انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حدیث لکھنے کی ممانعت __________ پہلے دور میں حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہم نے حضور اکرمﷺ سے (حدیث ) لکھنے کی اجازت مانگی آپ نے ہمیں اس کی اجازت نہ دی، امام ترمذیؒ نے اس پر "کراہیۃ کتابہ العلم" کا باب باندھا ہے اور ظاہر ہے کہ علم ان دنوں حدیث کو ہی کہتے تھے، امام ترمذی اس کے بعد باب لائےہیں "باب فی الرخصۃ فیہ" ( لکھنے کی اجازت کے بیان میں)۔ اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ممانعت کا حکم ابتداء اسلام میں تھا، منشاء رسالت یہ تھا کہ لوگ آپ کی باتوں کو عمل میں اتاریں اوراس طرح سنت کا تحفظ ہو، لوگ اگر اسے لکھنے لگیں گے تو یہ صرف ایک یادگار رہ جائے گی، علم اعمال میں نہیں اسفار میں آجائے گا پھرآپ نے جب دیکھا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم آپ کی ایک ایک ادا کو عملا یاد رکھے ہوئے ہیں تو آپ نے توثیق مزید کے لیے لکھنے کی اجازت بھی دے دی، یہ وجہ بھی ہوسکتی ہے کہ نزول قرآن کے زمانے میں دوسری دستاویزات ساتھ نہ رہنے پائیں؛ تاکہ کلام قدیم اورکلام حدیث میں کہیں خلط واقع نہ ہو، آمیزش نہ ہونے پائے، حفاظت قرآن کا تقاضا تھا کہ قرآن کے ساتھ اور کوئی چیز لکھنے میں نہ آئے، جب یہ اندیشہ جاتا رہا تو آپﷺ نے لکھنے کی اجازت دے دی اور اگر اس ممانعت کا مطلب یہ لیا جائے ؛کہ آنحضرتﷺ کے نزدیک حدیث سرے سے حجت نہ تھی اورآپ امت کو صرف قرآن کے گھاٹ اتارنا چاہتے تھے تو یہ مطلب آنحضرتﷺ کے ان ارشادات کے صریحا خلاف ہوگا جن میں آپ نے فرمایا: "لَاأُلْفِيَنَّ أَحَدَكُمْ مُتَّكِئًا عَلَى أَرِيكَتِهِ يَأْتِيهِ أَمْرٌ مِمَّا أَمَرْتُ بِهِ أَوْ نَهَيْتُ عَنْهُ فَيَقُولُ لَاأَدْرِي مَا وَجَدْنَا فِي كِتَابِ اللَّهِ اتَّبَعْنَاهُ"۔ میں تم لوگوں میں کسی شخص کو اس حالت میں نہ پاؤں کہ وہ تخت پر تکیہ لگائے بیٹھا ہو اور اس کے پاس کوئی ایسی بات آئے جس کا میں نے حکم دیا یا جس جس سے منع کیاتووہ کہے میں نہیں جانتا ہم تو جو چیز قرآن میں پائیں گے اس کی پیروی کریں گے ۔ (سنن الترمذی،باب مانھی عنہ ان یقال عند حدیث، حدیث نمبر:۲۵۸۷) اوریہ خیال ان روایات کے بھی صریح خلاف ہوگا جن میں آپ نے صحابہؓ سے کہا کہ مجھ سے جو چیز بھی سنواسے آگے پہنچادیا کرو اور جس نے مجھ پر کوئی جھوٹ باندھا اسے چاہئے کہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے،جب وہ اندیشے اٹھ گئے جن کے پیش نظر آپ نے حدیث لکھنے کی ممانعت کی تھی تو صحابہ و تابعین صحن تدوین میں نکل آئے۔