انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ۶۵۔محمدؒ بن علیؒ بن حسینؓ نام ونسب محمد نام، ابو جعفر کنیت، باقر لقب،حضرت امام زین العابدین کے فرزند ارجمند تھے،ان کی ماں ام محمد حضرت امام حسن ؓ کی صاحبزادی تھیں، اس لیے آپ کی ذات گویا ریاض نبوی کے پھولوں کا وہ آتشہ عطر تھی۔ پیدائش صفر ۵۷ ھ میں مدینہ میں پیدا ہوئے،اس حساب سے ان کے جدبزرگوار حضرت امام حسین ؓ کی شہادت کے وقت ان کی عمر تین سال کی تھی۔ (ابن خلکان،جلد اول،ص ۴۵۰) فضل وکمال باقر اس معدن کے گوہر شب چراغ تھے،جس کے فیض سے ساری دنیا میں علم وعمل کی روشنی پھیلی،پھر حضرت امام زین العابدین جیسے مجمع البحرین باپ کے آغوش میں پرورش پائی تھی،ان موروثی اثرات کے علاوہ خود آپ میں فطرۃتحصیلِ علم کا ذوق تھا، ان اسباب نے مل کر آپ کو اس عہد کا ممتاز ترین عالم بنادیا تھا، وہ اپنے وفور علم کی وجہ سے باقر کے لقب سے ملقب ہوگئے تھےبقر کے معنی عربی میں پھاڑنے کے ہیں اسی سے البقرا لعلم ہے،یعنی وہ علم کو پھاڑ کر اس کی جڑ اوراندرونی اسرار سے واقف ہوگئے تھے (تذکرۃ الحفاظ،جلد اول،صفحہ۱۱۱ وتہذیب الاسماء نووی جلد اول ،ق اول ص ۱۸۷)بعض علماء ان کا علم ان کے والد بزرگوار سے بھی زیادہ وسیع سمجھتے تھے، محمد بن منکدر کا بیان ہے کہ میری نظر میں کوئی ایسا صاحب علم نہ تھا،جسے علی ابن حسین پر ترجیح دی جاسکتی ہے،یہاں تک کہ ان کے صاحبزادے محمد کو دیکھا (تہذیب التہذیب،ج ۹،ص۳۵۰) وہ اپنے عہد میں اپنے خاندان بھر کے سردار تھے،علامہ ذہبی لکھتے ہیں، کان سید بنی ھاشم فی زمانہ امام نووی لکھتے ہیں کہ وہ جلیل القدر تابعی اورامام بارع تھے، ان کی جلالت پر سب کا اتفاق ہے ان کا شمار مدینہ کے فقہا اور ائمہ میں تھا۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۱۱) حدیث حدیث ان کے گھر کی دولت تھی، اس لیے وہ اس کے سب سے زیادہ مستحق تھے،علامہ ابن سعد لکھتے ہیں،کان ثقۃ کثیرالحدیث والعلم اس گنج گراں مایہ کو انہوں نے اپنے والد محترم امام زین العابدین،اپنے نانا حضرت امام حسنؓ، اپنے دادا حضرت علیؓ، اپنے چچیرے دادا محمد بن حنفیہ اوراپنے جد امجد کے چچیرے بھائی عبداللہ بن جعفر اورعبداللہ بن عباس،اپنی دادی حضرت عائشہؓ اورام سلمہؓ وغیرہ کے مخزن سے بالواسطہ حاصل کیا تھا، یعنی ان بزرگوں سے ان کی روایات مرسل ہیں،اپنے گھر کے باہر انس بن مالکؓ، سعید بن مسیب،عبداللہ بن ابی رافع،حرملہ ،عطاء بن یسار یزید بن ہرمز اورابو مرہ وغیرہ سے مستفید ہوئے تھے۔ تلامذہ اس عہد کے بڑے آئمہ امام اوزاعی،اعمش،ابن جریج،امام زہری ،عمرو بن دینار اورابو اسحٰق،سبیعی وغیرہ کا برتابعین اورتبع تابعین کی بڑی جماعت آپ کے خرمن کمال کی خوشہ چین تھی۔ (تہذیب التہذیب:۹/۳۵۰) فقہ فقہ میں آپ کو خاص دستگاہ حاصل تھی،ابن برتی آپ کو فقیہ وفاضل کہتے ہیں امام نسائی فقہائے تابعین میں (ایضاً) اور امام نووی مدینہ کے فقہا اورآئمہ میں شمار کرتے ہیں۔ (ایضاً) زہد وعبادت آپ نے ان بزرگوں کے دامن میں پرورش پائی تھی جن کا مشغلہ ہی عبادت تھا اورایسے ماحول میں آپ کی نشو ونما ہوئی تھی جو ہر وقت خدا کے ذاکر اوراس کی تسبیح وتمحید سے گونجا کرتا تھا، اس لیے عبادت کی وہی روح آپ کے رگ وپے میں سرایت کر گئی تھی،عبادت وریاضت آپ کا محبوب مشغلہ تھا،شبانہ یوم میں ڈیڑھ سورکعتیں نماز پڑھتے (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۱۱)مسجدوں کی کثرت سے پیشانی پر نشان سجدہ تاباں تھا،لیکن زیادہ گہرانہ تھا۔ (ابن سعد،ج۵،ص۲۳۶) شیخین کے ساتھ عقیدت اپنے اسلاف کرام اور بزرگان عظام کی طرح شیخین کے ساتھ قلبی عقیدت رکھتے تھے،جابر کا بیان ہے کہ میں نے ایک مرتبہ محمد بن علی سے پوچھا کہ آپ کے اہل بیت میں کوئی ابوبکرؓوعمرؓ کو گالیان بھی دیتا تھا، فرمایا نہیں میں انہیں دوست رکھتا ہوں اوران کے لیے دعائے مغفرت کرتا ہوں۔ (ایضاً:۲۳۶) سالم بن ابی حفصہ کا بیان ہے کہ میں نے امام باقر اوران کے صاحبزادے جعفر صادق سے ابوبکرؓ وعمرؓ کے بارہ میں پوچھا،انہوں نے فرمایا سالم میں انہیں دوست رکھتا ہوں اوران کے دشمنوں سے تبری کرتا ہوں، یہ دونوں امام ہدی تھے میں نے اپنے اہل بیت میں سے ہر شخص کو ان کے ساتھ تو لا ہی کرتے پایا۔ (تہذیب التہذیب،ج ۹،ص ۳۵۱) صحت عقیدہ بعض جماعتوں نے بہت سے ایسے غلط عقائد ان بزرگوں کی طرف منسوب کردیئے ہیں، جن سے ان کا دامن بالکل پاک تھاوہ امور دین میں خالص اور بے آمیز اسلامی عقائد کے علاوہ کوئی جدید عقیدہ نہ رکھتے تھے،جائز روایت کرتے ہیں کہ میں نے محمد بن علی سے پوچھا کیا اہل بیت کرام میں سے کسی کا یہ خیال تھا کہ کوئی گناہ شرک ہے،فرمایا نہیں میں نے دوسرا سوال کیا،ان میں کوئی رجعت کا قائل تھا فرمایا نہیں۔ (ابن سعد:۵/۲۳۶) وفات مقام حمیہ میں انتقال فرمایا،لاش مدینہ لاکر جنت البقیع میں دفن کی گئی (ابن سعد:۵/۲۳۶) سنہ وفات کے بارہ میں بیانات مختلف ہیں،بعض ۱۱۴،بعض ۱۱۷ اوربعض ۱۱۸ بتاتے ہیں (ابن سعد:۵/۲۳۸)عمرکے بارہ میں وہ روایتیں ہیں ایک یہ کہ وہ اٹھاون سال کے تھے،دوسری یہ کہ وہ ۷۳ سال کے تھے،لیکن دوسری روایت قطعاً غلط ہے،پہلی اقرب الصحۃ ہے، اس لیے کہ ان کی پیدائش بالاتفاق ۵۷ میں ہوئی، اس حساب سے آپ کی عمر پہلے سنہ وفات کے مطابق اکسٹھ سال سے زیادہ ہوگی۔ اولاد امام باقر کی کئی اولادیں تھیں، جعفر،عبداللہ،یہ دونوں حضرت ابوبکرصدیقؓ کی پوتی ام فردہ کے بطن سے تھے، ابراہیم یہ ام حکیم بنت اسید کے بطن سے تھے،علی اورزینب یہ دونوں ام ولد سے تھے،ام سلمہ یہ بھی ام ولد سے تھیں ،ا ن میں جعفر المقلب بہ صادق سب میں نامور ہیں اور آپ کے جانشین تھے۔ (ابن سعد،ج ۵،ص۲۳۵) لباس امام باقر نہایت خوش لباس تھے،خز جو ایک بیش قیمت کپڑا ہے اور سادہ اوررنگین دونوں طرح کا لباس استعمال کرتے تھے،ابریشم کے بوٹے دار کپڑے بھی پہنتے تھے اور وسمہ اورکثم کا خضاب لگاتے تھے۔ (ایضاً)