انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** یہودِ مدینہ سے معاہدہ مندرجہ بالا مقاصد کو پیش نظر رکھ کر حضور اکرم ﷺ نے مدینہ تشریف لانے کے چند ماہ بعد یہو دِ مدینہ سے معاہدہ فرمایا جسے مورخین نے صحیفہ ( دستور العمل اور فرائض نامہ) اور کتاب (یعنی لکھا ہوا) اور میثاق مدینہ کے ناموں سے موسوم کیا ہے، اس معاہدہ کی تاریخ کاعام طور پر ذکر نہیں آتامگر تاریخ الخمیس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہجرت کے پانچ ماہ بعد ہوا۔ ( مصباح الدین شکیل ، سیرت احمد مجتبیٰ) ڈاکٹر محمد حمیدا للہ نے میثاق مدینہ کے ۴۷ دفعات بیان کئے ہیں جن میں دفعات ۱ تا ۲۳ حضور ﷺ کے مدینہ آنے کے چند مہینوں کے اندر مرتب ہوئیں کیونکہ ان کے پڑھنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ حصہ " دستورالمہاجرین و الانصار" ہے اوردفعات ۲۴تا ۴۷پڑھنے سے معلوم ہو تا ہے کہ یہ" دستور العمل یہودیاں" ہے۔ اس معاہدہ کی اہم دفعات یہ تھیں: (۱) مہاجرین ، انصار اور دوسرے قبائل کے مسلمان سب مل جل کر ایک جماعت کی حیثیت سے رہیں گے، مختلف قبائل کے یہود جو اس معاہدہ میں شریک ہیں وہ بھی حقوق و فرائض کے لحاظ سے اسی جماعت میں شامل سمجھے جائیں گے، اُن کی مد د مسلمانوں پر ضروری ہوگی اور ان کو کسی قسم کے ظلم کا شکار نہ ہونے دیا جائے گا۔ (۲) یہودیوں کو پوری مذہبی آزادی حاصل ہو گی، ان کے مذہبی معاملات میں کسی قسم کی مداخلت نہ کی جائے گی۔ (۳) کوئی غیر مسلم شریک معاہدہ، قریش کو (جو مسلمانوں سے بر سر پیکار ہیں) مال و جان کی امان نہ دے گا اور نہ مسلمانوں کے مقابلہ میں ان کا مدد گار ہوگا۔ (۴) جو اس معاہدہ کے شرکاء سے جنگ کرے گا اس کے مقابلہ میں سب ایک دوسرے کے مددگار ہوں گے اور آپس میں ہمدردی اور بھلائی کا برتاؤ کریں گے، کوئی اپنے حلیف کو نقصان نہ پہنچائے گا۔ (۵) شرکاء معاہدہ مدینہ منورہ میں امن قائم رکھنے کے ذمہ دار ہوں گے۔ (۶) اگرایک فریق کسی دشمن سے صلح کرے گا تو دوسرا بھی اس میں شریک ہوگا، مگر مذہبی جنگ کرنے والوں سے یہ صلح نہ ہو سکے گی۔ (۷) ہر اختلافی معاملہ کا فیصلہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسو ل محمد ﷺ کے حکم کے مطابق ہوگا۔(سیرت ابن ہشام بحوالہ سیرت طیبہ) مدینہ منورہ اور اس کی آس پاس کی بستیوں کی زمینیں زیادہ تر یہودیوں کے قبضہ میں تھیں، مدینہ منورہ کی تجارت اور ساہوکاری بھی ان ہی کے ہاتھ میں تھی، اس کے علاوہ اہل کتاب ہونے کی وجہ سے تعلیم کا رواج بھی ان ہی میں زیادہ تھا، دوسری طرف انصارکے دونوں قبیلے اوس و خزرج کاشتکار پیشہ تھے،یہ آپس میں متحد نہ تھے اور باہمی لڑائیو ں نے ان کی طاقت توڑ کر رکھدی تھی، یہودی ان کے اختلافات کو ہوا دیتے تھے تاکہ ان کے مقابلہ میں کبھی سر نہ اٹھا سکیں، اس لئے آ نحضرت ﷺکے مدینہ منورہ تشریف لانے تک یہودیوں کی حیثیت بر سرِ اقتدار قوم کی تھی، مگر حضور ﷺ کے تشریف لانے کے بعد یہودیوں کی یہ حیثیت باقی نہ رہی، انصار کے دونوں قبیلے اوس و خزرج والوں نے اسلام قبول کر لیا، یہودیوں کی حیثیت ایک اقلیت کی ہو گئی بلکہ معاہدہ کی آخری شرط کی رو سے یہودیوں نے آنحضرت ﷺ کو مدینہ منورہ کا حاکم اعلیٰ تسلیم کر لیا،یوں حالات کی مجبوریوں سے یہودی بظاہر مسلمان کے دوست بن گئے مگر دل میں حسد رکھنے لگے اورمسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے لئے موقع کے منتظر رہے۔