انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** روح فرساحادثہ چند روز بعد اسی ماہِ صفر ۴ھ میں ابو براء عامر بن مالک بن جعفر بن کلاب بن ربیعہ بن عامر بن صعصعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی دعوت دی،وہ نہ تو مسلمان ہوا اورنہ اس نے اسلام کو نفرت کی نگاہوں سے دیکھا؛بلکہ کہنے لگا کہ مجھ کو اپنی قوم کا خیال ہے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ لوگوں کو میرے ساتھ کردیں کہ وہ نجد میں چل کر میری قوم کو اسلام کی طرف بلوائیں اورنصیحت کریں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھ کو اہلِ نجد سے اندیشہ ہے کہ وہ ان مسلمانوں کو نقصان نہ پہنچائیں،ابوبراء نے کہا کہ اس بات کا آپ مطلق اندیشہ نہ کریں، میں ان لوگوں کو اپنی حمایت میں لے لوں گا،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منذر بن عمرو سامدی کو ستر صحابیوں کے ساتھ روانہ فرمایا یہ سترا صحاب سب کے سب قاری اورقرآن کریم کے حفاظ تھے۔ جب یہ لوگ ارض بنو عامر اورحرہ بنو سلیم کے درمیان بیر معونہ پر پہنچے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خط حرم بن ملجانؓ کے ہاتھ عامر بن الطفیل کے پاس پہنچایہ عامر بن الطفیل ابو بن عامر بن مالک مذکور کا بھتیجا تھا،اس نے اس خط کو پڑھا تک نہیں اور حضرت حرم بن ملجانؓ کو شہید کردیا، پھر اپنی قوم بنو عامر کو ترغیب دی کہ ان تمام مسلمانوں کو قتل کردو، لیکن بنو عامر نے انکار کیا ،تب اس نے بنو سلیم سے کہا؛چنانچہ بنو سلیم کے سردار عل،ذکوان اور عصیہ آمادہ ہوگئے اوربلا جرم ظالموں نے سب کو شہید کرڈالا،ابو براء عامر بن مالک کو اس حادثہ کا بڑا رنج ہوا،کہ اس کی امان میں اس کے بھتیجے نے فتور ڈالا،اسی رنج میں چند روز کے بعد وہ مرگیا، عامر بن طفیل حضرت عمرو بن امیہ ضمری کو گرفتار کرکے لے گیا تھا، پھر ان کے چہرہ کے بال تراش کر اس نے چھوڑدیا تھا؛کیونکہ اس کی ماں نے ایک غلام آزاد کرنے کی منت مانی ہوئی تھی عامر بن طفیل نے اس منت کو پورا کرنے کے لئے ان کو چھوڑدیا،جب یہ قید سے چھوٹ کر بیر معونہ سے مدینہ کو آرہے تھے تو اُن کو دو شخص جو بنو عامر سے تھے،راستے میں ملے، عمروبن اُمیہ ضمریؓ نے ان کو دشمن سمجھ کر اورموقع پاکر انتقاماً قتل کردیا،مدینہ پہنچ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام حالات سے اطلاع دی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہینہ تک ان قاتلوں پر بددعافرمائی،عامربن طفیل ایک مہینہ بعد طاعون سے ہلاک ہوگیا۔