انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حج کا مسنون طریقہ اور اُس کے مقاصدوفوائد حج کا مسنون طریقہ حج کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ جو شخص حج کا ارادہ کرے وہ میقات سے اور اگر چاہے تو اس سے پہلے بھی احرام باندھے، احرام باندھنے سے پہلے مستحب یہ ہے کہ اپنے ناخن کاٹے اور مونچھ ترشوادے، پھرغسل یاوضو کرے ۱؎ (غسل بہتر ہے) اور دوچادر نئی یاپرانی صاف دھلی ہوئی پہن لے (اور سفید نئی ہو تو بہتر ہے) اور عطر (خوشبو) موجود ہو تو بدن پر لگائے ۲؎ دورکعت نفل نماز پڑھ کر یہ نیت کرلے "اللّٰھُمَّ إِنِّیْ أُرِیْدُ الحَجَّ فَیَسِّرْہُ لِیْ وَتَقَبَّلْہُ مِنِّیْ" (اے اللہ! میں حج کا ارادہ کرتا ہوں، اس کو میرے لیے آسان کردیجئے اور اسے قبول فرمائیے) اور اگر دل سے نیت کرے تب بھی کافی ہے؛ پھرنماز کے بعد تلبیہ پڑھے "لَبَّیْکَ اَللَّھُمَّ لَبَّیْکَ لَبَّیْکَ لَاشَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ۳؎، اِنَّ اَلْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْک لَاشَرِیْکَ لَکْ" پھر جب نیت اور تلبیہ پڑھ لیا تو وہ محرم ہوگیا اور تلبیہ کے بعد مستحب ہے کہ حضورﷺ پر درود پڑھے اور جو چاہے دعا کرے۴؎ اور جب محرم ہوگیا تو ہرشہوانی، فحش بات، جھگڑے، کسی جانور کے قتل، سلے ہوئے کپڑے، عمامہ، موزے، سراور چہرے کو ڈھانکنے، خوشبولگانے، سراور دیگر جگہ کے بال نکالنے اور ناخن نکالنے سے احتراز کریگا؛۵؎ البتہ غسل کرسکتا ہے اور نمازوں کے بعد کسی بلندی پر چڑھنے یاپستی میں اترنے، سواری چڑھنے اور صبح اٹھنے پر تلبیہ کی کثرت کرتا رہے گا اور جب شہرمکۃ المکرمۃ میں داخل ہو تو سامان وغیرہ قرینے سے رکھنے کے بعد پہلے مسجد حرام جائے اور باب السلام سے مسجدِحرام میں داخل ہو، جب کعبۃ اللہ پر نظر پڑے تو تکبیر، تہلیل کہے اور حجراسود کے پاس آکر اس کے مقابل ٹھہرکر تکبیر، تہلیل کہتے ہوئے اپنے ہاتھوں کونماز میں تکبیرِتحریمہ کی طرح کانوں تک اٹھائے؛ اگرممکن ہو تو حجراسود کا بوسہ لے یا اس کو اپنے ہاتھ سے چھولے اگر نہ چھوسکے تو اس کی طرف اشارہ کرے ہاتھ کو چوم لے؛ پھرطوافِ قدوم سات شوط حطیم کے پیچھے سے کرے، پہلی تین شوط میں رمل کرے (رمل: ایک خاص انداز کی چال کو کہتے ہیں جس میں طواف کے دوران سینہ تان کر ہاتھوں کو ہلاتے ہوئے قدموں کو قریب قریب رکھ کر اکڑ کر تیزی سے چلنا ہوتا ہے) اور باقی چار شوط میں معمول کے مطابق چلے اور ہرشوط میں حجراسود کو بوسہ یاہاتھ سے چھوئے ورنہ اس کی طرف ہاتھ سے اشارہ کرکے چوم لیا کرے اور طواف کے ختم ہونے کے بعد بھی حجر اسود کا استلام کرے پھر مقام ابراہیم کے قریب یاجہاں مسجد حرام کے حصہ میں سہولت ہو دورکعت اداکرلے پھرواپس آکر حجراسودکا استلام کرکے سعی کے لیے صفاومروہ کی طرف نکلے اور صفاومروہ کے درمیان سات چکر لگائے اور دوہری بتیوں کے درمیان دوڑے، صفا سے شروع کرے اور مروہ پر ختم کردے؛ پھرمکہ میں حالت احرام میں قیام کرے؛ اگر وہ قارن ہو؛ پھراس دوران جتنا بھی ہوسکے بیت اللہ شریف کا طواف کرتا رہے؛ پھریوم الترویہ یعنی ذی الحجہ کی آٹھویں تاریخ کو صبح فجر کی نماز کے بعد