انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** اجتماعی وسیاسی تعلقات بعثت نبوی سے قبل یہوودیوں کے سیاسی، تمدنی اثرات کا جائزہ لینے اور ان کی اخلاقی اور دینی حالت کاتذکرہ کرنے کے بعد مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ظہورِ اسلام کے بعد ان میں اور مسلمانوں میں باہم جوسیاسی واجتماعی تعلقات پیدا ہوئے اور اس سے جوفوائد اور مضارمنتج ہوئے اس پربھی ایک نظرڈال لی جائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت مکہ میں ہوئی اور ذکر اُوپرآچکا ہے کہ مکہ میں یہود نہیں تھے، اس لیے مکی زندگی میں براہِ راست ان سے کوئی سیاسی واجتماعی تعلق نہیں پیدا ہوا؛ لیکن دعوت وتبلیغ کے سلسلہ میں جوابتدائی سورتیں نازَ ہوئیں ان میں حسب ضرورت اگلے انبیاء خصوصاً حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر ملتا ہے، مثلاً سورۂ مزمل میں جوبالکل ابتدائی سورتوں میں ہے، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کا ذکر ملتا ہے؛ پھرسورۂ اعلیٰ میں صحف موسیٰ علیہ السلام کا تذکرہ بھی آتا ہے؛ اسی طرح اس کے بعد نازل وہنے والی سورتوں مثلاً سورۂ قمر، سورۂ ق اور سورۂ بروج وغیرہ میں بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کامیابی اور فرعون کے برے انجام کی طرف اشارہ کیا گیا ہے؛ غرض مکہ کے ابتدائی سالوں میں براہِ راست یہود سے قرآن نے خطاب نہیں کیا، محض دعوت وتبلیغ کے نقطہ نظر سے اس نے ان مشہور واقعات کی طرف اشارہ کردیا جس سے اہلِ مکہ واقف تھے؛ تاکہ وہ عبرت حاصل کریں۔ مکی سورتوں میں سب سے پہلے سورۂ اعراف میں ذراتفصیل سے، بنی اسرائیل کے نام سے ان کا تذکرہ ملتا ہے جس میں متعدد انعاماتِ الہٰی کوگنایا گیا ہے اور ان کی بار بار کی ناشکری واحسان ناشناسی کا ذکرکیا گیا ہے، اس سورہ میں یہ بھی ذکر آیا ہے کہ تورات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی موجود ہے، ان واقعات کی تفصیل اس سورہ کے رکوع نمبر ۱۲/ سے ۱۸/ تک میں موجود ہے؛ اگران میں سے ان آیتوں کونکال دیا جائے جن کومفسرین مدنی باتے ہیں تب بھی یہود کی ابتدائی تاریخ کا خلاصہ مکہ میں نازل ہوچکا تھا (ابن جریج قتادہ وغیرہ سے مروی ہے کہ اس سورہ میں یہ آیت الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا (الأعراف:۱۵۷) ان یہود کے بارے میں نازل ہوئی؛ جنھوں نے اس سے پہلی والی آیت کے بارے میں جس میں تقویٰ اور زکوٰۃ کا ذکر ہے، کہا تھا کہ ہم بھی توتقویٰ کے حامل ہیں اور زکوٰہ نکالتے ہیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اب براہِ راست بھی یہود بحث مباحثہ کرنے لگے تھے؛ مگراس کے علاوہ دوسری کوئی شہادت ہم کونہیں ملی جس سے مکہ میں براہِ راست ان سے سوال وجواب کی تائید ہوتی ہو، اس لیے اس کا ذکر کیا گیا) اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ رفتہ رفتہ قرآن میں بنی اسرائیل کا تذکرہ وسیع ہوتا جارہا تھا۔ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اور دعوت کوکئی برس گذرچکے تھے؛ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ ابتداءً اہلِ مکہ نے قرآن کے بیان کردہ واقعات خصوصاً وہ جویہود سے متعلق تھے ان کی طرف کچھ زیادہ دھیان نہیں دیا؛ لیکن جب قرآن نے بار بار ان کا اعادہ کیا توان کوان کی تردید کا خیال پیدا ہوا ہوگا، مدینہ اور خیبر کے یہودیوں سے ان کے قدیم تعلقات تھے، اس لیے انھو ںنے ان سے یاطائف اور بنوکنانہ کے یہود سے جوان کے قریب ہی رہتے تھے، ان واقعات کی صداقت اور عدم صداقت اور آپ کی نبوت کے بارے میں سوالات کرتے رہے ہوں گے؛ جیسا کہ مفسرین اور بعض محدثین نے لکھا ہے کہ رُوح (روح کے سلسلہ میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سوال مدینہ میں کیا گیا تھا؛ مگرترمذی میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اہلِ مکہ نے یہود سے کہا کہ ہم کوکچھ ایسی باتیں بتاؤ جن کے متعلق ہم محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سے سوال کریں، اس کے جواب میں یہود نے ان سے کہ روح کے بارے میں ان سے سوال کرو! فتح الباری، جلد:۸، صفحہ نمبر:۳۰۳، اصحابِ کہف کے سلسلہ میں طبری میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ خود یہود نے اہلِ مکہ سے ان چیزوں کے بارے میں سوالات کرنے کے لیے کہا تھا؛ بہرنوع دونوں باتیں بیک وقت ممکن ہیں، اس میں کوئی تضاد نہیں، سیرکی کتابوں میں تذکرہ آتا ہے کہ قریش نے ایک وفد بھی یہود مدینہ کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے بارے میں دریافت کرنے کے لیے بھیجا تھا، ممکن ہے یہ اسی وقت کا واقعہ ہو) اصحاب کہف اور ذوالقرنین وغیرہ کے بارے میں جوآیات نازل ہوئیں وہ درحقیقت کفار عرب کے ان سوالات کے جوابات میں جوانہوں نے یہود سے پوچھ کرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے متعلق کیے تھے، اصحاب کہف کے متعلق توحضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ خود یہود مدینہ نے اہلِ مکہ سے کہا تھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سے ان کے بارے میں سوال کرو؛ اگروہ نبی ہوں گے توجواب دیں گے۔ (طبری:۱۵/۱۱۸) لیکن اب تک یعنی سورۂ بنی اسرائیل کے نزول تک جوکچھ ان کے بارے میں کہا گیا یاتواہلِ عرب کوبراہِ راست خطاب کرکے کہا گیا یاپھرغائب کے صیغہ سے کہا گیا، خود یہودیوں کوبراہِ راست خطاب نہیں کیا گیا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ واقعہ معراج سے پہلے تک یہود سے براہِ راست تعلق نہیں پیدا ہوا تھا، سورۂ اسراء کے بعد سورۂ یونس کا نزول ہوتا ہے، اس میں بھی یہود کی پچھلی تاریخ کودہرایا گیا اور مزید یہ بتایا گیا کہ انھوں نے دین کے بارے میں علم الہٰی آجانے کے بعد بھی اختلاف کیا؛ پھرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطہ سے ان قرآنی قصوں میں شک کرنے والوں کوخطاب کرکے ارشاد ہوا: فَاسْأَلِ الَّذِينَ يَقْرَءُونَ الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكَ۔ (یونس:۹۴) ترجمہ:توآپ ان لوگوں سے دریافت کیجئے جوآپ سے پہلے نازَ ہونے والی کتابوں کوپڑھتے ہیں (یعنی تورات وانجیل)۔ اس آیت سے دوباتی ںمعلوم ہوتی ہیں، ایک تویہ کہ یہود میں اس وقت ایسے صالح الفطرت لوگ موجود تھے جواظہار حق کرسکتے تھے اور دوسری یہ کہ اب ان میں اور مسلمانوں میں براہِ راست سوال وجواب کے امکانات پیدا ہوگئے تھے؛ لیکن ان امکانات کے لیے قرآن کی اندرونی شہادت تاریخِ نزول قرآن اور بعض واقعات کی ترتیب کے علاوہ کوئی خارجی ثبوت نہیں ملتا، اس لیے اس سلسلہ میں جوکچھ بھی لکھا جائے گا اس میں غلطی کا امکان ہے؛ مگرعاجز قرآن وسیرت کے مطالعہ سے اپنی حد تک جوکچھ بھی اخذ کرسکا، اس پراسے وثوق ہے اس لیے اسے پیش کرنے کی جرأت کررہا ہے، واللہ اعلم بالصواب۔ صحیح روایتوں کے مطابق معراج کا واقعہ ہجرت سے ڈیڑھ سال پہلے پیش آیا، ظاہر ہے کہ سورۂ اسراء (یعنی سورۂ بنی اسرائیل) اس کے بعد ہی نازَ ہوئی اور سورۂ یونس جس میں اُوپروالی آیت مذکور ہے، سورۂ اسراء کے بعد نازل ہوئی۔ اہلِ مدینہ کے متعلق تمام ارباب سیر لکھتے ہیں کہ ہجرت سے تین سال پہلے یعنی سنہ۱۰نبوی میں ان کے چھ آدمیوں نے اسلام قبول کیا، جونزول سورۂ اسراء سے پہلے کا واقعہ ہے، ظاہر ہے کہ یہ لوگ اسلام قبول کرنے کے بعد مدینہ میں جاکر خاموش نہیں بیٹھیں گے، اسلام کا پیغام دوسروں تک پہنچایا ہوگا، عام طور سے ان کے اسلام کا چرچا ہوا ہوگا، عام اہلِ مدینہ نے جس میں یہودی بھی تھے، اسے جانا بھی ہوگا، ہمارے نزدیک اسی کا اثر تھا کہ دوسرے سال سنہ۱۱نبوی میں یہ تعداد دُگنی ہوگئی اور ۱۲/آدمیوں نے آکرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی اور خواہش ظاہر کی کہ ہمارے ساتھ کسی کوکردیا جائے جووہاں رہ کرہم کواسلام کی تعلیم دے؛ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کوان کے ساھت کردیا، حضرت مصعب بن عمیر مدینہ پہنچے توگھر گھر جاکر اسلام کا پیغام پہنچایا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جلد ہی مسلمانوں کی تعداد پہلے سے کئی گنازیادہ ہوگئی؛ یہود جومدینہ میں ہرطرف پھیلے ہوئے تھے جن سے انصار کا دن رات کا تعلق تھا خود بھی ایک مذہب اور شریعت کے حامل تھے، ان کی اس حیثیت کی بناپر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اہلِ مکہ بغرضِ تحقیق ان کے پاس آبھی چکے تھے؛ انھوں نے اس نئے دین کے بارے میں اگرانصار سے سوال وجواب اور بحث ومباحثہ شروع کردیا ہوتوکوئی تعجب نہیں اور بعض روایتوں سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ وہ آپ کی نبوت کے منتظر تھے (اس کتاب میں متعدد جگہ اس کا ثبوت ملے گا) جیسا کہ کتب سیر میں ہے کہ آپ نے اہلِ مدینہ کے سامنے عقبہ میں سب سے پہلے اسلام پیش کیا تووہ یہ کہہ کراسلام لائے کہ ایسا نہ ہوکہ یہود ہم سے اس فضل میں سبقت لے جائیں۔ (سیرۃ النبی:۱/۱۶۲، بحوالہ زرقانی اور ابن سعد) ان وجوہ کی بناپرعاجز کا خیال ہے کہ اس آیت کی تفسیر میں بعض مفسرین نے جومؤمنین اہلِ کتاب کا نام لیا ہے وہ صحیح نہیں ہے (جیسا کہ اس سلسلہ میں مفسرین نے عبداللہ بن سلام اور تمیم داری کا نام لیا ہے؛ مگرظاہر ہے کہ یہ سورت اور پھریہ آیت مکی ہے اس لیے اس سے ان کومراد لینا صحیح نہیں ہوسکتا) اور نہ یہ صحیح ہے کہ مکہ میں بھی یہود تھے (بعض مستشرقین کا یہی خیال ہے، اس کی تفصیل اُوپر آچکی ہے) بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ ہجرت سے پہلے ہی انصار مدینہ اور یہود کے درمیان اسلام کے بارے میں گفتگو اور بحث مباحثہ کا آغاز ہوچکا تھا اورانھوں نے ان کی کچھ نہ کچھ مخالفت بھی شروع کردی تھی؛ جیسا کہ آیت کے سیاق وسباق سے بھی پتہ چلتا ہے، ان ہی تعلقات کی بناء پرآیت میں کہا جارہا ہے کہ آپ ان لوگوں سے (مسلمانوں کے ذریعہ) تحقیق کرلیجئے جوکتاب کے عالم ہیں۔ بیانِ مذکورۂ بالا سے واضح ہوا ہوگا کہ ابتداً اسلام کے مقابلہ میں یہود کا رویہ معاندانہ نہیں تھا؛ بلکہ بڑی حد تک وہ اسلام کی صداقت کے معترف بھی تھے؛ مگرجوں جوں اسلام کی تعلیمات سے واقف ہوتے ئے ان کی مخالفت اور دشمنی بڑھتی گئی، سورۂ یونس کے بعد ہود اور حٰم سجدہ وغیرہ سورتیں نازل ہوئیں جن میں ان کے متعلق بار بار یہ بات دہرائی گئی کہ یہ جان بوجھ کرقرآن کا انکار کررہے ہیں۔ ان سورتں کے بعد سورۂ غاشیہ کا نزول ہوا، اس میں بھی قریب قریب وہی بات دہرائی گئی؛ پھرسورۂ صافات نازل ہوئی جس میں ان کی کتاب تورات کواماماً ورحمۃ کے الفاظ سے یا دکیا گیا اور قرآن کواس کا حریف نہیں بلکہ موید قرار دیا گیا؛ پھرسورۂ انبیاء اُتری اس میں اس کو الفرقان اور ضیا کہا گیا؛ لیکن اس ترہیب وترغیب کے باوجود یہود کی روش میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہوئی؛ بلکہ اسلام اور مسلمانوں کی مخالفت میں وہ اور زیادہ سخت ہوگئے اور اہلِ مکہ کوجیسا کہ قرآن میں ہے پہلے سے زیادہ اسلام کے خلاف اُکسانے اور اعتراض کے لیے اُبھارنے لگے؛ چنانچہ سورۂ انعام میں کھانے پینے سے متعلق مرحمات کے سلسلہ میں ان کے اعتراضات کا جواب ذراسحت انداز سے اور خاص طور سے ان کی طرف اشارہ کرکے دیا گیا ہے، ارشاد ہوتا ہے: وَعَلَى الَّذِينَ هَادُوا حَرَّمْنَا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ۔ (الأنعام:۱۴۶) ترجمہ: اور یہودیوں پرہم نے تمام ناخن والے جانور حرام کردیے تھے۔ سورۂ نحل میں مکرر ارشاد ہے: وَعَلَى الَّذِينَ هَادُوا حَرَّمْنَا مَا قَصَصْنَا عَلَيْكَ مِنْ قَبْلُ۔ (النحل:۱۱۸) ترجمہ: اور یہودیوں پرہم نے وہ چیزیں حرام کردی تھیں جن کا بیان ہم اس سے قبل آپ سے کرچکے ہیں۔ ان دونوں آیتوں میں الَّذِينَ هَادُوا کےالفاظ خاص طور سے قابل غور ہیں، اس سے پہلے ان الفاظ کے ساتھ ان کویاد نہیں کیا گیا تھا؛ پھردونوں آیتوں کے آخر میں کہا گیا: ذَلِكَ جَزَيْنَاهُمْ بِبَغْيِهِمْ (الأنعام:۱۴۶) ترجمہ: ان کی شرارت کے سبب ہم نے ان کویہ سزا دی تھی۔ وَمَا ظَلَمْنَاهُمْ وَلَكِنْ كَانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ۔ (النحل:۱۱۸) ترجمہ:ہم نے ان پرکوئی زیادتی نہیں کی؛ لیکن وہ خود اپنے اُوپر زیادتی کرتے تھے۔ یہود اور مسلمانوں کے درمیان تعلقات کا جوارتقاء قرآن کی آیات سے دکھایا گیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہجرت سے پہلے ہی چند حق پسند اور صالح فطرت افراد کے علاوہ پوری قوم یہود میں رفتہ رفتہ اسلام وشارعِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کی مخالفت کا جذبہ پیدا ہونا شروع ہوگیا تھا اور اس مخالفت کا اظہار بھی کبھی اہلِ مکہ کے ذریعے ہوتا اور کبھی اہلِ مدینہ کے ذریعہ، جن سے ان کا دن رات کا سابقہ تھا؛ مگرابھی تک یہ مخالفت صرف ذہنی اور زبانی تھی۔