وہاں کفار کے ساتھ لڑتا ہوا شہید ہوجاؤں۔ سوّم یہ کہ تم میرے راستے سے ہٹ جاؤ اور مجھ کوسیدھا یزید کے پاس دمشق کی جانب جانے دو، میرے پیچھے پیچھے اپنے اطمینان کی غرض سے تم بھی چل سکتے ہو، میں یزید کے پاس جاکر براہِ راست اس سے اپنا معاملہ اسی طرح طے کرلونگا جیسا کہ میرے بڑے بھائی حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ سے طے کیا تھا۔ عمروبن سعد یہ سن کربہت خوش ہوا اور کہا کہ میں بطورِ خود کوئی پختہ جواب آپ کواس معاملے میں ان باتوں کے متعلق نہیں دے سکتا، میں ابھی عبیداللہ بن زیاد کواطلاع دیتا ہوں، یقین ہے کہ وہ ضرور ان میں سے کسی ایک بات کومنظور کرلے گا، عمروبن سعد بھی اسی میدان میں خیمہ زن ہوگیا اور ابن زیاد کویہ تمام کیفیت لکھ بھیجی۔ ۲/محرم سنہ۶۱ھ کوکربلا میں عمروبن سعد امام حسین رضی اللہ عنہ کے پہنچنے سے اگلے دن جاکرمقیم ہوا تھا اور اس نے کہا کہ امام حسین رضی اللہ عنہ نے وہ بات پیش کی ہے جس سے فتنہ کا دروازہ بالکل بند ہوجائے گا اور وہ یزید کے پاس جاکر بیعت کرلیں گے توپھرکوئی خطرہ باقی نہ رہے گا؛ لیکن شمرذی الجوشن اس وقت اس کے پاس موجود تھا، اس نے کہا کہ اے امیر اس وقت تجھ کوموقع حاصل ہے کہ توامام حسین رضی اللہ عنہ کوبلاتکلف قتل کردے، تجھ پرکوئی الزام عائد نہ ہوگا؛ لیکن اگرامام حسین رضی اللہ عنہ یزید کے پاس چلے گئے توپھران کے مقابلے میں تیری کوئی عزت وقدر باقی نہ رہے گی اور وہ تجھ سے زیادہ مرتبہ حاصل کرلیں گے، یہ سن کرابنِ زیاد نے عمروبن سعد کوجواب میں لکھا کہ: یہ تینوں باتیں کسی طرح منظور نہیں ہوسکتیں، ہاں صرف ایک صورت قابل پذیرائی ہے، وہ یہ کہ امام حسین اپنے آپ کوہمارے سپرد کردیں اور یزید کی بیعت نیابتاً اوّل میرے ہاتھ پرکرے؛ پھرمیں ان کویزید کے پاس اپنے اہتمام سے روانہ کروں گا۔ اس جواب کے آنے پرعمروبن سعید نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کواطلاع دی اور کہا کہ میں مجبور ہوں، ابنِ زیاد خلافتِ یزید کی بیعت اوّل اپنے ہاتھ میں چاہتا ہے اور کسی دوسری بات کومنظور نہیں کرتا، امام حسین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس سے تومرجانا بہتر ہے کہ میں ابن زیاد کے ہاتھ پربیعت کروں۔ ابن سعد اس کوشش میں مصروف تھا کہ کسی طرح کشت وخون نہ ہو، یاتوامام حسین رضی اللہ عنہ ہی ابنِ زیاد کی شرط کومان لیں یاابن زیاد امام حسین رضی اللہ عنہ کی منشاء کے موافق ان کوجانے کی اجازت دیدے؛ اسی خط وکتابت اور انکار واصرار میں ایک ہفتہ تک امام حسین رضی اللہ عنہ اور ابنِ سعد دونوں اپنے اپنے ہمرائیوں کے ساتھ مل کرکربلا کے میدان میں خیمہ زن رہے، امام حسین علیہ السلام صفوں کودرست کرتے، ابنِ زیاد کے پاس یہ خبر جب پہنچی تواس کوفکر پیدا ہوئی کہ کہیں ابنِ سعد امام حسین رضی اللہ عنہ سے سازش نہ کرلے، اس نے فوراً ایک چوب دار جویرہ بن تمیمی کوبلایا اور سعد کے نام ایک خط لکھ کردیا کہ: میں ے تم کوحسین بن علی کی رضی اللہ عنہما کی گرفتاری پرمامور کیا تھا، تمہارا فرض تھا کہ ان کوگرفتار کرکے میرے پاس لاتے یاگرفتار نہ کرسکتے توان کا سرکاٹ کرلاتے، میں نے تم کویہ حکم نہیں دیا تھا کہ تم ان کی مصاحبت اختیار کرکے دوستانہ تعلقات بڑھاؤ، اب تمہارے لیے بہتر یہی ہے کہ فوراً بلاتأمل اس خط کوپڑھتے ہی یاتوحسین بن علی رضی اللہ عنہما کومیرے پاس لاؤ؛ ورنہ جنگ کرکے ان کا سرکاٹ کربھیجو؛ اگرذرا بھی تامل تم سے سرزد ہوا تومیں نے اپنے سرہنگ کوجویہ خط لے کرآرہا ہے، حکم دیا ہے کہ وہ تم کوگرفتار کرکے میرے پاس پہنچائے اور لشکروہیں مقیم رہ کردوسرے سردار کا منتظر رہے، جس کومیں تمہاری جگہ مامور کرکے بھیجوں گا۔ جویرہ یہ خط لے کرجمعرات کے دن ۹/محرم الحرام سنہ۶۱ھ کوابنِ سعد کے پاس پہنچا، ابن سعد اس وقت اپنے خیمہ میں بیٹھا تھا، خط کوپڑھتے ہی کھڑا ہوگیا اور گھوڑے پرسوار ہوکر لشکر کوتیاری کا حکم دیا اور جویرہ بن بدر سے کہا کہ تم گواہ رہنا کہ میں نے امیر کا حکم پڑھتے ہی اس کی تعمیل کی ہے؛ پھرصفوفِ جنگ آراستہ کرکے جویرہ کوہمارہ لےکرآگے بڑھا اور امام حسین رضی اللہ عنہ کوسامنے بلواکر کہا کہ امیر ابنِ زیاد کا یہ حکم آیا ہے کہ اگرمیں اس کی تعمیل میں ذرا بھی دیر کروں تویہ قاصد موجود ہے، جس کوحکم دیا گیا ہے کہ فوراً مجھ کوقید کرلے، امام حسین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھ کوکل تک کے لیئے اور سوچنے کی مہلت دو، ابنِ سعد نے جویرہ کی طرف دیکھا کہ اس نے کہا کہ کل کچھ دور نہیں ہے، اتنی مہلت دے دینی چاہیے، ابن سعد میدان سے واپس آیا اور فوج کوحکم دیا کہ کمرکھول دو، آج کوئی لڑائی نہ ہوگی۔ عبیداللہ بن زیاد نے جویرہ بن بدر کے ہاتھ یہ حکم روانہ کرے کے بعد سوچا کہ اگرابن سعد نے سستی کی اور جویرہ نے اس کوقید کرلیا توفوج بغیر افسر کے رہ کرمنتشر ہوجائے گی اور ممکن ہے کہ امام حسین رضی اللہ عنہ ہی سے جاملے، اس صورت میں ضرور دقت وپریشانی کا سامنا ہوگا اور امام حسین رضی اللہ عنہ کوموقع مل جائے گا کہ وہ مکہ کی طرف فرار ہوجائیں اور قابو میں آئے ہوئے نکل جائیں؛ چنانچہ اس نے فوراً شمرذی الجوشن کوبلوایا اور کہا کہ میں جویرہ کوبھیج چکا ہوں اور اس کوحکم دے دیا ہے کہ اگرابن سعد لڑائی میں تامل کرے تواس کوگرفتار کرکے لے آئے، ابن سعد کی طرف سے مجھ کومنافقت کا شبہ ہے؛ اگرجویرہ نے ابنِ سعد کوگرفتار کرلیا توفوج جومیدان میں پڑی ہوئی ہے، سب آوارہ اور ضائع ہوجائے گی، میں تجھ سے بہتر اس کام کے لیے دوسرا شخص نہیں پاتا توفوراً میدانِ کربلا کی طرف جا اور اگرابنِ سعد گرفتار ہوچکا ہوتوفوج کی کمان اپنے ہاتھ میں لے اور امام حسین رضی اللہ عنہ سے لڑکر ان کا سرکاٹ لا، اگرابنِ سعد گرفتار نہ ہوا ہو اور لڑائی میں تامل کررہا ہوتوفوراً جاتے ہی لڑائی چھیڑدے اور کام کوجلدی ختم کردے، شمرذی الجوشن نے کہا کہ میںی ایک شرط ہے، وہ یہ کہ آپ کومعلوم ہے کہ میری بہن ام البنین بنتِ حرام حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیوی تھی جس کے بطن سے حضرت علی کے چار بیٹے، عبیداللہ، جعفر، عثمان، عباس پیدا ہوئے، میرے یہ چاروں بھانجے بھی اپنے بھائی حسین رضی اللہ عنہ کے ہمراہ میدانِ کربلا میں موجود ہیں، آپ ان چاروں کوجان کی امان دے دیں، عبداللہ بن زیاد نے اسی وقت کاغذ منگا کرچاروں کے لیئے امان نامہ لکھ کراور مہرلگاکرشمرذی الجوشن کے سپرد کیا اور اسی وقت اس کورخصت کردیا۔ جویرہ رات کے وقت روانہ ہوا تھا اور جمعرات کے دن علی الصباح لشکر گاہِ کربلا میں پہنچ گیا تھا، شمرصبح کے وقت روانہ ہوا اور عصر کے وقت پہنچا، شمر کے آنے پرتمام کیفیت جوپیش آئی تھی، سنادی، شمر نے کہا کہ میں توایک لمحہ کی بھی مہلت نہ دونگا یاتواسی وقت لڑائی کے لیئے مستعد ہوجاؤ؛ ورنہ لشکر میرے سپرد کردو، ابن سعد اسی وقت سوار ہوا اور شمر کوہمراہ لے کرامام حسین رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا کہ عبیداللہ بن زیاد نے یہ دوسرا قاصد بھیجا ہے اور مہلت آپ کوبالکل دینا نہیں چاہتا، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ سبحان اللہ اب مہلت کے دینے یانہ دینے کی کیا ضرورت ہے، آفتاب توغروب ہورہا ہے، کیا رات کے وقت بھی، تم لوگ جنگ کوکل کے لیئے ملتوی نہ رکھو گے، یہ سن کرشمرذی الجوشن نے بھی کل صبح تک کا انتظار مناسب سمجھا اور دوونوں اپنے لشکرگاہ کوواپس چلے آئے۔