منی کے لیے روانہ ہوجائیں (مگر آج کل معلم کے لوگ حاجیوں کو ساتویں اور آٹھویں کی درمیانی شب میں ہی منیٰ لیجاتے ہیں لہٰذا انہیں کے ساتھ منی چلے جانا چاہیے؛ ورنہ پریشانی پیش آسکتی ہے) اور منی ہی میں ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور نویں ذی الحجہ کی فجر ادا کرے؛ پھرمیدان عرفات کا رخ کرے اور ممکن ہو تو جبلِ رحمت کے قریب ٹھیرے، آفتاب ڈھلنے کے بعد مسجدِنمرہ آجائے اور امیر کے ساتھ ظہروعصر کو جمع کرکے ظہر کے وقت ادا کرے اس موقعہ سے امیرِحج دوخطبہ دیگا اور دونوں کے درمیان بیٹھے گا، یہ دونوں نمازیں ایک اذان اور دواقامت کے ساتھ ادا کی جائیگی، ظہر کے بعد میدان عرفات میں وقوف کریگا، اس وقت غسل کرلینا مستحب ہے، تکبیر، تہلیل، تلبیہ اور دعا میں مصروف رہے؛ پھراسی دن سورج ڈوبنے کے بعد امام کے ساتھ مزدلفہ کے لیے روانہ ہوجائیں؛ جہاں موقع ہو تو تیز چلے، جہاں موقع نہ ہو اعتدال کے ساتھ چلے، مزدلفہ پہنچ کر ہی مغرب وعشاء کی نمازیں جمع کرکے عشاء کے وقت ادا کرے اور اس وقت اذان اور اقامت دونوں ایک ہی دفعہ کہی جائے، جبل قزح کے قریب پڑاؤ ڈالنے کی کوشش کرے، پوری رات مزدلفہ ہی میں بسر کرنی ہے اور بکثرت دعائیں کرنی ہے اور مزدلفہ ہی سے یاراستہ سے رمی کے لیے کنکری چن لے؛ پھر۱۰/ذی الحجہ یوم النحر کی فجر ابتدائے وقت میں پڑھ کر آفتاب نکلنے سے دورکعت کے بقدر پہلے منیٰ کی طرف روانہ ہوجائے، منیٰ پہنچنے کے زوال سے پہلے یااگرکوئی عذر ہو تو سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے بعد زوال سے پہلے یااگرکوئی عذر ہو توسورج غروب ہونے سے پہلے پہلے جمرۂ عقبہ کی سات کنکری کے ساتھ رمی کرے اور ہررمی پر تکبیر کہے اور پہلی کنکری پر ہی تلبیہ کو ترک کردے اس کے بعد قربانی کرے (اگر متمتع یاقارن ہو تو ضروری ہے) پھر قصر یاحلق کرے (اور حلق کرنا بہتر ہے) اب احرام کی ساری ممنوعات سوائے عورت کے ختم ہوجائیں گی اس کے بعد اسی دن یادوسرے یاتیسرے دن مکہ جاکر طوافِ زیارت کرلے یہ طواف حج کا دوسرا رکن ہے اور ان تین دنوں سے زیادہ مؤخر کرنا مکروہ تحریمی ہے اور جب طوافِ زیارت کرلیگا تو عورت کی ممانعت بھی باقی نہیں رہے گی؛ پھرمنیٰ واپس آکر رات گزارے۶؎۔ (۱)"عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَجَرَّدَ لِإِهْلَالِهِ وَاغْتَسَلَ" ترمذی، باب ماجاء فی الاغتسال عندالاحرام، حدیث نمبر:۷ (۲)"عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ طَيَّبْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدَيَّ بِذَرِيرَةٍ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ لِلْحِلِّ وَالْإِحْرَامِ" بخاری، باب الذریرۃ، حدیث نمبر:۵۴ (۳)"عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ تَلْبِيَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ" بخاری، باب التلبیہ، حدیث نمبر:۱۴۴۸۔ "عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا اسْتَوَتْ بِهِ رَاحِلَتُهُ قَائِمَةً عِنْدَ مَسْجِدِ ذِي الْحُلَيْفَةِ أَهَلَّ فَقَالَ لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ قَالُوا وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَقُولُ هَذِهِ تَلْبِيَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" "وَإِنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا كَانَ يَقُولُ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْكَعُ بِذِي الْحُلَيْفَةِ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ إِذَا اسْتَوَتْ بِهِ النَّاقَةُ قَائِمَةً عِنْدَ مَسْجِدِ ذِي الْحُلَيْفَةِ أَهَلَّ بِهَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ" مسلم، باب التلبیہ وصفتھا ووقتھا، حدیث نمبر:۲۰۳۰، ۲۰۳۱۔ (۴)"عَنْ خُزَیْمَۃَ بْنِ ثَابتٍ أَنَّ النَّبِىَّﷺ كَانَ إِذَا فَرَغَ مِنْ تَلْبِيَتِهِ سَأَلَ اللَّهَ تَعَالَى مَغْفِرَتَهُ وَرِضْوَانَهُ وَاسْتَعَاذَ بِرَحْمَتِهِ مِنَ النَّارِ" دارِقطنی، باب الحج، حدیث نمبر:۲۵ (۵)"عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَامَ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَاذَا تَأْمُرُنَا أَنْ نَلْبَسَ مِنْ الثِّيَابِ فِي الْإِحْرَامِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَلْبَسُوا الْقَمِيصَ وَلَا السَّرَاوِيلَاتِ وَلَا الْعَمَائِمَ وَلَا الْبَرَانِسَ إِلَّا أَنْ يَكُونَ أَحَدٌ لَيْسَتْ لَهُ نَعْلَانِ فَلْيَلْبَسْ الْخُفَّيْنِ وَلْيَقْطَعْ أَسْفَلَ مِنْ الْكَعْبَيْنِ وَلَاتَلْبَسُوا شَيْئًا مَسَّهُ زَعْفَرَانٌ وَلَا الْوَرْسُ وَلَا تَنْتَقِبْ الْمَرْأَةُ الْمُحْرِمَةُ وَلَا تَلْبَسْ الْقُفَّازَيْنِ" بخاری، باب ماینھی من الطیب للمحرم والمحرمۃ، حدیث نمبر:۱۷۰۷۔ (۶)"عَنْ جَابِرْ بْنِ عَبْدِ اللہِ قَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَثَ تِسْعَ سِنِينَ لَمْ يَحُجَّ ثُمَّ أَذَّنَ فِي النَّاسِ فِي الْعَاشِرَةِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِﷺ حَاجٌّ فَقَدِمَ الْمَدِينَةَ بَشَرٌ كَثِيرٌ كُلُّهُمْ يَلْتَمِسُ أَنْ يَأْتَمَّ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، الخ بطولہ" مسلم، باب حجۃ النبیﷺ، حدیث نمبر:۲۱۳۷۔ ۱۱/ذی الحجہ کو زوال کے بعد بالترتیب جمرۂ اولیٰ، جمرۂ ثانیہ اور جمرۂ عقبہ پر سات سات کنکریاں پھینکنی ہیں، رات پھر منیٰ میں بسرکرنی ہے اور ۱۲/ذی الحجہ کو بھی گیارہ ہی کی طرح تینوں جمرات پر رمی کرنا ہے، اس کے بعد مکہ آجائے، حج مکمل ہوگیا، چاہے تو آج بھی رات منیٰ میں گزارسکتا ہے؛ تاہم ۱۳/ذی الحجہ کی صبح منیٰ میں ہوگئی تو اب ۱۳/کو بھی رمی واجب ہوگئی، آج زوال سے پہلے بھی رمی کی جاسکتی ہے؛ بہتر زوال کے بعد ہے، اب مکہ جائے اور راستہ میں مکہ اور منی کے درمیان "محصب" نامی ایک کھلا میدان تھا (اس کو ابطح، بطحاء اور خیف بنی کنانہ بھی کہتے ہیں) وہاں کچھ دیر کے لیے توقف کرتا ہوا جائے۔ اب جب کہ حج کے افعال پورے ہوگئے تو حدود میقات سے باہر رہنے والوں کے لیے مکہ سے رخصت ہونے سے پہلے طوافِ وداع کرنا ہے، جب یہ طواف کرلے تو زم زم کے پاس آکر خوب سیراب ہوکر پانی پئے؛ پھربابِ کعبہ پر چوکھٹ کے پاس آئے؛ پھر ملتزم کے پاس آکر اپنے پیٹ کو کعبۃ اللہ سے چمٹا دے اور اپنے دائیں گال کو بھی اس سے لگادے اور کعبۃ اللہ کے غلاف کو تھام کر خوب دعائیں کرے اور رورو کر مانگے اور کعبۃ اللہ کو دیکھتے ہوئے پیچھے کی طرف لوٹ جائے۔ ("عَنْ جَابِرْ بْنِ عَبْدِ اللہِ قَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَثَ تِسْعَ سِنِينَ لَمْ يَحُجَّ ثُمَّ أَذَّنَ فِي النَّاسِ فِي الْعَاشِرَةِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَاجٌّ فَقَدِمَ الْمَدِينَةَ بَشَرٌ كَثِيرٌ كُلُّهُمْ يَلْتَمِسُ أَنْ يَأْتَمَّ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، الخ بطولہ" مسلم، باب حجۃ النبیﷺ، حدیث نمبر:۲۱۳۷۔ "عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ إِنَّمَا كَانَ مَنْزِلٌ يَنْزِلُهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيَكُونَ أَسْمَحَ لِخُرُوجِهِ يَعْنِي بِالْأَبْطَحِ" بخاری، باب المحصب، حدیث نمبر:۱۶۴۴۔ "عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ أُمِرَ النَّاسُ أَنْ يَكُونَ آخِرُ عَهْدِهِمْ بِالْبَيْتِ إِلَّا أَنَّهُ خُفِّفَ عَنْ الْحَائِضِ" بخاری، باب طواف الوداع، حدیث نمبر:۱۶۳۶۔ "عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ : كُنْتُ أَطُوفُ مَعَ أَبِى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ فَرَأَيْتُ قَوْمًا قَدِ الْتَزَمُوا الْبَيْتَ فَقُلْتُ لَهُ: انْطَلَقْ بِنَا نَلْتَزِمُ الْبَيْتَ مَعَ هَؤُلاَءِ فَقَالَ: أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ طَوَافِهِ الْتَزَمَ مَا بَيْنَ الْبَابِ وَالْحِجْرِ قَالَ: هَذَا وَاللَّهِ الْمَكَانُ الَّذِى رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِﷺ الْتَزَمَهُ" السنن الکبریٰ للبیھقی، باب الملتزم، حدیث نمبر:۹۶۰۱) عورت بھی مرد ہی کی طرح تمام ارکان اداکریگی، چند امور میں فرق ہے، عورت اپنے چہرے کو کھلا رکھے گی نہ کہ سرکو، اپنی آواز کو تلبیہ میں بلند نہ کرے، رمل نہ کرے، حلق نہ کرے، سلے ہوئے کپڑے پہنے؛ اگرمرد لوگ ہوں تو حجراسود کا استلام نہ کرے، احرام میں حیض آجائے تو غسل کرلے، حالت احرام ہی میں ارکان ادا کرتی رہے؛ مگرطوافِ زیارت پاک ہونے کے بعد ادا کرے۔ ("عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِىَّﷺ قَالَ لَيْسَ عَلَى الْمَرْأَةِ حَرَمٌ إِلاَّ فِى وَجْهِهَا" دارِقطنی، باب الحج، حدیث نمبر:۲۷۹۳۔ "عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ لَيْسَ عَلَى النِّسَاءِ رَمَلٌ بِالْبَيْتِ وَلاَ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ" دارقطنی، باب الحج، حدیث نمبر:۲۷۹۹۔ "عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ عَلَى النِّسَاءِ حَلْقٌ إِنَّمَا عَلَى النِّسَاءِ التَّقْصِيرُ" ابوداؤد، باب الحلق والتقصیر، حدیث نمبر:۱۶۹۳۔ "عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ فَأَهْلَلْنَا بِعُمْرَةٍ ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّﷺ مَنْ كَانَ مَعَهُ هَدْيٌ فَلْيُهِلَّ بِالْحَجِّ مَعَ الْعُمْرَةِ ثُمَّ لَا يَحِلَّ حَتَّى يَحِلَّ مِنْهُمَا جَمِيعًا فَقَدِمْتُ مَكَّةَ وَأَنَا حَائِضٌ وَلَمْ أَطُفْ بِالْبَيْتِ وَلَا بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ فَشَكَوْتُ ذَلِكَ إِلَى النَّبِيِّﷺ فَقَالَ انْقُضِي رَأْسَكِ وَامْتَشِطِي وَأَهِلِّي بِالْحَجِّ وَدَعِي الْعُمْرَةَ فَفَعَلْتُ فَلَمَّا قَضَيْنَا الْحَجَّ أَرْسَلَنِي النَّبِيُّﷺ مَعَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ إِلَى التَّنْعِيمِ فَاعْتَمَرْتُ فَقَالَ هَذِهِ مَكَانَ عُمْرَتِكِ قَالَتْ فَطَافَ الَّذِينَ كَانُوا أَهَلُّوا بِالْعُمْرَةِ بِالْبَيْتِ وَبَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ ثُمَّ حَلُّوا ثُمَّ طَافُوا طَوَافًا آخَرَ بَعْدَ أَنْ رَجَعُوا مِنْ مِنًى وَأَمَّا الَّذِينَ جَمَعُوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ فَإِنَّمَا طَافُوا طَوَافًا وَاحِدًا" بخاری، باب کیف تھل الحائض والنفساء، حدیث نمبر:۱۴۵۴) حج کے مقاصد حج کے مختلف مقاصد ہیں، ذیل میں حج کے چار اہم مقاصد ذکر کئے جاتے ہیں: (پہلا مقصد) حج سامانِ تطہیر ہے، حج آدمی کو گناہوں سے تو پاک صاف کرتا ہی ہے اس کے باطن کو بھی پاکیزہ بنادیتا ہے، کیونکہ باطن کی پاکی کے اسباب میں سے ایک اہم سبب ایسی جگہوں میں پہنچنا ہے جن کی نیک لوگ ہمیشہ تعظیم کرتے رہے ہوں، وہاں پہنچتے رہے ہوں اور ذکر اللہ سے ان جگہوں کو آباد کرتے رہے ہوں، ایسی بابرکت جگہوں میں پہنچ کر آدمی زمینی فرشتوں کی کامل توجہات کا مرکز بن جاتا ہے اور اہل خیرکے لیے ملأاعلیٰ (آسمانی فرشتوں) کی عمومی دعاؤں کا رخ بھی اس کی طرف مڑجاتا ہے، ایسی جگہوں پر پہنچ کر آدمی پر ملکوتی انوار چھاجاتے ہیں۔ (دوسرامقصد)حج ذکر الہٰی ہے، دین کی یادگاروں کو دیکھنا اور ان کی تعظیم کرنا بذات خود اللہ کا ذکر ہے؛ کیونکہ جب شعائر الہٰیہ نظر آتے ہیں تو خود بخود اللہ تعالیٰ یاد آجاتے ہیں خاص طور پر جبکہ آدمی اپنی شکل وصورت بھی ایسی بنائے ہوئے ہوں جس سے تعظیم ٹپکتی ہو اور ایسی شرائط وقیود کی پابندی کررہا ہو جو نفس کو بہت زیادہ چوکنا کرنے والی اور غفلت دور کرنے والی ہو۔ (تیسرامقصد)حج "وصل حبیب" (حبیب سے ملنے) کی ایک شکل ہے، کبھی آدمی کے دل میں اللہ سے ملنے کا بے پناہ جذبہ ابھرتا ہے، وہ شوق ملاقات میں تڑپتا ہے مگر عالم ناسوت میں وصال ممکن نہیں ہوتا تو اس کے جذبہ کی تسکین کے لیے کوئی ایسی چیز ضروری ہوتی ہے جس سے وہ دل بہلائے، ایسی چیز حج کی عبادت ہے اس کے علاوہ کوئی ایسی چیز نہیں جو اس کے جذبہ کی تسکین کرسکے۔ (چوتھا مقصد) حج ملی شان وشوکت اور باہمی تعارف کا ذریعہ ہے، ہرحکومت وقفہ وقفہ سے دربار عام منعقد کرتی ہے اور اس میں مملکت کے چیدہ لوگوں کو مدعو کرتی ہے اور اجتماع کے مقاصد مثال کے طور پر درجِ ذیل ہوتے ہیں: (۱)بادشاہ اور حکومت کی شہرت کرنا۔ (۲)باشندگان مملکت کا باہم ملنا اور ایک دوسرے سے متعارف ہونا۔ اسی طرح ملت اسلامیہ کے لیے حج کی ضرورت ہے، حج کے عالمگیر اجتماع میں مثال کے طور پر درجِ ذیل فوائد ہیں: ۱۔مخلص ومنافق میں امتیاز کرنا جو ایمان میں سچا ہوگا وہ بدنی ومالی حیثیت سے جب بیت اللہ تک پہنچنے کی قدرت رکھتا ہوگا تو ضرور حاضری دیگا اور جو ایمان کا دعوے دار یہ زحمت اٹھانے سے انکار کریگا؛ گوعملاً ہی سہی وہ دعوئے محبت میں جھوٹا ہے۔ ۲۔دنیا جہاں کے لوگوں کے سامنے مسلمانوں کی تعداد کا آنا کہ وہ دنیا میں کتنے ہیں؟ اور کہاں رہتے ہیں؟ اور وہ اس طرح کہ جو لوگ ہرسال حج کے لیے آتے ہیں وہ مسلمانوں کی مجموعی تعداد کا ہزارواں حصہ بھی نہیں ہوتے؛ لہٰذا لوگ حاجیوں کی تعداد سے اندازہ کرلیں گے کہ دنیا میں مسلمانوں کی تعداد کتنی ہوسکتی ہے اور وہ کہاں کہاں رہتے ہیں؟۔ ۳۔حج کے اجتماع میں دنیا کے بڑے بڑے لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے اور ایک دوسرے سے تمدنی سیاسی اور علمی مسائل پر تبادلۂ خیال ہوتا ہے، علوم وفنون اور خصوصی کمالات وامتیازات میں لوگ ایک دوسرے سے استفادہ کرتے ہیں۔ (حجۃ اللہ البالغہ علی رحمۃ اللہ الواسعۃ: ۱/۷۶۵، مصنف: حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ، مطبوعہ: مکتبہ حجاز دیوبند) حج کےفوائد وحِکم (پہلا فائدہ)حج رواجی برائیوں سے بچاتا ہے یعنی ہرشخص ہروقت حج کے لیے فکر مند رہے تو وہ رسوم کی آفتوں سے بچ جاتا ہے فضول خرچی نہیں کرتا، شادی بیاہ میں پیسہ نہیں اڑاتا، عیش وعشرت میں دولت برباد نہیں کرتا، ہروقت اس پر حج کے لیے رقم جمع کرنے کی فکر سوار رہتی ہے اس لیے وہ بہت سی رواجی برائیوں سے بچ جاتا ہے اور جب زندگی گزارنے کا ایک نہج بن جاتا ہے تو وہ حج کے بعد بھی رسوم میں پیسہ برباد نہیں کرتا۔ (دوسرا فائدہ) حج اکابر ملت کے احوال یاد دلاتا ہے اور ان کو اپنانے کی ترغیب دیتا ہے، ملت اسلامیہ کے اکابر سیدنا ابراہیم، سیدنااسماعیل اور سیدالمرسلین خاتم النبیین حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہم اجمعین ہیں، یہ حضرات امت اسلامیہ کے لیے اسوہ ہیں، حج میں ان بزرگوں کے احوال کی یادتازہ ہوتی ہے اور ان کی پیروی کا جذبہ ابھرتا ہے، حرمین میں پہنچ کر حضورﷺ کی زندگی کا ایک ایک واقعہ اور آپ کی تریسٹھ سالہ زندگی کے شب وروز نگاہوں کے سامنے آجاتے ہیں اور شدت سے یہ جذبہ دل میں ابھرتا ہے کہ آپﷺ کی پیروی ہی میں دونوں جہاں کی سعادت مضمر ہے۔ (تیسرافائدہ)حج مبرور سے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں؛ چونکہ حج کے لیے دوردراز کا سفر کرنا پڑتا ہے، بڑی رقم خرچ کرنی پڑتی ہے اور طرح طرح کی مشقتوں سے گزرنا پڑتا ہے، اس لیے اگر انسان خالص اللہ تعالیٰ کے لیے حج کرے اور تمام آداب کی رعایت کے ساتھ کرے تو حج سے تمام سابقہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں، بہرحال حج کفارۂ سیئات ہونے میں ایمان اور ہجرت کی طرح ہے، ایمان قبول کرنا بھی معمولی عمل نہیں ہے، بڑے دل گُردے کا کام ہے، نومسلموں کو ایمان لانے کے بعد بے انتہاء سختیوں سے گزرنا پڑتا ہے؛ یہی حال ہجرت کا ہے، اعزاء واقربائ، مال ودولت اور وطن کو خیرباد کہنا پڑتا ہے، یہ کوئی معمولی حوصلہ کا کام نہیں ہے، اس لیے تینوں اعمال کا صلہ یہ ہے کہ وہ سابقہ تمام گناہوں کو ڈھادیتا ہے۔ (حجۃ اللہ البالغہ، باب اسرارالحج: ۱/۱۵۹، مصنف: حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ)