انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حسن معاشرت صلۂ رحم تمدن کی ابتدا درحقیقت صلہ رحمی سے ہوتی ہے اگر باپ بیٹے کو، بیٹا باپ کو بھائی بھائی کو چھوڑدے تو انسان جانوروں کی طرح ایک ریوڑ بن جائے، اس بنا پر قرآن وحدیث دونوں میں صلہ ٔرحمی کی نہایت فضیلت بیان کی گئی ہے اورصحابہ کرام میں یہ فضیلت عموماً پائی جاتی ہے ۔ حضرت مسطحؓ حضرت ابوبکرؓ کے قرابت دار تھے، اس لئے وہ ان کی کفالت کرتے تھے۔ (بخاری، کتاب الشہادات، باب تعدیل النساء بعضہن بعضا) حضرت حفصہؓ نے اپنا گھر حضرت زید بن خطاب ؓ کی بیٹی کو عمر بھر کے لئے دے دیا تھا۔ (موطا امام مالک ،کتاب القضیہ، باب فی القضائی العمری) ایک صحابی تھے جو اپنے قرابت داروں کے ساتھ صلہ رحمی اوراحسان کرتے تھے اوران کے ساتھ حلم و برد باری کے ساتھ پیش آتے تھے، مگر ادھر سے تمام چیزوں کا جواب الٹا ملتا تھا انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کی شکایت کی تو فرمایا کہ جب تک تم اس حالت کو قائم رکھو گے خدا کی جانب سے ان کے مقابل میں تمہارا ایک مددگار رہیگا۔ (ادب المفرد، باب فضل صلہ الرحم) حضرت زینبؓ اپنے اعزہ واقارب کے ساتھ نہایت سلوک کرتی تھیں حضرت عائشہ فرماتی ہیں: ولم ارامرآۃ قط خیرا فی الدین من زینب واتقی اللہ واصدق حدیثا واوصل للرحم (مسلم کتاب الفضائل باب فضل عائشہؓ) میں نے زینبؓ سے زیادہ دین دار زیادہ پرہیز گار،زیادہ سچی اورزیادہ صلہ رحمی کرنے والی عورت نہیں دیکھی۔ ایک بار حضرت عمرؓ نے ان کی خدمت میں ان کا سالانہ وظیفہ جس کی مقدار بارہ ہزار درہم تھی بھیجا تو انہوں نے یہ رقم اپنے اعزہ کو تقسیم کردی ۔ (اسدالغابہ، تذکرہ حضرت زینبؓ بن حجش) حضرت عثمانؓ نے اپنے زمانہ خلافت میں اپنے اعزہ واقارب کے ساتھ جو فیاضیاں کیں ان کا محرک یہی صلہ رحمی تھی جس کا اظہار انہوں نے عام طورپر کردیا تھا۔ (مسندابن حنبل،جلد۱،صفحہ۶۲) حضرت اسماءؓ نے ایک جائداد حضرت عائشہؓ سے وراثۃ پائی تھی، جس کو حضرت امیر معاویہؓ نے ایک لاکھ پر خریدلیا؛ لیکن انہوں نے اس رقم کو حضرت قاسم بن محمدؓ اورحضرت ابن ابی عتیق پرہبہ کردیا۔ (بخاری ،کتاب الہبہ، باب ہبۃ الواحد للجماعۃ) حافظ ابن حجر نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ چونکہ قاسم کو حضرت عائشہؓ کی وراثت سے حصہ نہیں ملاتھا، اس لئے حضرت اسماءؓ نے ان کی دل شکنی کے خیال سے یہ رقم ان کو دے دی۔ صحابہ کرام کو صلہ رحمی کا اس قدر خیال تھا کہ حضر عمرؓ صبح کے وقت اپنے بچوں سے کہتے تھے کہ الگ الگ کھیلو، مل جل کر رہوگے تو تم میں جھگڑا فساد ہوگا، اورقطعہ رحم کروگے۔ (ادب المفرد باب التفرقہ بین الاحداث) یہ حسن سلوک صرف مسلمان اعزہ کے ساتھ مخصوص نہ تھا ؛بلکہ صحابہ کرام اپنے ان اعزہ واقارب کے ساتھ بھی جو کافر تھے اسی قسم کا فیاضانہ برتاؤ کرتے تھے، ایک بار رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمرؓ کو ایک ریشمی جوڑا دیا تو انہوں نے اس کو اپنے ایک مشرک بھائی کے پاس بھیج دیا جو اس وقت مکہ میں مقیم تھے ۔ (ابوداؤد، کتاب الصلوٰۃ ،باب اللبس للجمعہ) حضرت اسماء ہجرت کرکے مدینہ گئیں تو ان کی والدہ جو کافرہ تھیں ان کے پاس آئیں، اورمالی مدد مانگی،حضرت اسماءؓ نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ کیا وہ ان کے ساتھ، صلہ رحمی کرسکتی ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں۔ (صحیح مسلم، کتاب الزکوٰۃ، باب فضل النفقہ والصدقہ علی الاقربین) حضرت حفصہؓ نے ایک یہودی قرابت دار کے لئے ایک جائیداد کی وصیت کی تھی۔ (مسند دارمی، کتاب الوصایا،باب الوصیۃ لاہل الذمۃ) ماں باپ کے ساتھ سلوک صحابہ کرام ؓ والدین کی خدمت ،اطاعت ،اعانت اورادب واحترام کا نہایت لحاظ کرتے تھے، ایک صحابی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ میرے پاس دولت ہے اورمیرا باپ اس کا محتاج ہے، ارشاد ہوا کہ تم اورتمہاری دولت دونوں تمہارے باپ کےہیں۔ (ابوداؤد، کتاب البیوع ،فی الرجل یا کل من مال ولدہ) ایک دوسرے صحابی نے ایک باغ کو عمر بھر کے لئے اپنی ماں پر وقف کردیا۔ (ایضا، باب من قال فیہ ولعقبہ) ایک بار کفارنے رسول اللہ ﷺ کی گردن میں اونٹ کی اوجھ ڈال دی ، حضرت فاطمہؓ دوڑ کے آئیں، اس کو آپ کے اوپر سے اتار کرپھینک دیا، اورکفار کو برا بھلا کہا۔ (بخاری ،کتاب الصلوۃ، باب المراۃ تطرح عن المصلی شیئامن الاذی) ایک صحابی نے خانۂ کعبہ تک پاپیادہ چلنے کی نذر مانی تھی ؛لیکن بڑھاپے کی وجہ سے بغیر سہارے کے نہیں چل سکتے تھے، اس لئے ان کے دونوں لڑکے ان کو ٹیک لگاکر لائے اور حج کرایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تو فرمایا کہ سوار ہوجاؤ خدا کو تمہاری اور تمہاری نذر کی ضرورت نہیں۔ (مسلم، کتاب النذر ،باب من نذران یمشی الی الکعبتہ) ایک بار رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک عورت آئی اور کہا کہ میرا شوہر میرے لڑکے کو چھین لینا چاہتا ہے، حالانکہ وہ مجھے فائدہ پہنچاتا تھا، اورمیرے لیے کنویں سے پانی بھر لاتا تھا، آپ نے حکم دیا کہ قرعدہ اندازی کرلو ،باپ نے کہا کہ میرے لڑکے میں کون دعوے دار ہوسکتا ہے،آپ نے لڑکے کی طرف مخاطب ہوکر فرمایایہ تمہارا باپ ہے اور یہ تمہاری ماں ہے جس کا ہاتھ چاہو پکڑلو،لڑکے نے ماں کا ہاتھ پکڑلیا ۔ (ابوداؤد، کتاب الطلاق، باب من احق ہالولد) حضرت عبداللہ بن عمروبن العاصؓ اگرچہ جنگ صفین میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے خلاف حصہ لینا پسند نہیں کرتے تھے ،تاہم ان کے والدنے اصرار کیا تو اطاعت کے خیال سے مجبور ہوکر شریک ہوگئے۔ ایک بار حضرت امام حسین علیہ السلام نے ان سے اس کی وجہ پوچھی تو بولے مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ روزہ بھی رکھو اور افطار بھی کرونما زبھی پڑھو اور سونے کا بھی معمول بناؤ اوراپنے باپ کی اطاعت کرو، تو صفین کی شرکت کے لئے میرے باپ نے مجبور کیا، اس لیے میں شریک ہوا؛ لیکن نہ تلوار اٹھائی نہ نیزہ مارا نہ تیر چلایا۔ (اسد الغابہ، تذکرہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ بن العاص) حضرت عثمانؓ کے زمانے میں کھجور کی قیمت بہت زیادہ بڑھ گئی تھی، لیکن ایک بار حضرت اسامہ بن زیدؓ نے کھجور کے ایک درخت میں شگاف کیا اوراس سے جمارنکالا،لوگوں نے کہا ایسا کیوں کرتے ہو؟ کھجور کا درخت تو بہت بیش قیمت ہوگیا ہے،بولے میری ماں نے مجھ سے اس کی فرمائش کی تھی،اورجہاں تک ہوسکتا ہے ان کی فرمائشوں کی تکمیل کرتا ہوں۔ (طبقات ابن سعد، تذکرہ حضرت اسامہ بن زیدؓ) مروان اکثر حضرت ابوہریرہؓ کو اپنا خلیفہ مقرر کیا کرتا تھا، اس تعلق سے وہ ایک بار ذی الحلیفہ میں مقیم تھے اوران کی والدہ الگ دوسرے گھر میں تھیں جب وہ اپنے گھر سے نکلتے تو ان کے گھر کے دروازے پر کھڑے ہو کر کہتے السلام وعلیکم یا امتاہ ورحمتہ اللہ وبرکاتہ، وہ فرماتیں، وعلیک یا بنی ورحمتہ اللہ وبرکاتہ، پھر وہ فرماتے خدا تم کو اسی طرح رحم کرے جس طرح تم نے بچپن میں مجھ کو پالا وہ جواب دیتیں کہ خدا تم پر بھی اسی طرح رحم کرے جس طرح تم نے بڑے ہو کر میرے ساتھ سلوک کیا ،جب گھر میں داخل ہوتے تب بھی اسی طرح آداب بجا لاتے ۔ (ادب المفرد،باب برالوالدین) ان کی والدہ جب تک زندہ رہیں انہوں نے ان کو چھوڑ کر حج کرنا پسند نہیں کیا۔ (مسلم ،کتاب الایمان، باب ثواب العبد اجرہ اذا فصح سیدہ واحسن عبادۃ اللہ) باپ کے تعلق سے باپ کے دوست واحباب بھی قابل تعظیم و مستحق خدمت ہوجاتے ہیں، اس لئے حدیث شریف میں آیاہے: ابرالبر ان یصل الرجل ودابیہ سب سے زیادہ حسن سلوک یہ ہے کہ آدمی اپنے باپ کے دوست سے بھی سلوک کرے۔ صحابہ کرام اس حدیث پر اس شدت سے عمل کرتے تھے کہ ایک بار حضرت عبداللہ بن عمرؓ سفر میں تھے راہ میں ایک بدو ملا، انہوں نے اس کو اپنا عمامہ عنایت فرمایا اور اس کو اپنے گدھے پر سوار کرایا، لوگوں نے کہا یہ تو بدو ہیں ذرا سی چیز میں راضی ہوجاتے ہیں، بولے ، اس کا باپ ابن خطاب کا دوست تھا اورحدیث میں ہے کہ باپ کے دوست کی اولاد کے ساتھ سلوک کرنا بڑی نیکی کا کام ہے۔ (مسلم، کتاب البر،والصلۃ والآداب، باب فضل اصدقاء الاب والام ونحوہما) حضرت ابوالدرداء مرض الموت میں مبتلا ہوئے تو حضرت یوسف بن عبداللہؓ بن سلام سفر کرکے ان کی عیادت کو گئے انہوں نے پوچھا کہ اس شہر میں کیوں آئے؟ بولے صرف اس لئے کہ آپ میں اورمیرے والد میں دوستانہ تعلقات تھے۔ (مسند ابن حنبل ،جلد۶،صفحہ۴۵۰) بھائی سے محبت صحابہ کرام بھائیوں سے نہایت محبت رکھتے تھے، حضرت عبدالرحمن بن ابی بکرؓ کا مقام حبش میں انتقال ہوا اورلاش مکہ میں دفن ہوئی تو حضرت عائشہ ؓفرط محبت سے ان کی قبر کی زیارت کو آئیں اورایک مشہور مرثیے کے یہ اشعار پڑھے: وکنا کند مانی جذیمۃ حقبۃ من الدھر حتی قیل لن یتصدعا اورہم دونوں ایک مدت تک جذیمہ کے دونوں ہم نشینوں کی طرح ساتھ رہے ،یہاں تک کہ لوگوں نے کہا کہ ان میں کبھی جدائی نہ ہوگی۔ فلما تفرقنا کانی وما لکا لطول اجتماع لم تبت لیلۃ معا لیکن جب جدائی ہوئی تو ایسی کہ گویا ہم نے اورمالک نے باوجود طویل ملاقات کے ایک رات بھی ساتھ بسر نہیں کی تھی۔ (ترمذی کتاب الجنائز باب ماجاء فی الزیارۃ للقبور للنساء) حضرت عمرؓ کو اپنے بھائی زید سے اس قدر محبت تھی کہ وہ غزوہ یمامہ میں شہید ہوئے تو عمر بھر ان کا داغ دل سے نہ مٹ سکا فرمایا کرتے تھے کہ جب پروا ہوا چلتی ہے تو اس سے مجھے زید کی خوشبو آتی ہے۔ (اسد الغابہ جلد۲،صفحہ۲۲۹،تذکرہ زید بن خطابؓ) حضرت حمزہؓ غزوۂ احد میں شہید ہوئے اوران کی بہن حضرت صفیہؓ ان کاحال معلوم کرنے آئیں تو حضرت علیؓ اورحضرت زبیرؓ سے ملاقات ہوئی؛لیکن ان لوگوں نے یہ ظاہر کیا کہ ہم کو ان کی نسبت کچھ معلوم نہیں، رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں تو آپ ﷺ کو خوف پیدا ہوا کہ اس واقعہ سے کہیں ان کی عقل نہ جاتی رہے اس لیے ان کے سینہ پر ہاتھ رکھا اوران کے لئے دعا کی انہوں نے انا للہ پڑھا اور رونے لگیں۔ (طبقات ابن سعد، تذکرہ حضرت حمزہؓ) محبت اولاد اولاد اللہ تعالی کی بڑی نعمت ہے، اس لئے صحابہ کرام اولاد سے نہایت محبت رکھتے تھے، ایک بار ایک صحابی نے بی بی کو طلا ق دی اوربچے اس سے لینا چا ہا وہ رسول اللہ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئیں اورکہا کہ میرا پیٹ اس کا ظرف، میری چھاتی اس کا مشکیزہ اور میری گود اس کا گھرونداتھا، اوراب اس کے باپ نے مجھے طلاق دی اوراس کو مجھ سے چھیننا چاہتا ہے، آپ نے فرمایا، جب تک نکاح نہ کرلو تم بچے کی سب سے زیادہ مستحق ہو۔ (ابوداؤد ،کتاب الطلاق ،باب من احق بولد) ایک بار حضرت عائشہ کے پاس ایک عورت آئی، انہوں نے اس کو تین کھجوریں دیں، اس نے ایک بچوں کو دے دی اورایک اپنے لئے رکھ چھوڑی، بچے کھجور کھا چکے تو ماں کی طرف دیکھنے لگے اس نے اپنے حصے میں سے بھی دو قاشیں کیں اور ایک بچوں کو دے دی ،حضرت عائشہؓ نے آپﷺ سے یہ واقعہ بیان کیا تو فرمایا تمہیں تعجب کیا ہے اس کے رحم کے بدلے جو اس نے اپنے بچوں پر کیا خدا نے اس پر بھی رحم کیا۔ (ادب المفرد، باب الوالدات رحیمات) ایک بار حضرت عائشہ بخار میں مبتلا ہوئیں حضرت ابوبکرؓ ان کے پاس آئے حال پوچھا اوربوسہ لیا۔ (ابوداؤد ،کتاب الادب، باب فی قبلۃ الخد) ایک صحابی کا بچہ جاتا رہا، ان کو سخت صدمہ ہوا، انہوں نے حضرت ابو ہریرہؓ سے کہا کوئی ایسی بات بتاؤ جس سے یہ غم غلط ہوجائے ،بولے آپﷺ نے فرمایا ہے کہ بچے جنت کے کیڑے ہیں۔ (یعنی جنت سے کبھی جدا نہ ہونے والے) (ادب المفرد، باب من مات لہ الولد) ایک صحابی آپ ﷺ کی خدمت میں بچے کو لے کر حاضر ہوئے اوراس کو چمٹا نے لگے، آپﷺ نے فرمایا، تم کو اس سے محبت ہے؟ بولے ہاں فرمایا اس سے زیادہ تم سے ارحم الرحمین کو محبت ہے۔ (ادب المفرد باب رحمۃ العیال) حضرت عثمانؓ کا عام قاعدہ یہ تھا کہ جب ان کے کوئی لڑکا پیدا ہوتا تو اس کو منگاتے اورفرط محبت سے سونگھتے۔ (طبقات ابن سعد، تذکرہ حضرت عثمان ؓ) حضرت عبداللہ بن عمرؓکو اپنے بیٹے سالم کے ساتھ اس قدر محبت تھی کہ لوگ ان کو اس شیفتگی پر ملامت کرتے ؛لیکن وہ ان ملامتوں کو سن کرفرماتے: یلوموننی فی سالم والومھم وجلدہ بین العین والانف سالم (طبقات ابن سعد،تذکرہ سالم بن عبداللہ ؓ) مجھے لوگ سالم کے بارہ میں ملامت کرتے ہیں اور میں لوگوں کو ملامت کرتا ہوں کیونکہ سالم کا چہرہ آنکھ اورناک کے درمیان تمام عیوب سے پاک ہے۔ اسی محبت کی بنا پر صحابہ کرام کو بچے کے پیدا ہونے کی بڑی تمنا رہتی تھی، حضرت سہل بن حنظلیہؓ ایک صحابی تھےے جو ترک دنیا کرکے بالکل عزلت گزیں ہوگئے تھے ،تاہم اولاد کی اس قدر خواہش تھی کہ فرماتے تھے کہ، اگر میرے ایک ادھورابچہ بھی پیدا ہوجاتا تو مجھے دنیا ومافیہا سے زیادہ محبوب ہوتا۔ (استیعاب، تذکرہ حضرت سہل بن حنظلہؓ) اگر کوئی شخص اپنی اولاد سے محبت کا اظہار نہ کرتا تو صحابہ کرام اس کو نہایت برا سمجھتے، ایک بار حضرت عمرؓ نے ایک شخص کو عامل مقرر فرمایا، اس نے کہا میرے متعدد لڑکے ہیں؛ مگر میں نے کسی کو نہیں چوما بولے خدا صرف محبت رکھنے والے آدمیوں پر رحم کرتا ہے۔ (ادب المفرد باب من لایرحم لم یرحم ) یہ محبت صرف اپنے ہی بچوں کے ساتھ مخصوص نہ تھی؛ بلکہ صحابہ کرام عموماً بچوں سے نہایت محبت رکھتے تھے، حضرت عبداللہ بن عمرؓ ایک بار راستے سے گزرے تو دیکھا کہ حبشی لڑکے کھیل رہے ہیں ان کو دو درہم دیے۔ (ایضا، باب لعب الصبان بالجوز) انہوں نے ایک لونڈی کو جس سے ان کو بڑی محبت تھی آزاد کردیا تھا؛ لیکن جب اس کے بچہ پیدا ہوا تو اس کو گود میں لے کر چوما اورکہا واہ واہ اس سے اس لونڈی کی خوشبو آتی ہے. (طبقات ابن سعد، تذکرہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ) بچوں کی پرورش صحابہ کرام بچوں کی پرورش میں اپنے عیش و آرام کو بھی فراموش کردیتے تھے، حضرت جابر بن عبداللہؓ کے والد نے متعدد صغیر السن لڑکیوں کو چھوڑکر انتقال کیا، توحضرت جابرؓ نے ان کی پرورش کی غرض سے ایک ثیبہ عورت سے شادی کی،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کنواری لڑکی سے کیوں نہیں شادی کی وہ تم سے کھیلتی تم اس سے کھیلتے،تو بولے باپ شہید ہوا اور صغیر السن لڑکیاں چھوڑیں اگر ان ہی کی سی کمسن عورت سے شادی کرتا تو وہ نہ ان کو ادب سکھاتی نہ ان کی خبر گیری کرتی(مسلم ،کتاب البیوع ،باب بیع البیعرواستثناء رکوبہ) اس لیے ایسی عورت سے نکاح کرنا پسند کیا جو ان کو اکٹھا رکھے ان کے بالوں میں کنگھی کرے ،ان کے سرسے جوئیں نکالے، ان کے کپڑے پھٹ جائیں تو ان کو سی دے اوران کی اصلاح و نگرانی کرے۔ (ایضا کتاب الطلاق باب الستحباب نکاح البکر ومسند ابن حنبل جلد نمبر۳،صفحہ ۳۵۸) حضرت ام سلیم ؓ بیوہ ہوئیں تو حضرت انس بن مالکؓ بچے تھے، اس لئے انہوں نے یہ عزم بالجزم کرلیا کہ جب تک ان کی نشوونماکامل طورپر نہ ہوجائے گی وہ دوسرا نکاح نہ کریں گی، چنانچہ انہوں نے اس ارادہ کو پورا کیا،حضرت انسؓ خود پیاس گزارانہ لہجے میں اعتراف کرتے ہیں کہ اللہ تعالی میری ماں کو جزائے خیردے کہ اس نے میری ولایت کا حق ادا کیا۔ (طبقات ابن سعد، تذکرہ حضرت ام سلیمؓ) یہ وصف اگرچہ تمام صحابیات میں عموماً پایا جاتا تھا؛ لیکن اس میں قریشی عورتیں خاص طور پر ممتاز تھیں، اس لئے رسول اللہ ﷺ نے قریشی عورتوں کی اس فضیلت کو خاص طورپر بیان فرمایا: نِسَاءُ قُرَيْشٍ خَيْرُ نِسَاءٍ رَكِبْنَ الْإِبِلَ أَحْنَاهُ عَلَى طِفْلٍ وَأَرْعَاهُ عَلَى زَوْجٍ فِي ذَاتِ يَدِهِ (بخاری، کتاب النفقات ، بَاب حِفْظِ الْمَرْأَةِ زَوْجَهَا فِي ذَاتِ يَدِهِ وَالنَّفَقَةِ) عرب کی عورتوں میں قریش کی عورتیں سب سے اچھی ہیں کہ بچوں سے ان کے بچپن میں نہایت محبت رکھتی ہیں اورشوہروں کے مال واسباب کی نگہداشت کرتی ہیں۔ صحابہ کرام نہ صرف اپنی اولاد کی؛ بلکہ اپنے اعزہ اپنے متعلقین بلکہ غیروں کی اولاد کی پرورش بھی اس دلسوزی سے کرتے تھے۔ حضرت سعید بن اطولؓ کے بھائی نے انتقال کیا اور تین سو دینار اور چند صغیر السن بچے چھوڑے، انہوں نے اس رقم کو ان بچوں کی پرورش میں صرف کرنا چاہا؛ لیکن بھائی پر لوگوں کا قرض تھا، اس لئے رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کےمطابق پہلے اس کو ادا کیا۔ (مسند ابن حنبل،جلد۴،صفحہ ۱۳۶) حضرت حارثؓ بن ہشام نے طاعون عمواس میں انتقال کیا تو حضرت عمرؓ نے ان کی بی بی فاطمہ بنت ولید سے نکاح کرلیا اور ان کے بیٹے حضرت عبدالرحمان بن حارث ؓ کو اپنے آغوش تربیت میں لے لیا اوراس لطف ومحبت کے ساتھ ان کی تربیت فرمائی کہ خود حضرت عبدالرحمن کا بیان ہے کہ میں نے عمربن خطاب سے بہتر کوئی مربی نہیں دیکھا۔ (طبقات ابن سعد، تذکرہ حضرت عبدالرحمان بن حارث) جب حضرت زید بن حارثہؓ مکہ سے حضرت حمزہؓ کی صاحبزادی کو لائے تو ان کی پرورش کے متعلق حضرت علی ؓ اورحضرت جعفرؓ میں اختلاف ہوا حضرت جعفرؓ کہتے تھے کہ میں اس کی پرورش کا مستحق ہوں وہ میرے چچا کی لڑکی ہے اور میرے نکاح میں اس کی خالہ ہے جو بمنزلہ ماں کے ہے حضرت علی فرماتے تھے کہ وہ میرے بھی چچا کی لڑکی ہے اور میرے نکاح میں خود رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی ہیں، جو لڑکی کی سب زیادہ مستحق ہیں، اب حضرت زید بھی مدعی ہوگئے اور کہا میں اس کا مستحق ہوں میں نے اس کے لیے سفر کیا ہے اوراس کو یہاں لایا ہوں بالآخر رسول اللہ ﷺ نے حضرت جعفرؓ کے حق میں فیصلہ کیا۔ (بخاری ،کتاب المغازی، باب عمرۃ القضا مع فتح الباری) ایک عورت نے آپ کی خدمت میں زنا کا اقرار کیا اس کے گود میں بچہ تھا، آپﷺ نے فرمایا بچہ دودھ چھوڑدے تو آنا، بچے نے دودھ چھوڑدیا تو وہ آئی اور کہا کہ مجھ پر حد شرعی جاری فرمائیے ،آپ نے فرمایا، تمہارے بچہ کی پرورش کون کرے گا؟ ایک انصاری بولے میں یا رسول اللہ اب آپ نے اس کے سنگسار کرنے کا حکم دیا۔ (دارقطنی،صفحہ۳۲۰،کتاب الحدود) اگر کوئی شخص پرورش اولاد سے آزادی چاہتا تھا تو صحابہ کرام اس کو سخت لعنت وملامت کرتے،کسی شخص کے متعدد لڑکیاں تھیں ،اس نے ان کی موت کی آرزو کی تو حضرت عبداللہ بن عمرؓ سخت برہم ہوئے اورکہا کیا تم ان کو روزی دیتے ہو؟۔(ادب المفرد باب منکرہ ان یتمنی موت البنات) یتیموں کی پرورش یتیموں کی پرورش بڑی نیکی کا کام ہے،حدیث شریف میں آیا ہے۔ اناو کافل الیتیم کھا تین فی الجنۃ میں اور یتیموں کی پرورش کرنے والے جنت میں اس قدر قریب ہوں گے جس قدر یہ دونوں انگلیاں قریب ہیں۔ صحابہ کرام کو اللہ تعالی نے اس نیک کام کی توفیق دی تھی، اس لیے وہ اپنے بچوں کی طرح یتیموں کی پرورش کرتے تھے۔ حضرت زینبؓ متعدد یتیموں کی پرورش کرتی تھیں، ایک بار رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اورحضرت بلالؓ کے ذریعہ سے دریافت کروایا کہ وہ اپنے شوہر اوران یتیموں پر صدقہ کریں تو جائز ہے؟ ایک دوسری صحابیہ بھی اسی غرض سے دردولت پر کھڑی تھیں، حضرت بلالؓ نے دریافت کیا تو آپ ؓ نے فرمایا کہ ان کو دوہراثواب ملے گا ایک قرابت کا اوردوسرا صدقہ کا۔ (بخاری، کتاب الزکوٰۃ، باب الزکوٰۃ علی الزوج والایتام فی الحجر) ایک یتیم حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے ساتھ شریک طعام ہوا کرتا تھا ایک دن انہوں نے کھانا منگوایا تو اتفاق سے وہ موجود نہ تھا کھانے سے فارغ ہوچکے تو وہ آیا انہوں نے اور کھانا منگوانا چاہا؛ مگرگھر سے جواب آیا، اب ستو اورشہد لائے اور کہا لو کچھ نقصان میں نہیں رہے۔ (ادب المفرد، باب فضل من یقول یتیما بین ابویہ) حضرت عائشہؓ کے بھائی محمد بن ابی بکرؓ کی لڑکیاں یتیم ہوگئی تھیں اورحضرت عائشہ ان کی پرورش فرماتی تھیں۔ (موطا مالک، کتاب الزکوٰۃ، باب مالازکوٰۃ فیہ من الحلی والتبرد العنبر) پرورش کے علاوہ صحابہ کرام اورطریقوں سے بھی یتیموں کے ساتھ سلوک کرتے تھے، ایک یتیم نے ایک شخص پر ایک نخلستان کے متعلق دعویٰ کیا؛ لیکن رسول اللہ ﷺ نے اس کے خلاف فیصلہ کیا تو وہ روپڑا، آپﷺ کو اس پر رحم آگیا اور مدعا علیہ سے فرمایا کہ اس کو یہ نخلستان دے ڈالو، خدا تم کو اس کے بدلے میں جنت میں نخلستان دے گا؛ لیکن اس نے انکار کردیا، حضرت ابوالدحداحؓ بھی موجود تھے انہوں نے اس سے کہا کہ تم میرے باغ کے عوض اپنے باغ کو بیچتے ہو، اس نے کہا ہاں وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ جو نخلستان آپ یتیم کے لئے مانگتے تھے اگر میں دے دوں تو اس کے عوض مجھے جنت میں نخلستان ملےگا؟ ارشاد ہوا ہاں۔ (استیعاب ،تذکرہ حضرت ابوالدحداحؓ) عام قاعدہ ہے کہ لوگ اپنی لڑکیوں کی شادی یتیم بچوں سے کرنا پسند نہیں کرتے ؛ لیکن صحابہ کرام کو یتیموں سے اس قدر محبت تھی کہ وہ اس معاملہ میں انہیں ترجیح دیتے تھے، حضرت صالح ؓ کی صاحبزادی سے حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے منگنی کی ان کی بی بی بھی اس نسبت کو پسند کرتی تھیں، لیکن انہوں نے انکار کردیا اور ایک یتیم بچے کے ساتھ جو ان کی تر بیت میں تھا، صاحبزادی کا نکاح کردیا۔ (مسند جلد۲،صفحہ ۹۷) یتیموں کی پرورش کے ساتھ صحابہ کرام نہایت دیانت کے ساتھ ان کے مال کی نگہداشت بھی کرتے تھے اوراس کو ضائع ہونے سے بچاتے تھے؛بلکہ اس کو ترقی دیتے تھے، حضر عمرؓ کا عام حکم تھا۔ اتجروافی اموال الیتامی لاتاکلھا الزکوٰۃ یتیموں کے مال سے تجارت کرو کہ زکوٰۃ اسے کھا نہ جائے۔ حضرت عائشہ ؓ یتیموں کی پرورش کرتی تھیں ان کے مال لوگوں کو دے دیتی تھیں کہ تجارت کے ذریعہ سے اس کو ترقی دیں۔ (موطا امام مالک کتاب الزکوٰۃ ،زکوٰۃ اموال الیتمیٰ والتجارۃ فیہا) شوہر کی محبت صحابیات اپنے شوہروں سے نہایت محبت رکھتی تھیں، حضرت زینبؓ کی شادی ابوالعاص سے ہوئی تھی، وہ حالت کفرمیں تھے کہ بدر کا واقعہ پیش آگیا اوروہ گرفتار ہوئے، آپ نے اسیرانِ جنگ کو فدیہ لے کر رہا کرنا چاہا اورتمام اہل مکہ نے اپنے اپنے فدیے بھیجے، تو حضرت زینبؓ کے پاس ایک یادگار ہار تھا، جس کو حضر ت خدیجہؓ نے رخصتی کے وقت دیا تھا ؛لیکن انہوں نے ابوالعاص کے فدیہ میں مال کے ساتھ اس ہار کو بھی بھیج دیا،آپﷺ نے اس کو دیکھا تو سخت رقت طاری ہوئی اورصحابہ کے مشورہ سے ان کو آزاد کردیا اور ہار بھی واپس دے دیا۔ (ابوداؤد، کتاب الجہاد ،باب فی فدا الاسیر بالمال) حضرت حمنہ بنت حجش ؓ کے شوہر شہید ہوئے اورانہیں ان کی شہادت کی خبر معلوم ہوئی تو فرط محبت سے چیخ اُٹھیں۔ (سنن ابن ماجہ ،کتاب الجنائز، باب ماجاء فی البکاء علی المیت) حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا انتقال ہوا اورحضرت امام حسن ؓ خلیفہ ہوئے تو ان کی بی بی حضرت عائشہ الخثعمیہ نے کہا آپ کو حکومت مبارک ہو،سخت برہم ہوئے اورکہا کہ تم مجھے امیر المومنینؓ کے انتقال پر مبارک باد دیتی ہو، اوراسی غصہ کی حالت میں طلاق بائن دے دی ،انہوں نے منہ ڈھانک لیا اورکہا کہ میں نے تویہ نیک نیتی سے کہا تھا، بعد کو انہوں نے مہر وغیرہ کی رقم بھیجی تو اس کو دیکھ کر وہ روپڑیں اورکہا کہ جدا ہونے والے دوست کے مقابل میں یہ نہایت حقیر چیز ہے۔ (دارقطنی صفحہ۴۳۸،کتاب الطلاق) حضرت عمرؓ کی بی بی حضرت عاتکہؓ روزے کے دنوں میں فرط محبت سے ان کے سرکا بوسہ لیتی تھیں۔ (موطا ،کتاب الصیام، باب ماجاء فی الرخصہ فی القبلۃ الصائم) حضرت عاتکہؓ کو اپنے پہلے شوہر حضرت عبداللہ بن ابی بکرؓ سے نہایت محبت تھی ؛چنانچہ جب غزوہ طائف میں شہید ہوئے تو حضرت عاتکہؓ نے ایک پردرد مرثیہ لکھا جس کا ایک شعر یہ ہے۔ فآليتُ لا تنفكُّ عينِي حزينةً عليكَ، ولا ينفكُّ جِلدي أغبرا میں نے قسم کھالی ہے کہ تمہارے غم میں میری آنکھیں ہمیشہ پر نم اورجسم ہمیشہ غبار آلودہ رہےگا۔ اس کے بعد حضرت عمرؓ نے ان سے شادی کی اور دعوت ولیمہ میں حضرت علی ؓ کو بھی شریک کیا، تو انہوں نے حضرت عاتکہ ؓ کو یہ شعریاددلایا، اور وہ روپڑیں، حضرت عمرؓ کی شہادت ہوئی تو ان کا بھی نہایت پر درد مرثیہ لکھا، اس کے بعد ان سے حضرت زبیرؓ نے شادی کی اور وہ بھی شہید ہوئے تو ان کا بھی نوحہ لکھا۔ (اسدالغابہ، تذکرہ حضرت عاتکہؓ) شوہر کی خدمت صحابیات شوہر کی خدمت کو اپنا فرض سمجھتی تھیں اور نہایت پابندی کے ساتھ اس فرض کو بجا لاتی تھیں ازواج مطہرات میں حضرت عائشہ رسول اللہﷺ کو نہایت محبوب تھیں؛ لیکن اس محبوبیت کا کوئی اثر رسول اللہ ﷺ کی خدمت پر نہیں پڑتا تھا؛ بلکہ سب سے زیادہ ان ہی کو آپ کا شرف خدمت حاصل ہوتا تھا، رسول اللہ ﷺ کمال طہارت کی وجہ سے مسواک کو پہلے دھلوالیا کرتے تھے اوراس پاک خدمت کو حضرت عائشہ ادا فرماتی تھیں۔ (ابوداؤد، کتاب الطہارۃ ،باب غسل السواک) ایک بار آپ کمبل اوڑھ کر مسجد میں آئے ایک صحابی نے کہا یا رسول اللہ ﷺ اس پر دھبہ نظر آتا ہے، آپ ﷺ نے اس کو غلام کے ہاتھ حضرت عائشہؓ کے پاس بھیج دیا کہ دھوکر خشک کرکے میرے پاس بھیج دیں، حضرت عائشہؓ نے کٹورے میں پانی منگایا خود اپنے ہاتھ سے دھویا،خشک کیا اوراس کے بعدآپﷺ کے پاس بھیج دیا۔ (ایضا، باب الاعادۃ من النجاستہ تکون فی الثوب) جب رسول اللہ ﷺ احرام حج باندھتے تھے اوراحرام کھولتے تھے تو وہ جسم مبارک میں خوشبو لگاتی تھیں۔ (ایضا کتاب المناسک باب الطیب عندالاحرام) جب آپ ﷺ خانہ کعبہ کو ہدی بھیجتے تھے تو وہ ان کے گلے کا قلا دہ بٹتی تھیں۔ (ایضا باب من بعث بہدیہ واقام) صحابہ کرامؓ جب تمام دنیا کی خدمت واعانت سے محروم ہوجاتے تھے تو اس بے کسی کی حالت میں صرف ان کی بیبیاں ان کا ساتھ دیتی تھیں۔ رسول اللہ ﷺ تخلف غزوہ تبوک کی بنا پر حضرت بلال بنؓ امیہ سے ناراض ہوئے اور اخیر میں تمام مسلمانوں کی طرح ان کو بی بی سے بھی تعلقات کے منقطع کرلینے کا حکم دیا، وہ حاضر خدمت ہوئیں اورکہا کہ وہ بوڑھے آدمی ہیں ،ان کے پاس نوکر چاکر نہیں ،اگر میں ان کی خدمت کروں تو آپ ناپسند فرمائیں گے ارشاد ہوا نہیں۔ (بخاری کتاب المغازی باب غزوہ تبوک) شوہر کے مال واسباب کی حفاظت مرد وزن کے معاشرتی تعلقات پر اس کا نہایت عمدہ اثر پڑتا ہے کہ بیوی نہایت دیانت کے ساتھ شوہر کے مال واسباب کی حفاظت کرے اورصحابیات میں یہ دیانت اس شدت سے پائی جاتی تھی کہ مال اسباب تو درکنار جو چیز شوہر سے تعلق رکھتی تھی اس میں بغیر اس کی اجازت کے کسی قسم کا تصرف کرنا پسند نہیں کرتی تھیں، حضرت اسماء کی شادی حضرت زبیرؓ سے ہوئی تھی ،ایک بار وہ گھر میں تھیں کہ ایک غریب سوداگر آیا کہ اپنے سایہ دیوار میں مجھ کو سودا بیچنے کی اجازت دیجئے وہ عجب کشمکش میں مبتلا ہوئیں، فیاضی اورکشادہ دلی سے اجازت دینا چاہتی تھیں؛ لیکن شوہر کے حکم کے بغیر اجازت نہیں دے سکتی تھیں بولیں اگر میں اجازت دے دوں اور زبیرؓ انکار کردیں تو بڑی مشکل پڑے گی، زبیر کی موجودگی میں آؤ اورمجھ سے سوال کرو ،وہ اسی حالت میں آیا، اورکہا یا ام عبداللہ میں محتاج آدمی ہوں ،آپ کی دیوار کے سایہ میں کچھ سودا بیچنا چاہتا ہوں بولیں تم کو مدینہ میں میرا ہی گھر ملتا ہے، حضرت زبیرؓ نے کہا تمہارا کیا بگڑتا ہے جو ایک محتاج کو بیع وشرا سے روکتی ہو ،وہ تو چاہتی ہی تھیں،اجازت دے دی۔ (مسلم ،کتاب الادب ،باب جَوَازِ إِرْدَافِ الْمَرْأَةِ الْأَجْنَبِيَّةِ إِذَا أَعْيَتْ فِي الطَّرِيقِ) وہ نہایت فیاض تھیں اس لیے صدقہ و خیرات کرنا بہت پسند کرتی تھیں؛ لیکن شوہر کے مال کے سوا ان کے پاس کچھ نہ تھا، اورشوہر کے مال میں بلا اجازت تصرف نہیں کرسکتی تھیں مجبورا رسول اللہ ﷺ سے دریافت فرمایا کہ میں زبیرؓ کی آمدنی میں سے کچھ صدقہ کروں تو کیا کوئی گناہ کی بات ہے؟ ارشاد ہوا کہ جو کچھ ہوسکے دو۔ (مسلم کتاب الزکوٰۃ باب الحث علی الصدقہ ولبا القلیل) ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ نے عورتوں سے بیعت لی تو ان میں سے ایک خاتون اٹھیں اور کہا کہ ہم اپنے باپ بیٹے اور شوہر کے محتاج ہیں،ان کے مال میں سے ہمارے لئے کسی قدرلینا جائز ہے ؟آپ نے فرمایا اس قدر کہ کھاپی لو اورہدیہ دو۔ (ابوداؤد کتاب الزکوٰہ باب المراۃ تنصدق من بیت زوجہا) اگرچہ یہ وصف عموما تمام صحابیات میں پایا جاتا تھا؛لیکن اس باب میں قریش کی عورتیں خاص طورپر ممتاز تھیں ،چنانچہ خود رسول اللہ ﷺ نے اپنی زبان مبارک سے ان کی اس خصوصیت کو نمایاں کیا: نِسَاءُ قُرَيْشٍ خَيْرُ نِسَاءٍ رَكِبْنَ الْإِبِلَ أَحْنَاهُ عَلَى طِفْلٍ وَأَرْعَاهُ عَلَى زَوْجٍ فِي ذَاتِ يَدِهِ (مسلم ،کتاب الفضائل، بَاب مِنْ فَضَائِلِ نِسَاءِ قُرَيْشٍ) قریش کی عورتیں کس قدر اچھی ہیں بچوں سے محبت رکھتی ہیں اورشوہروں کے مال واسباب کی نگرانی کرتی ہیں ۔ شوہر کی خوشنودی صحابیات اپنے شوہروں کی رضا مندی اورخوشنودی کا نہایت خیال رکھتی تھیں،حضرت حولاؓ عطرفروش ایک دن حضرت عائشہؓ کی خدمت میں آ ئیں اور کہا کہ میں ہر رات کو خوشبو لگاتی ہوں، بناؤ سنگار کرکے دلہن بن جاتی ہوں اورخالصتہ لوجہ اللہ اپنے شوہر کے پاس جاکر سورہتی ہوں لیکن پھر بھی وہ متوجہ نہیں ہوتے اورمنہ پھیر لیتے ہیں، پھر ان کو متوجہ کرتی ہوں اور وہ اعراض کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ آئے تو آپﷺ سے بھی اس کا ذکر کیا آپﷺ نے فرمایا جاؤ اوراپنے شوہر کی اطاعت کرتی رہو۔ (اسدالغابہ، تذکرہ حضرت حولاؓ) ایک روز آپ نے حضرت عائشہؓ کے ہاتھ میں چاندی کے چھلے دیکھے، فرمایاعائشہ یہ کیا ہے؟ بولیں میں نے اس کو اس لئے بنایا ہے کہ آپ کے لئے بناؤ سنگار کروں۔ (ابوداؤد، کتاب الزکوٰۃ، باب الکنز ماہووزکوٰۃ الحلی) ایک صحابیہ آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں، ان کے ہاتھ میں سونے کے کنگن تھے ،آپ نے ان کے پہننے سے منع فرمایا، بولیں اگر عورت شوہر کے لئے بناؤ سنگار نہ کرے گی تو اس کی نگاہ سے گرجائے گی۔ (نسائی کتاب الزینہ ،صفحۃ ۷۶۵) بی بی کی محبت جس طرح صحابیات اپنے شوہروں سے بے حد محبت رکھتی تھیں ،اسی طرح صحابہ کرام بھی بیویوں سے نہایت محبت رکھتے تھے، حضرت عبداللہ بن عمرؓ اپنی بی بی کو اس قدر چاہتے تھے کہ جب حضرت عمرؓ نے ان کو طلاق دینے پر مجبور کیا تو انہوں نے صاف انکار کردیا، معاملہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش ہوا تو آپ نے اطاعت والدین کے خیال سے ان کو طلاق دینے کا حکم دیا۔ (ابوداؤد کتاب الادب باب فی برالوالدین) ایک بار وہ سفر میں تھے، معلوم ہوا کہ ان کی بی بی سخت بیمار ہیں ان کے پاس آنے کے لئے نہایت تیز رفتاری سے کام لیا اورعشاء و مغرب کی نمازکو ایک ساتھ جمع کیا۔ (بخاری کتاب الجہاد باب السرعۃ فی السیر) ایک بار حضرت امام حسنؓ نے اپنی بی بی حضرت عائشہ بنت الخلیفہ الحثمیہ کو غصہ کی حالت میں طلاق بائن دے دی، بعد کو مہر کی رقم بھیجی تو وہ اس کو دیکھ کر روپڑیں اور کہا کہ جدا ہونے والے دوست کے مقابل میں یہ نہایت حقیر چیز ہے، قاصد نے حضرت امام حسنؓ کو اس کی خبر دی تو بے اختیار روپڑے اورفرمایا کہ اگر طلاق بائن نہ دے چکا ہوتا تو رجعت کرلیتا۔ (دارقطنی ،صفحہ ۴۳۸، کتاب الطلاق) حضرت عبداللہ بن ابی بکرؓ کو اپنی بی بی عاتکہؓ سے اس قدر محبت تھی کہ ان کے عشق میں جہاد تک کو ترک کردیا تھا، اس خیال سے حضرت ابوبکرؓ نے ان کو طلاق دینے پر مجبور کیا پہلے تو انہوں نے ٹالا لیکن جب ان کی طرف سے سخت اصرار ہوا تو اطاعت والدین کے خیال سے طلاق دی اوریہ اشعارکہے۔ اعاتک لا انساک مادر شارق اے عاتکہ جب سورج تک چمکتا اعاتک قلبی کا یوم دلیلۃ اے عاتکہ میرا دل ہر دن اورہر رات ولم ارمثلی طلق الیوم مثلھا مجھ جیسے شخص نے اس جیسی عورت کو کبھی طلاق نہ دی ہوگی۔ وماناح قمری الحاد المطوق اورقمری بولتی رہیگی میں تجھے نہ بھولوں گا الیک بما تخفی النفوس معلق بصد ہزار تمنا وشوق تجھ سے لگا ہوا ہے ولا مثلھا فی غیر جرم تطلق اورنہ ایسی عورت کو بغیر گناہ طلاق دیجاتی۔ حضرت ابوبکرؓ پر ان اشعار کا سخت اثر ہوا اورانہوں نے رجعت کرنے کی اجازت دے دی۔ (اسد الغابہ تذکرہ حضرت عاتکہ بنت زیدؓ) حضرت مغیثؓ ایک غلام تھے، ان کی شادی حضرت بریرہؓ سے ہوئی تھی ،حضرت بریرہؓ آزاد ہوگئیں، تو حضرت مغیثؓ سے قطع تعلق کرنا چاہا، رسول اللہ ﷺ نے ان کو اس ارادہ سے روکا، لیکن بولیں کیا یہ آپ کا حکم ہے؟ فرمایا نہیں میں سفارش کرتا ہوں وہ راضی نہ ہوئیں، حضرت مغیث ان کے فراق سے بدحواس ہوگئے، ان کے رخساروں پر آنسوؤں کی چادر دیکھ کر آپ نے حضرت عباسؓ سے فرمایا مغیثؓ کی محبت اوربریرہ کا بغض تم کو عجیب نہیں معلوم ہوتا۔ (ابوداؤد کتاب الطلاق باب فی الملوکہ تتبق دہی تحت حراعبد) ایک بار صحابہ کرام حج سے واپس آرہے تھے ذوالحلیفہ کے پاس پہنچے تو انصار کے لڑکے استقبال کے لئے نکلے ان ہی صحابہ میں حضرت اسید بن حضیرؓ بھی تھے ان کے خاندان کے بچوں نے ان کو بی بی کے انتقال کی خبر سنائی تو وہ منہ ڈہانک کر رونے لگے ،حضرت عائشہ نے کہا آپ قدیم الاسلام صحابی ہوکر ایک عورت کے لئے اس طرح روتےہیں بولے سچ ہے سعد بن معاذ کے بعد مجھے کسی پر یوں رونا نہیں چاہئے۔ (مسند جلد ۴،صفحہ ۳۵۲) اس محبت کا یہ نتیجہ تھا کہ صحابہ کرام عورت کے حق صحبت کا اس قدر لحاظ رکھتے تھے کہ عورت کی درشت خو ئی بھی اس کو فراموش نہیں کراسکتی تھی،حضرت لقیط بن صبرہؓ وفد بنو منتفق کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اوراپنی بی بی کی بدزبانی کی شکایت کی آپ نے فرمایا تو پھر طلاق دے دو انہوں نے کہا یا رسول اللہ مدت کا ساتھ ہے اور اس سے ایک بچہ بھی ہے، فرمایا کہ اس کو نصیحت کرو،اگر راہِ راست پر آجائے تو بہتر ہے ورنہ اس کو لونڈی کی طرح نہ مارو۔ (ابوداؤد کتاب الطہارۃ باب فی الاستثار) ہمسایوں کے ساتھ سلوک صحابہ کرام ہمسایوں کے ساتھ نہایت عمدہ سلوک کرتے تھے اوراس میں کافر ومسلم کی تفریق روا نہیں رکھتے تھے، ایک بار حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے ایک بکری ذبح کی، پڑوس میں ایک یہودی تھا ،گھروالوں سے پوچھا کہ تم نے ہمارے یہودی ہمسایہ کے پاس گوشت بھیجا یا نہیں؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جبریل نے مجھ کو ہمسایوں کے ساتھ حسن سلوک کی اس شدت سے وصیت کی کہ میں سمجھا کہ اس کو شریک وراثت بنادیں گے۔ (ابوداؤد کتاب الادب باب فی حق الجوار) صحابہ کرام خود بھوکے رہتے تھے اوراپنے ہمسایوں کو کھلاتے تھے، ایک بار حضرت عمرؓ نے حضرت جابر ؓکے پاس گوشت کی گٹھری دیکھی تو بولے کیا تم لوگ اپنی بھوک کو اپنے ہمسائے اوراپنے چچازاد بھائی کے لیے نہیں مارنا چاہتے۔ (موطا امام مالک کتاب الجامع باب ماجاء فی اکل اللحم) اگر کوئی شخص ہمسایوں کے ساتھ برا سلوک کرتا تو صحابہ کرام اس کو نہایت برا سمجھتے، ایک بار ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے شکایت کی کہ میرا پڑوسی مجھے ستا تا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا جاؤ اورگھر سے اپنا تمام اسباب نکال کر باہر ڈال دو، اس نے تعمیل ارشاد کی، لوگوں نے دیکھا تو پوچھا کیا معاملہ ہے؟ بولا میرے پڑوسی نے مجھے ستایا ہے ،تمام صحابہ نے کہا اس پر خدا کی لعنت ہو اس نے سنا تو کہا گھر میں چلو اب نہ ستاؤں گا۔ (ادب المفرد باب حکایۃ الجار) غلاموں کے ساتھ سلوک صحابہ کرامؓ غلاموں کے ساتھ بالکل مساویانہ برتاؤ کرتے تھے اورجو خود پہنتے تھے وہی ان کو بھی پہناتے تھے ،حضرت عبداللہ بن عمرؓ اپنی لڑکیوں کی طرح اپنی لونڈیوں کو بھی سنہرے زیورات پہناتے تھے۔ (موطا امام مالک کتاب الزکوٰۃ باب مالازکوٰۃ فیہ من الحلی والتبر والمنبر) ایک بارکچھ لوگ ان سے ملنے کو آئے دیکھا کہ ان کے غلاموں کے گلے میں سونے کا طوق پڑا ہوا ہے،ہر ایک دوسرے کی طرف تعجب سے دیکھنے لگا، بولے تمہاری نگاہ برائیوں ہی پر پڑتی ہے (ادب المفرد باب فضول النظر) ایک بار حضرت ابوذر غفاریؓ ایک حلہ پہنے ہوئے تھے اورغلام کو بھی ویساہی پہنایا تھا، اس کا سبب دریافت کیا گیا تو بولے میں نے ایک غلام کو ایک دفعہ برا بھلا کہا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ابوذرؓ تم میں اب تک جاہلیت کا اثر باقی ہے یہ لوگ تمہارے بھائی ہیں خدانے ان کو تمہارے ہاتھ میں دے دیا ہے تو جس کا بھائی اس کے ہاتھ میں ہو وہ اس کو وہی کھلائے پلائے جو خود کھاتا پیتا ہے۔ (بخاری کتاب الایمان باب المعاصی من امرالجاہلیۃ) ایک بار رسول اللہ ﷺ نے ان کو ایک غلام دیا اور یہی نصیحت کی تو انہوں نے اپنا کپڑا پھاڑ کر آدھا غلام کو دے دیا۔ (فتح الباری ،جلد۱،صفحہ۸۱) ایک بار حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے گاڑھے کی دو قمیصیں خریدیں، ساتھ میں ان کا غلام بھی تھا، بولے اس میں تمہیں جو پسند ہو لے لو اس نے ایک لے لی۔ (اسدالغابہ تذکرہ حضرت علیؓ) ایک بار حضرت ابولیسیرؓ کے جسم پر دومختلف قسم کے کپڑے تھے اوران کے غلام کے بدن پر بھی اسی قسم کے مختلف کپڑے تھے ایک شخص نے کہا کہ اگر آپ لوگ ایک ایک کپڑا دوسرے سے بدل لیتے تو ہمرنگ ہوکر پورا حلہ یعنی جوڑا ہوجاتا بولے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ غلاموں کو وہی کھلاؤ جو خود کھاتےہو اوروہی پہناؤ جو خود پہنتے ہو،(ادب المفرد باب اکسو ہم مما تلبسون) یعنی اس طریقہ سے دونوں کپڑے ہمرنگ تو ہوجاتے لیکن اس سے کپڑوں میں اختلاف ہوجاتا اور مساوات زائل ہوجاتی ۔ صحابہ کرام غلاموں کی زدو کوب کو نہایت براسمجھتے تھے، ایک بار ایک شخص نے اپنے غلام کے منہ پر طمانچہ مارا حضرت سویدؓ بن مقرن نے فرمایا، طمانچہ کے لئے تم کو صرف اس کا چہرہ ہی ملتا تھا؟ ہمارے بھائیوں میں ایک نے غلام کو مارا تھا تو آنحضرت ﷺ نے اس کے آزاد کرنے کا حکم دیا تھا۔ (مسلم کتاب النذورباب صحبۃ المحالیک کفارہ من لطم عبدہ) زدوکوب تو بڑی بات ہے صحابہ کرام لونڈیوں اورغلاموں کو آدھی بات بھی کہنا پسند نہیں کرتے تھے، ایک بار رات کو عبدالملک اٹھا اوراپنےخادم کو آواز دی اس نے آنے میں دیر لگائی تو اس نے اس پر لعنت بھیجی، حضرت ام الدرداءؓ اس کے محل میں تھیں، صبح ہوئی تو کہا کہ تم نے رات اپنے خادم پر لعنت بھیجی حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے فریاما ہے کہ لعنت بھیجنے والے قیامت کے دن شفعا ء اور شہداء نہ ہوں گے۔ (مسلم کتاب البرد الصلۃ وآداب باب الہنی عن لعن الدواب وغیرہا) ایک بار حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اپنے ایک دوست سے ملنے آئے وہ موجود نہ تھے ،ان کی بی بی سے پانی مانگا، اس نے لونڈی کو ہمسایہ کے گھر بھیجا کہ دودھ مانگ لائے، لونڈی نے آنے میں دیر لگائی تو اس نے اس پر لعنت بھیجی، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ گھر سے نکل آئے ان کے دوست آئے تو کہا آپ سے کیا پردہ تھا گھر میں آکر بیٹھے ہوتے کھایا پیا ہوتا، بولے سب کچھ کرلیا؛ لیکن آپ کی بی بی نے لونڈی پر لعنت بھیجی اوررسول اللہﷺ نے فرمایا ہے کہ اگر لعنت بے محل ہوتی ہے تو خود لعنت بھیجنے والے پر لوٹ آتی ہے اس لئے مجھے اس سے خوف پیدا ہوا کہ شاید لونڈی معذور ہو اور وہ لعنت آپ کی بی بی پر لوٹ آئے اور میں اس کا سبب بنوں اس خیال سے گھر سے باہر نکل آیا۔ (مسند ابن حنبل ،جلد۱صفحہ ۴۰۸،مسند عبداللہ ابن مسعودؓ) صحابہ کرام غلاموں کے آرام وآرائش کا نہایت خیال رکھتے تھے، ایک بار حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے گھر کا منتظم آیا تو انہوں نے پوچھا، غلاموں کو کھانا دیا یا نہیں، بولا نہیں فرمایا جاؤ اور دو، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ یہ تو بڑے گناہ کی بات ہے کہ آدمی غلاموں کی روزی کو روک رکھے۔ (مسلم کتاب الزکوٰۃ باب فضل النفقہ علی العیال واللمملوک ) صحابہ کرام غلاموں سے کبھی سخت کام نہیں لیتے تھے، ایک بار ایک شخص حضرت سلمان فارسیؓ کے یہاں آیا دیکھا کہ بیٹھے ہوئے آٹا گوندھ رہے ہیں، اس نے کہا کہ غلام کہاں ہے ،بولے ہم نے اس کو ایک کام کے لئے بھیجا ہے،اس لیے یہ پسند نہیں کیا کہ اس سے دودو کام لیں۔ (طبقات ابن سعد تذکرہ حضرت سلمان فارسی ؓ) حضرت عثمانؓ رات کو اُٹھ کر خود وضو کا پانی لے لیا کرتے تھے، لوگوں نے کہا اگر آپ کسی خادم سے کہہ دیتے تو وہ یہ کام کردیتا بولے نہیں رات ان کے آرام کے لیے ہے۔ (طبقات ابن سعد تذکرہ حضرت عثمانؓ) اسی حسن سلوک کا یہ نتیجہ تھا کہ غلام صحابہ کرام پر جان دیتے تھے اورن کے ارشادات کی بطیب خاطر تعمیل کرتے تھے، افلح نامی حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کا غلام تھا، انہوں نے اس کو مکاتب بناکر آزاد کرنا چاہا تو تمام لوگوں نے اس کو مبارک باددی؛ لیکن بعد میں حضرت ابو ایوب انصاریؓ نے معاہدہ کتابت کو فسخ کرناچاہا اوراس کے یہاں کہلا بھیجا کہ تمہیں مثل سابق کے غلامی کی حالت میں رہنا ہوگا، افلح کے اہل وعیال نے کہا کہ تم پھر غلام بننا پسند کروگے؟ حالانکہ خدانے تم کو آزاد کردیا تھا، اس نے کہا کہ میں ان کی کسی بات کا انکار نہیں کرسکتا ،چنانچہ خود اس معاہدہ کو فسخ کردیا اس کے چند ہی دنوں کے بعد حضرت ابو ایوب ؓ انصاری نے اس کو آزاد کردیا اورکہا کہ جو مال تمہارے پاس ہو وہ کل تمہارا ہے۔ (طبقات ابن سعد تذکرہ افلح) باہمی محبت صحابہ کرام باہم نہایت الفت و محبت رکھتے تھے، اس لیے جب کسی صحابی کو کسی قسم کا دکھ درد پہنچتا تھا تو دوسرے صحابہ کے دل بھر آتے تھے حضرت عمرؓ کو جب ابن لولو نے زخمی کیا تو تمام صحابہ کو اس قدررنج ہوا کہ گویا ان پر کبھی ایسی مصیبت نہیں آئی تھی، حضرت عائشہ الگ رورہی تھیں۔ (بخاری کتاب المناقب باب قضیۃ البیعۃ والا تفاق علی عفان بنؓ عثمان) حضرت صہیبؓ پاس آئے اور وااخیاہ وااخیاہ کہہ کر رونے لگے۔ (نسائی کتاب الجنائز باب النیاحۃ علی المیت) حضرت عمرؓ کا انتقال ہوا تو تمام صحابہ نے ان کے تابوت کو گھیر لیا اوردعائیں کرنے لگے۔ (سنن ابن ماجہ باب فضل ابی بکرؓ الصدیقؓ ) حضرت علیؓ نے پاس پہنچ کر کہا ،خدا تم پر رحم کرے مجھے توقع ہے کہ خدا تم کو تمہارے دونوں رفقاء (حضرت ابوبکرؓ ورسول اللہ) کی معیت عطاکرے گا، کیونکہ رسول اللہ ﷺ اکثر کہا کرتے تھے کہ میں ابوبکرؓ اور عمرؓ تھے میں نے ابو بکرؓ اور عمرؓ نے یہ کام کیا تھا۔ (بخاری کتاب المناقب فضائل ابی بکرؓ) صحابہ کرام حضرت عمرؓ کی تجہیز و تکفین سے فارغ ہوئے تو سب کے سامنے دسترخوان بچھایا گیا؛لیکن رنج و غم کی وجہ سے کسی نے کھانے کو ہاتھ لگانا پسند نہیں کیا، بالآخر حضرت عباسؓ کے سمجھانے سے سب نے کھانا کھایا۔ (طبقات ابن سعد تذکرہ حضرت عباسؓ) ایک بار صحابہ کرام رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شہداء کے مزار کی زیارت کونکلے، پہاڑ پر چڑھے تو قبریں نظرآئیں، محبت کے لہجے میں بولے، یا رسول اللہ یہ ہمارے بھائیوں کی قبریں ہیں فرمایا ہمارے اصحاب کی قبریں ہیں۔ (ابوداؤد کتاب المناسک باب زیارۃ القبور) ایک بار واقدبن عمرؓ وبن سعد بن معاذ حضرت انسؓ بن مالک کی خدمت میں حاضر ہوئے ،انہوں نے نام پوچھا، اورسلسلہ نسب میں حضرت سعد بن معاذؓ کا نام آیا توفرمایا تمہاری صورت سعدؓ سے مشابہ ہے وہ سب میں بڑے اور لمبے تھے یہ کہہ کر روپڑے۔ (نسائی کتاب الزنیۃ باب لبس الدیباج المنسوج بالذہب و ترمذی کتاب اللباس باب لیس الحریر فی الحرب) ایک مرتبہ حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓکے سامنے کھانا آیا، ان کو ابتدائے اسلام کا افلاس یاد آگیا، بولے مصعبؓ بن عمیر مجھ سے بہتر تھے وہ شہید ہوئے اورایک چادر کے سوا ان کو کفن میسر نہ ہوا، حمزہؓ یا کوئی اورصحابی جو مجھ سے بہتر تھے شہید ہوئے اور ایک چادر کے سوا ان کو کفن نہ ملا شاید دنیا ہی میں ہم کو ہمارے طیبات مل گئے یہ کہہ کر رونے لگے اورکھانا چھوڑدیا۔ (بخاری کتاب الجنائز باب الکفن من جمیع المال مع فتح الباری) باہمی اعانت صحابہ کرام مصیبت میں آفت میں کشمکش میں ایک دوسرے کی اعانت فرماتے تھے، جنگ کی حالت میں ہر شخص کو اپنی ہی جان کی فکررہتی ہے ؛لیکن صحابہ کرام اس موقع پر بھی دوسروں کی اعانت کے لیے اپنی جان تک کو خطرہ میں ڈ ال دیتے تھے ،حضرت ابو قتادہؓ کا بیان ہے کہ میں نے حنین میں دیکھا کہ ایک کافر ایک مسلمان پر غالب آنا چاہتا ہے، میں چکر دے کر آیا اوراس کی پشت کی جانب سے گردن پر ایک تلوار ماری وہ میری طرف بڑھا اورمجھ کو اس طرح دبوچ لیا کہ مجھے موت کی خوشبو آنے لگی اورپھر مرہی کے چھوڑا۔ (ابوداؤد کتاب الجہاد باب فی الصلب یعطی القاتل) قبیلہ اشعری کے لوگ مدینہ میں ہجرت کرکے آگئے تھے ان لوگوں میں باہم اس قدر تعاون تھا کہ جب غزوات میں ان کا زادراہ ختم ہوجاتا تھا، یا خود مدینہ میں مبتلا ئے فقر وفاقہ ہوجاتے تھے تو ہر شخص کے گھر میں جو کچھ ہوتا تھا، وہ لاکر سب کے سامنے رکھ دیتا تھا، اوریہ سب لوگ اس کو برابر برابر تقسیم کرلیتے تھے۔ (مسلم کتاب الفضائل باب من فضائل الاشعرین) ہمسایہ عورتیں اپنی پڑوسنوں کو ہر قسم کی مدد دیتی تھیں، حضرت اسماؓ کو روٹی پکانا نہیں آتی تھی ؛لیکن ان کی پڑوسنیں ان کو روٹی پکادیا کرتی تھیں۔ (مسلم کتاب السلام بَاب جَوَازِ إِرْدَافِ الْمَرْأَةِ الْأَجْنَبِيَّةِ إِذَا أَعْيَتْ فِي الطَّرِيقِ) ایک دن کچھ مفلوک الحال لوگ حضرت عبداللہ بن عمرؓو بن العاص کی خدمت میں حاضر ہوئے اورکہا کہ خدا کی قسم نہ ہم کو نفقہ ملتاہے نہ سواری ملتی نہ اسباب ملتا، بولے اگر چاہو تو خدا جو توفیق دے ہم تم کو دیں یا بادشاہ کے دربار میں تمہاری سفارش کردیں، اوراگر جی میں آئے تو صبر کرو کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ فقراء ومہاجرین امراء سے چالیس سال پیشتر جنت میں داخل ہوں گے ،ان لوگوں نے کہا ہم صبر کرتے ہیں اور کچھ نہیں مانگتے۔ (مسلم کتاب الزہد) حضرت زبیرؓ نے لاکھوں روپے قرض چھوڑ کر انتقال فرمایا تھا، اورحضرت عبداللہ بن زبیرؓ اس کو ادا کرنا چاہتے تھے، ایک بار حضرت حکیم بن حزامؓ سے ملاقات ہوگئی تو انہوں نے کہا یہ قرض کیونکر ادا کروگے؟ اگرضرورت ہوتو مجھ سے لےلو میں اعانت کروں گا یہ صرف زبانی دعویٰ نہ تھا، بلکہ انہوں نے چار لاکھ سے ان کی اعانت بھی کرنا چاہی؛ لیکن انہوں نے قبول نہیں کیا۔ (بخاری کتاب الجہاد باب برکۃ الغازی فی مالہ حیاد یلتا مع فتح الباری) جب عورتوں کو شکایت پیدا ہوتی تھی،تو وہ حضرت عائشہؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنا درد دکھ کہتی تھیں وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں نہایت پرزور طریقہ سے ان کی سفارش کرتی تھیں، ایک بار ان کی خدمت میں ایک عورت سبز ڈوپٹہ اوڑھ کر آئی اور جسم کھول کر دکھایا کہ شوہر نے اس قدر مارا ہے کہ بدن پر نیل پڑ گئے ہیں، رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو حضرت عائشہؓ نے کہا کہ مسلمان عورتیں جو مصیبت برداشت کررہی ہیں ہم نے ویسی مصیبت نہیں دیکھی ،دیکھئے اس کا چمڑا اس کے دوپٹے سے زیادہ سبز ہوگیا ہے ،بخاری کی روایت میں ہے ۔ وَالنِّسَاءُ يَنْصُرُ بَعْضُهُنَّ بَعْضًا (بخاری کتاب اللباس باب الثیاب الخضر) عورتوں کی یہ فطرت ہے کہ ایک دوسرے کی اعانت کرتی ہیں۔ ایک شخص کی بی بی بیمار تھیں، وہ حضرت ام الدرداؓ کے پاس آئے، انہوں نے حال پوچھا تو انہوں نے کہا بیمار ہے، انہوں نے ان کو بٹھلاکر کھانا کھلایا اورجب تک ان کی بی بی بیمار رہیں حال پوچھتی اورکھانا کھلاتی رہیں۔ (ادب المفرد باب صفحہ۷۴) حضرت ربیعہ ا سلمیؓ نہایت مفلس صحابی تھے، انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے حکم سے شادی کرنا چاہی ؛لیکن خود ان کے پاس مہر اور دعوتِ ولیمہ کا کوئی سامان نہ تھا، اس لیے ان کے قبیلہ کے لوگوں نے اعانت کی اورتمام سامان ہوگیا۔ (مسند ابن حنبل ،جلد۴،صفحہ ۵۸) ایک کے رنج و مسرت میں دوسرے کی شرکت آپسی محبت واتحاد نے صحابہ کرام کو ایک جان دو قالب بنادیا تھا، اس لیے وہ ایک کے رنج کو اپنا رنج اورایک کی خوشی کو اپنی خوشی سمجھتے تھے اوراس میں شریک ہوتے تھے، ایک بار حضرت زید بن ارقمؓ نے ایک واقعہ بیان کیا؛ لیکن رسول اللہ ﷺ نے اس کی تصدیق نہیں فرمائی، اس لئے ان کو سخت صدمہ ہوا ،اس کے بعد قرآن مجید نے ان کی تصدیق کی ،جس پر ان کو نہایت مسرت ہوئی اس لئے حضرت ابوبکرؓ ان سے ملے تو مبارک باددی ۔ (ترمذی تفسیر القرآن تفسیر سورۃ المنفقین) غزوۂ تبوک کی عدم شرکت کے جرم میں حضرت کعب بن مالک ؓ حضرت بلال بن امیہؓ حضرت مرارہ بنؓ ربیع کی توبہ مقبول ہوئی اور رسول اللہ ﷺ کی ناراضی کا خاتمہ ہوا تو اس بارے میں جو آیت نازل ہوئی حضرت ام سلمہؓ نے رات ہی کو حضرت کعب بن مالکؓ کو اس کی اطلاع دینی چاہی لیکن آپﷺ نے فرمایا کہ اگر تم نے ایسا کیا تو لوگ ٹوٹ پڑیں گے اورسونا دشوار ہوجائے گا۔(بخاری کتاب التفسیر تفسیر سورہ توبہ باب قولہ وعلی ثلثہ الدین خلفواالخ) اس لئے آپ نے نماز فجر کے بعد اس کا اعلان کیا ،اس وقت حضرت کعب بن مالکؓ کو ٹھے کی چھت پر سخت پریشانی کی حالت میں بیٹھے ہوئے تھے،دفعتاً آواز آئی کہ خوش ہوجاؤ،دیکھا کہ لوگ جوق درجوق مبارک باد دینے کے لئے چلے آرہے ہیں، ایک صحابی گھوڑا اڑاتے ہوئے آئے ایک اورصحابی دوڑتے ہوئے پہنچے اورپہاڑ پر چڑھ کر بشارت دی، لوگ گروہ درگروہ آتے تھے اور کہتے تھے کہ کعب توبہ مبارک، مسجد نبوی ﷺ میں توبہ کا اعلان ہوا تھا اوروہ داخل مسجد ہوئے تو حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ نے دوڑکر مصافحہ کیا اورمبارک باددی۔ (بخاری کتاب المغازی باب غزوہ تبوک ) حضرت عائشہ پر جب اتہام لگایا گیا اور وہ اس رنج و غم میں رات دن رورہی تھیں تو ایک صحابیہ آئیں اوران کی یہ حالت دیکھ کر بے اختیار روپڑیں۔ (بخاری کتاب الشہادت باب تعدیل النساء بعضہن بعضا) حسن رفاقت اللہ تعالی نے اہل جنت کی شان میں فرمایا ہے: وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا۔ (النساء:۶۹) یہ لوگ کیا ہی اچھے رفیق ہیں۔ صحابہ کرام بھی اللہ تعالی کے مخصوص بندے تھے ،اس لئے انہوں نے عملاً دنیا ہی میں اپنے اوپر اس آیت کو منطبق کرلیا تھا۔ حضرت رافع بن عمروؓ نے ایک غزوہ میں رفیق صالح کی تلاش کی، حسن اتفاق سے حضرت ابوبکرؓ کا شرف رفاقت حاصل ہوگیا،ان کا بیان ہے کہ وہ مجھے اپنے بسترپر سلاتے تھے ،اپنی چادر اڑھاتے تھے،میں نے کہا کہ مجھے کوئی ایسی بات سکھایے جو مجھے فائدہ دے، بولے خدا کو مانو کسی کو اس کا شریک نہ بناؤ، نماز پڑھو، اگر مال ہو تو صدقہ دو دارالکفر سے ہجرت کرو اوردوشخصوں کے بھی حاکم نہ بنو۔ (اصابہ تذکرہ رافع بن عمروبن جابرؓ) بزرگوں کا ادب مَنْ لَمْ يَرْحَمْ صَغِيرَنَا وَيَعْرِفْ حَقَّ كَبِيرِنَا فَلَيْسَ مِنَّا۔ (ابوداؤد،باب فی الرحمۃ،حدیث نمبر:۴۲۹۲) جو لوگ ہمارے چھوٹوں پر رحم اورہمارے بزرگوں کا ادب نہیں کرتے وہ ہم میں سے نہیں ہیں۔ اس لئے صحابہ کرام بزرگوں کا نہایت ادب کرتے تھے، ایک بار مجلس نبوی میں حضرت ابوبکرؓ وحضرت عمرؓ بیٹھے ہوئے تھے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھ کو اس درخت کا نام بتاؤ جو مسلمانوں سے مشابہ ہے، ہر سال پھلتا ہے اور کبھی اس پر خزاں نہیں آتی، حضرت عبداللہ ؓ بن عمرؓ کے دل میں آیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے ؛لیکن ان دونوں بزرگوں کے ادب سے نہ بول سکے ،حضرت عمرؓ کو معلوم ہوا تو کہا کہ تم نے کیوں نہیں بتایا اگر تم بتادیتے تو وہ مجھ کو فلاں فلاں چیزوں سے بھی زیادہ محبوب ہوتا ،بولے جب آپ اور حضرت ابوبکرؓ نہیں بولے تو میں نے بولنا پسند نہیں کیا۔ (بخاری کتاب الاحزاب باب اکرام الکبیر) ایک دن وہ رسول اللہ ﷺ ْ کے ہمراہ چلے کسی طرف سے حضرت ابوبکرؓ بھی آگئے وہ دائیں طرف سے ہٹ کر آپ کے بائیں جانب آگئے تھوڑی دیر میں حضرت عمرؓ نے بھی شرف رفاقت حاصل کیا اب وہ بالکل کنارے ہوگئے۔ (مسند ابن حنبل ،جلد۲،صفحہ۱) ایک بار حضرت عبداللہ بن قیسؓ بن محزمہ(ان کا صحابی ہونا مختلف فیہ ہے) مسجدقبا میں نماز پڑھ کر خچر پر سوار ہو کر نکلے راہ میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ مل گئے انہوں نے دیکھا تو فوراً اتر پڑے اورکہا کہ چچا جان اس پر سوار ہوجایے۔ (مسند ابن حنبل، جلد۲،صفحہ۱۱۹) حضرت عبداللہ بن عباسؓ حضرت عمرؓ کے خاص تربیت یافتہ تھے وہ ایک سال سے ان سے ایک مسئلہ پوچھنا چاہتے تھے مگرہمت نہیں ہوتی تھی، ایک موقع پر وہ مسئلہ پوچھا تو کہا خدا کی قسم سال بھر سے پوچھنا چاہتا تھا، مگر آپ کے خوف سے ہمت نہیں پڑتی تھی ،یہ حسن ادب تھا، لیکن حضرت عمرؓ نے بھی یہ شفقت آمیز جواب دیا کہ ایسا نہ کرو، اگر تمہارا یہ خیال ہوکہ میرے پاس کسی چیز کا علم ہے تو پوچھ لیا کرو اگر مجھے معلوم ہو گا تو ضرور بتادوں گا۔ (مسلم، بَاب فِي الْإِيلَاءِ وَاعْتِزَالِ النِّسَاءِ وَتَخْيِيرِهِنَّ،) دوستوں کی ملاقات ملاقات ازدیاد محبت کا نہایت مؤثر ذریعہ ہے صحابہ میں باہم محبت تھی اور وہ اس محبت کو ترقی دینا چاہتے تھے، اس لئے دوستوں سے اکثر ملاقات کرتے تھے ،حضرت ام الدرداؓ شام میں رہتی تھیں؛ لیکن ایک مرتبہ حضرت سلمان فارسیؓ پا پیادہ مدائن سے ان کے ملنے کو آئے۔ (ادب المفرد باب الزیارۃ) ایک دن بہت سے صحابہ حضرت جابرؓ سے ملنے آئے ،انہوں نے روٹی اورسرکہ سامنے رکھ دیا اورکہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ سرکہ بہترین سالن ہے وہ شخص ہلاک ہوجائے گا جس کے پاس اس کے احباب آئیں اور وہ اس چیز کو حقیر سمجھ کر ان کے سامنے پیش نہ کرے جو اس کے گھر میں موجود ہو اور وہ احباب بھی ہلاک ہو جائیں گے جو اس کو حقیر خیال کریں۔ (مسند ابن حنبل ،۳،صفحہ۳۵۰) ایک دفعہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اپنے ایک دوست (غالبا صحابی ہوں گے) سے ملنے آئے وہ گھر میں موجود نہ تھے آئے تو ان کو گھر کے باہر دیکھ کر بولے آپ سے کیا پردہ تھا گھر میں آکر بیٹھے ہوتے کھایا پیا ہوتا۔ (مسند ابن حنبل،جلد۱،صفحہ۴۷۸) ہدیہ دینا حدیث شریف میں آیا ہے کہ ہدیہ ازدیاد محبت کا ذریعہ ہے اس لئے صحابہ کرامؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اکثر ہدیہ بھیجا کرتے تھے حضرت نسیبہؓ انصاریہ اس قدر مفلس تھیں کہ ان پر صدقہ کا مال حلال تھا تاہم اس حالت میں بھی وہ ازواج مطہرات کی خدمت میں ہدیہ بھیجتی تھیں، ایک بار ان کے پاس صدقہ کی ایک بکری آئی تو انہوں نے اس کا گوشت حضرت عائشہ ؓ کے پاس ہدیۃ بھیجا۔ (بخاری کتاب الزکوٰۃ باب اذا نخوست الصدقہ) حضرت بریرہؓ کے پاس بھی جو کچھ صدقہ میں آتا تھا وہ ازواج مطہرات کو ہدیہ دیا کرتی تھیں۔ (مسلم کتاب الزکوٰۃ باب ماجہ الہدیہ النبی ولبنی ہاشم وبنی عبدالمطلب وان کان المہدی ملکہا بطریق الصدقہ ) عیادت صحابہ کرام مریضوں کی عیادت کو اپنا فرض خیال کرتے تھے ،ایک بار حضرت سعدؓبن عبادہ بیمار ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،تم میں کون ان کی عیادت کرتا ہے؟ باوجود یکہ غربت وافلاس سے صحابہ کرام کے پاؤ ں میں جوتے نہ تھے موزے نہ تھے سر پر ٹوپی نہ تھی بدن پر کپڑا نہ تھا؛لیکن با ایں ہمہ دس پندرہ بزرگ پتھر یلی زمین میں ننگے پاؤں اورکھلے سر گئے اوران کی عیادت کی۔ (مسلم کتاب الجنائز باب فی عیادۃ المرضیٰ) ایک دن رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، تم میں آج کون روزے سے ہے؟ تم میں کوئی ایسا ہے جو آج کسی جنازے میں شریک ہوا ہو؟ تم میں آج کس نے مسکین کو کھلایا ہے؟ تم میں آج کس نے مریض کی عیادت کی ہے؟ حضرت ابوبکرؓ کی زبان سے ہر سوال کے جواب میں ہاں نکلی ،تو آپﷺ نے فرمایا جس شخص میں یہ تمام چیزیں جمع ہوجائیں وہ جنت میں ضرور داخل ہوگا۔ (مسلم کتاب الزکوٰۃ باب من جمع الصدقہ واعمال البرمسند،جلد۳،صفحہ۱۸ میں یہ واقعہ حضرت عمرؓ کی طرف منسوب ہے) ایک بار ایک صحابی بیمار تھے حضرت ام الدردؓا اونٹ پر سوار ہوکر آئیں اوران کی عیادت کی۔ (ادب المفرد باب عیادۃ النساء الرجل المریض) ایک بار حضرت شداد بن اوس شام کے وقت کہیں جارہے تھے کسی نے پوچھا کہاں کا ارادہ ہے؟ بولےیہیں ایک مریض بھائی کی عیادت کو جاتا ہوں۔ (مسند ابن حنبل ،جلد۴،صفحہ ۱۲۳) تیمار داری صحابہ کرام نہایت دلسوزی سے مریضوں کی تیمار داری کرتے تھے، مہاجرین کے قیام کے متعلق جب قرعہ کے ذریعہ فیصلہ کیا گیا تو حضرت عبداللہ بن مظعونؓ حضرت ام العلاؓ کے حصے میں آئے وہ بیمار ہوئے تو ان کے تمام خاندان نے نہایت دلسوزی سے تیمارداری کی،ان کا انتقال ہوا تو کفن پہنانے کے بعد حضرت ام العلاءؓ نے محبت کے لہجے میں کہا تم پر خدا کی رحمت ہو میں شہادت دیتی ہوں کہ خدانے تمہاری عزت کی۔ (بخاری کتاب الشہادات باب القرعہ فی المشکلات) حضرت زینبؓ مرض الموت میں بیمار ہوئیں تو حضرت عمرؓ نے ازواج مطہرات سے معلوم کروایا کہ کون ان کی تیمارداری کرےگا؟ تمام بیویوں نے کہا ہم تیمارداری کریں گے،ان کا انتقال ہوا تو پھر دریافت کیا کہ ان کو کون غسل و کفن دے گا، تمام بیویوں نے کہا ہم۔ (طبقات بن سعدتذکرہ حضرت زینبؓ بنت حجشؓ) تعزیت(میت کے گھر والوں سےہمدردی کااظہار کرنا) صحابہ کرام رنج و غم میں ایک دوسرے کے شریک تھے، اس لیے عزاداری کو اپنا فرض بنالیا تھا، ایک بار رسول اللہ ﷺ ایک صحابی کو دفن کرکے آرہے تھے راہ میں دیکھا کہ حضرت فاطمہؓ جارہی ہیں پوچھا گھر سے کیوں نکلیں؟ بولیں، اس گھر میں تعزیت کے لئے گئی تھیں۔ (ابوداؤد، کتاب الجنائز ،باب فی التعزیہ) حضرت انسؓ بن مالکؓ کی متعدد اولاد غزوہ حرہ میں شہید ہوئی، توحضرت زید بن ارقم نے خط کے ذریعہ سے رسم تعزیت اداکی۔ (ترمذی کتاب لفجائل فصل الانصار و قریش) عرب میں ایک عزاداری یہ تھی کہ عورتیں برادری میں جاکر میت پر نوحہ کرتی تھیں، یہ جاہلیت کی رسم تھی؛ لیکن اسلام نے اس کو مٹادیا چنانچہ جب عورتیں اسلام لاتی تھیں تو ان سے اس کا بھی معاہدہ لیا جاتا تھا۔ ایک بار رسول اللہ ﷺ نے حضرت ام عطیہؓ سے یہ معاہدہ لینا چاہا تو بولیں فلاں فلاں خاندان نے زمانہ جاہلیت میں ہمارے مردوں پر نوحہ کیا ہے مجھے اس کے بدلے میں نوحہ کرنا ضروری ہے؛ چنانچہ آپ نے ان کو اس کی اجازت دی۔ (مسلم کتاب الجنائز ،بَاب التَّشْدِيدِ فِي النِّيَاحَةِ) سلام کرنا السلام علیکم،اگرچہ نہایت مختصر اورسادہ فقرہ ہے؛ لیکن حصول محبت کے لئے عمل تسخیر کا حکم رکھتا ہے، اس بنا پر قرآن مجید میں اللہ تعالی نے اس کی سخت تاکید فرمائی ہے۔ وَإِذَا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ حَسِيبًا۔ (النساء:۸۶) اور جب تمہیں کوئی شخص سلام کرے تو تم اس سے بھی بہتر طریقے پر سلام کرو،یا(کم ازکم)ان ہی الفاظ میں اس کا جواب دےدو،بے شک اللہ ہر چیز کا حساب رکھنے والا ہے۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَى أَهْلِهَا ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ ۔ (النور:۲۷) اے ایمان والو اپنے گھر کے سوا دوسرے گھروں میں اُس وقت تک داخل نہ ہوں جب تک اجازت نہ لے لو اور اُن میں بسنے والوں کو سلام نہ کرلو۔ اوراسی بناپر رسول اللہ ﷺ جب اول اول مدینہ منورہ میں تشریف لائے تو سب سے پہلے یہ تعلیم دی۔ أَيُّهَا النَّاسُ أَفْشُوا السَّلَامَ وَأَطْعِمُوا الطَّعَامَ وَصَلُّوا وَالنَّاسُ نِيَامٌ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ بِسَلَام۔ (ترمذی، بَاب مَا جَاءَ فِي صِفَةِ أَوَانِي الْحَوْضِ،منہ،حدیث نمبر:۲۴۰۹) لوگو!باہم سلام کرو اور کھانا کھلاؤ اور جب لوگ سورہے ہوں تو نماز پڑھو، تاکہ اس کے بدلہ میں جنت میں اطمینان سے داخل ہوجاؤ۔ اس لئے صحابہ کرام اس پر بہت زیادہ عمل کیا کرتے تھے ،ایک بار حضرت ابوبکرؓ اونٹ پر سوار جارہے تھے،جو لوگ راہ میں ملتے اوروہ ان کو سلام کرتے تو صرف السلام علیکم کہتے؛ لیکن وہ جواب میں السلام علیکم ورحمتہ اللہ کہتے اب وہ بھی اسی کا اعادہ کرتے وہ لوگ اوراضافہ کے ساتھ السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ کہتے بالآخر فرمایا کہ، یہ لوگ ہم سے بہت بڑھ کر رہے۔ (ادب المفرد، باب فضل السلام) حضرت انسؓ بن مالک بصرہ میں نکلتے تو راستے میں ہر شخص کو ہاتھ کے اشارے سے سلام کرتے۔ (باب من سلم اشارۃ) حضرت عبداللہ بن عمرؓ کا معمولی تھا کہ بازار میں جاتے اور ہر دوکان دار ہر مسکین اورہر مسافرغرض ہر شخص کو سلام کرتے، ایک شخص نے پوچھا کہ بازار میں آپ نہ بھاؤ تاؤ کرتے نہ سودا سلف خرید تےہیں، نہ کہیں بیٹھتےہیں پھر کس کام سے آتے ہیں؟ بولے ،صرف سلام کرنے کے لئے،(ادب المفرد باب من خرچ یسلم ویسلم علیہ) جب وہ سلام کا جواب دیتے تو سلام کرنے والے کے جواب میں بعض فقرے کا اضافہ کردیتے ایک بار ایک شخص نے بار بار ان ہی کے اضافہ کے ساتھ سلام کیا تو اخیر میں انہوں نے جو جواب دیا وہ بہت طویل تھا یعنی السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ وطیب صلوٰۃ۔ (ادب المفرد باب) اگر صحابہ کے درمیان ایک درخت بھی حائل ہوجاتا تو اس کی آڑ سے نکلنے کے بعد جب دوبارہ سامنا ہوتا تو باہم سلام کرتے ۔ (ایضا باب حق من سلم اذا قام) مصافحہ سب سے پہلے اہل یمن جو نہایت محبت کیش،رقیق القلب اورمخلص لوگ تھے، مصافحہ کا تحفہ دربار رسالتﷺ میں لے کر حاضر ہوئے۔ (ابوداؤد کتاب الادب باب فی المصافحۃ) اورصحابہ کرام نے اس پر اس شدت سے عمل کیا کہ حضرت انس بن مالکؓ صرف دوستوں سے مصافحہ کرنے کے لئے روزانہ ہاتھوں میں خوشبودار تیل ملا کرتے تھے۔ (ادب المفرد باب من دمن یدہ للمصافحۃ) معاوضۂ احسان قرآن مجید میں ہے: ہَلْ جَزَاءُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُ (الرحمن:۶۰) احسان کا بدلہ صرف احسان ہے۔ صحابہ کرام کی زندگی اس آیت کی عملی تفسیر تھی،ایک غزوہ میں صحابہ کرام سخت پیاسے ہوکر پانی کی جستجو میں نکلے تو ایک عورت ملی جس کے ساتھ پانی تھا،صحابہ کرام اس کو استعمال میں لائے اور رسول اللہ ﷺ نے اس کو معاوضہ دلوادیا، لیکن باوجود معاوضہ دینے کے صحابہ کرام نے ہمیشہ اس کے اس احسان کو یادرکھا؛ چنانچہ جب اس کے گاؤں کے پاس حملہ کرتے تھے تو اس کے گھرانے کو چھوڑدیتے تھے۔ (بخاری کتاب التیمم باب الصعید الطیب وضوا المسلم یکفیہ عن الماء) سپاس گذاری(محسن کا شکر ادا کرنا) حدیث شریف میں آیا ہے من لم یشکر الناس لم یشکر اللہ جو لوگ انسانوں کا شکریہ ادا نہیں کرتے وہ خدا کے بھی شکر گزار نہیں ہوتے۔ اس بنا پر صحابہ کرام اپنے محسنوں کے نہایت سپاس گذار رہتے تھے ،رسول اللہ ﷺ کے ہجرت کرنے سے پہلے بہت سے صحابہ مدینہ پہنچ گئے ، آپ تشریف لائے تو انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم نے انصار سے زیادہ فیاض اورغمگسار قوم نہیں دیکھی ،انہوں نے ہمارا بار اٹھالیا، ہم کو اپنا شریک بنالیا ،ایسا نہ ہوکہ کل ثواب وہی لوٹ لیں، ارشاد ہوا کہ جب تک ان کے لئے خدا سے دعا کرتے رہوگے،ان کی تعریف کرتے رہوگے ایسا نہ ہوگا۔ (ترمذی ابواب الزہد) حسن ظن صحابہ کرام ایک دوسرے کی نسبت ہمیشہ نیک گمان رکھتے تھے،ایک دفعہ کوفہ والوں نے حضرت عمرؓ کی خدمت میں حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کی شکایت کی کہ وہ نماز صحیح طریقہ سے نہیں پڑھاتے،انہوں نے ان سے دریافت کیا تو بولے میں بالکل رسول اللہ ﷺ کا اتباع کرتا ہوں انہوں نے کہا تمہاری نسبت یہی گمان تھا۔ (ابوداؤد کتاب الصلوٰۃ باب تخفیف الآخر ) ایک شخص جس کے ہاتھ پاؤں چوری کے جرم میں کاٹ ڈالے گئے تھے، حضرت ابوبکرؓ کا مہمان ہوا، انہوں نے دیکھا کہ وہ رات کو اُٹھ کر نماز پڑھتا ہے،تو بولے کہ تمہاری رات تو چوروں کی سی نہیں معلوم ہوتی تمہارے ہاتھ پاؤں کس نے کاٹے؟ اس نے کہا یعلی بن منیہ نے یہ ظلم کیا ہے فرمایا میں اس کی نسبت ان کو لکھوں گا، اس کے چند ہی دنوں بعد حضرت اسماؓ بنت عمیس کا ایک زیور غائب ہوگیا، اس کی تحقیقات کی گئی ،تو ایک سنار کے پاس ملا وہ حاضر کیا گیا تو اس نے کہا کہ اسی ہاتھ وپاؤں کے کاٹے ہوئے شخص نے مجھ کو یہ زیوردیا،حضرت ابوبکرؓ نے کہا، یہ چوری کوئی بڑی چیز نہیں ؛البتہ اس نے مجھ کو اپنے مذہبی تقدس کی بناپر جو فریب دیا وہ بہت بڑا جرم ہے اس کے پاؤں کاٹ ڈالو۔ (دارقطنی کتاب الحدود،صفحہ نمبر ۳۶۵) واقعۂ افک کو اگرچہ منافقین نے بے حد شہرت دی،تاہم صحابۂ کرام کو ازواج مطہرات کے ساتھ جو حسن ظن تھا اس کی بنا پر متعدد صحابہ نے صاف صاف کہہ دیا کہ: سُبْحَانَكَ مَا يَكُونُ لَنَا أَنْ نَتَكَلَّمَ بِهَذَا سُبْحَانَكَ هَذَا بُهْتَانٌ عَظِيم (بخاری کتاب الاعتصام بالکتاب دالسنۃ باب قول اللہ وامرہم شوریٰ بینہم) سبحان اللہ ہمارے لئے اس کا ذکر جائز نہیں سبحان اللہ یہ تو بہت بڑا بہتان ہے۔ بخاری میں ہے کہ اس جملہ کو ایک انصاری نے کہا تھا لیکن فتح الباری میں اورصحابہ کے نام بھی گنائے ہیں۔ مصالحت وصفائی فطرتِ انسانی کے اعتبار سے اگر صحابہ کرام میں باہم رنجش ہوجاتی تھی تو وہ نہایت خلوص کے ساتھ باہم صفائی کرلیتے تھے، اورچند روزہ ناگواری پر ان کو اس قدر افسوس ہوتا تھا کہ جب اس ناگوار حالت کا تذکرہ یا اس کا خیال آتا تھا تو آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہوجاتے تھے ،ایک معاملہ میں حضرت عائشہؓ حضرت عبداللہ ؓبن زبیرؓ سے اس قدر ناراض ہو گئیں کہ بول چال تک بند کرنے کی قسم کھالی، لیکن معاف کردینے کے بعد جب ان کو یہ قسم یاد آتی تھی تو اس قدر روتی تھیں کہ ڈوپٹہ تر ہوجاتا تھا۔ (بخاری کتاب الادب، باب الہجرۃ) ابتدا میں اگرچہ حضرت علیؓ نے حضرت ابوبکرؓ کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی؛ لیکن بعد کو انہوں نے خود حضرت ابوبکرؓ کو اس غرض سے بلایا اورکہا کہ اے ابوبکرؓ ہم کو تمہاری فضیلت کا اعتراف ہے اور اگر خدا نے تم پر یہ احسان (خلافت) کردیا تو ہم کو اس پر رشک نہیں ان کی اس مخلصانہ تقریر کا حضرت ابوبکرؓ پر یہ اثر ہوا کہ آبدیدہ ہوگئے اورفرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے رسول اللہ ﷺ کی قرابت مجھ کو خود اپنی قرابت سے زیادہ عزیز ہے، ہمارے اور تمہارے درمیان جن معاملات میں اختلاف ہوگیا تھا ،ان میں حق سے بالکل تجاوز نہ کروں گا، رسول اللہ ﷺ نے جو کچھ کیا ہے اسی کے مطابق عمل کروں گا، باہمی صفائی کے بعد حضرت علیؓ نے بیعت کے لئے سہ پہر کا وقت مقرر فرمایا، ظہر کی نماز ہوچکی تو حضرت ابوبکرؓ نے منبر پر کھڑے ہو کر ان کے تمام عذرات جو عدم بیعت کا سبب تھے بیان کئے، اس کے بعد حضرت علیؓ نے تقریر کی جس میں حضرت ابوبکرؓ کے تمام فضائل وحقوق خلافت کا اعتراف کیا اور کہا کہ میں نے جو کچھ کیا وہ اس بنا پر نہ تھا کہ مجھ کو حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ حسد و رشک تھا یا میں ان کے فضائل کا منکر تھا، لیکن ہم اپنے آپ کو خلافت کا مستحق سمجھتے تھے، اس لیے ہم کو اس پر رنج ہوا ،اس اعلان سے تمام مسلمان خوشی کے مارے کھل گئے اورحضرت علیؓ سے جو عام ناراضی پیدا ہوگئی تھی وہ ختم ہوگئی۔ (مسلم کتاب الجہاد وقول النبی صلی اللہ علیہ وسلم لانورث ماترکنا فہوصدقہ) معاصرین کی فضیلت کا اعتراف رشک وحسد علماء کا مایہ خمیر ہے ،اس لیے وہ معاصرین کی فضیلت کا بہت کم اعتراف کرتے ہیں، محدثین اسلامی اخلاق کا بہترین نمونہ تھے اس کے باوجود اصول حدیث کی کتابوں میں لکھا ہے کہ ایک محدث کی جرح دوسرے معاصر محدث پر قابل اعتبار نہیں؛ کیونکہ ان میں باہم رشک و حسد اور بغض و عناد ہوتا ہے؛ لیکن صحابہ کرام نہایت کشادہ دلی کے ساتھ معاصرین کی فضیلت کا اعتراف کرتے تھے، حضرت معاذ بن جبلؓ کا انتقال ہونے لگا تو لوگوں نے کہا کہ کچھ وصیت فرمائیے، بولے چارآدمیوں سے علم حاصل کرو،عویمرابی الدرداؓ، سلمانؓ فارسی، عبداللہ بن مسعودؓ، عبداللہ بن سلامؓ۔ (ترمذی ،کتاب المناقب، مناقب عبداللہ بن سلامؓ) ایک بار حضرت ابوہریرہؓ کے پاس کوفہ سے ایک بزرگ آئے اورکہا کہ علم حاصل کرنے کے لئے آیا ہوں بولے کیا تمہارے یہاں سعد بن مالکؓ، ابن مسعودؓ،حذیفہؓ،عمارؓ،اورسلمانؓ نہیں ہیں، ساتھ ساتھ ان کی فضیلت کی وجوہات بھی بیان کی۔ (ترمذی کتاب المناقب مناقب عبداللہ بن مسعودؓ) ایک دفعہ کوفہ میں ایک شخص نے حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے ایک فتویٰ پوچھا، انہوں نے جو جواب دیا، اس پر حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے اعتراض کیا،اگر اس زمانہ کے علماء ہوتے تو باہم لڑ بیٹھتے؛ لیکن حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ نے کہا کہ :اے اہل کوفہ! جب تک یہ نیک عالم (عبداللہ بن مسعودؓ )تم میں موجود ہے مجھ سے فتویٰ نہ پوچھو۔ (موطا مالکؓ، کتاب الرضاع، باب ماجاء فی الرضاعۃ بعدالکبر) مساوات صحابہ کرام ہرآدمی سے مساویانہ برتاؤ کرتے تھے اوران کے ساتھ مساویانہ معاشر ت رکھتے تھے، ایک بار حضرت صفوان بن امیہؓ ایک بڑے پیالہ میں کھانا لائے اور حضرت عمرؓ کے سامنے رکھ دیا، انہوں نے فقیروں اورغلاموں کو بلایا اورسب کو اپنے ساتھ کھانا کھلایا، اس کے بعد فرمایا خدا ان لوگوں پر لعنت کرے جن کو غلاموں کے ساتھ کھانا کھانے میں عار آتا ہے۔ (ادب الفرد باب ہل مجلس خادمہ معہ اذاکل) ایک بار حضرت عمرؓ گھی میں چوراکرکے روٹی کھارہے تھے ،ایک بدوکو بلالیا اوراپنے ساتھ شریک طعام کیا، وہ لقمہ اُٹھاتا تھا تو پیالے کی تلچھٹ تک سمیٹ لیتا تھا،فرمایا تم بہت ہی مفلس معلوم ہوتے ہو،بولا مدتوں سے نہ گھی دیکھا، نہ کوئی گھی کا کھانے والا نظر آیا، قحط کا زمانہ تھا، حضرت عمرؓ نے فرمایا جب تک بارش نہ ہوگی گھی نہ کھاؤں گا۔ (موطا محمد، ابواب السیر، باب الزہد والتواضع) ایک بار حضرت عبداللہ بن عمرؓ مدینہ کے اطراف میں نکلے، ساتھ ساتھ بہت سے احباب تھے،دسترخوان بچھایا گیا، تو ایک چرواہا آنکلا،اس نے سلام کیا توحضرت عبداللہ بن عمرؓ نے اس کو شریک طعام کرنا چاہا، اس نے عذر کیا کہ میں روزے سے ہوں بولے ایسے گرم دن میں روزہ رکھتے ہو؟اورپھر بکریاں چراتے ہو۔ (اسد الغابہ تذکرہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ) زمانہ جاہلیت میں حضرت خبابؓ اورحضرت بلالؓ دونوں غلام رہ چکے تھے، لیکن ایک بار حضرت خبابؓ حضرت عمرؓ کے پاس آئے تو انہوں نے ان کو اپنے گدے پر بٹھایا اور کہا کہ ایک شخص کے سوا کوئی ان سے زیادہ اس جگہ کا مستحق نہیں، انہوں نے پوچھا وہ کون یا امیر المومنین فرمایا بلالؓ۔ (طبقات ابن سعد تذکرہ حضرت خبابؓ بن الارت) ایک دن سردارانِ قریش میں حضرت ابوسفیان بن حرب اورحضرت حارث بن ہشامؓ وغیرہ حضرت عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اجازت طلب کرنے کے بعد انہوں نے سب سے پہلے اہل بدر کو جن میں حضرت صہیب ؓ ،حضرت بلالؓ اورحضرت عمارؓ بھی تھے،اندر آنے کی اجازت دی ،حضرات ابوسفیان کے دماغ میں اب تک زمانۂ جاہلیت کا غرور باقی تھا، اس لئے انہوں نے سخت ناگواری کے ساتھ کہا کیا قیامت ہے کہ ان غلاموں کو تواجازت مل جاتی ہے اور ہم لوگ بیٹھے ہوئے منہ تکتے ہیں، حضرت سہیلؓ بن عمروبھی ساتھ تھے بولے تمہارے چہروں سے غصے کے آثار ظاہر ہورہے ہیں؛لیکن تم کو خود اپنے اوپر غصہ کرنا چاہئے،اسلام نے سب کے ساتھ تم کو بھی بلایا، لیکن یہ لوگ آگے بڑھ گئے اور تم پیچھے رہ گئے۔ (اسد الغابہ، تذکرہ حضرت سہیلؓ بن عمروؓ) یہ لوگ فتح مکہ میں اسلام لائے تھے اورحضرت صہیبؓ وغیرہ سابقین اسلام میں سے تھے یہ اسی کی طرف اشارہ تھا۔ اگر کوئی شخص ایسا طرز عمل اختیار کرتا جو اخلاقی حیثیت سے مساوات کے خلاف ہوتا تو صحابہ کرام اس کو سخت ناپسند فرماتے، ایک بار حضرت مغیرہؓ بن شعبہ نکلے تو ایک شخص نے کہا السلام علیکم ایہا الامیر ورحمۃ اللہ اس کے بعد تمام لوگوں کی طرف خطاب کرکے کہا السلام علیکم بولے صرف السلام علیکم کافی تھا، میں بھی تو ان ہی میں سے ہوں۔ حضرت رویفعؓ انطابلس کے گورنر تھے، ایک شخص نے آکر ان کو اس طرح سلام کیا،"السلام علیک ایہا الامیر" انہوں نے کہا اگر تم ہمیں سلام کرتے تو ہم سب تمہارا جواب دیتے، تم نے گویا مسلمہ گورنر کو سلام کیا جاؤ وہی جواب بھی دیں گے۔ (ادب المفرد باب التسلیم علی الامیر) حضرت سہیل بن عمروسرداران قریش میں سے تھے اورزمانہ جاہلیت میں انصار کو اپنے سے کم رتبہ سمجھتے تھے؛ لیکن وہ برابر معاذ بن ؓ جبل کے پاس قرآن مجید کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے جاتے تھے ،ایک دن کسی نے کہا کہ آپ اس خزرجی کے پاس کیوں جاتے ہیں؟ اپنے قبیلہ کے کسی آدمی سے قرآن پاک کی تعلیم کیوں نہیں حاصل کرتے، بولے کہ اسی فخر و غزور نے تو ہم کو سب سے پیچھے رکھا۔ (اسد الغابہ، تذکرہ حضرت سہیل بن عمروؓ) فرق مراتب کا لحاظ صحابہ کرام اگرچہ آزادی اورمساوات کے پیکر مجسم تھے تاہم انہوں نے ان تمام امتیازات کو مٹانہیں دیا تھا،جن کو قرآن مجید نے ان الفاظ میں قائم کیا ہے۔ وفضلنا بعضھم علی بعض اورہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ اس لئے وہ ہر شخص سے اس حیثیت کے موافق برتاؤ کرتے تھے ،ایک بار حضرت عائشہؓ کی خدمت میں ایک فقیر آیا،انہوں نے اس کو روٹی کا ایک ٹکڑا دے دیا، پھر ایک خوش پوشاک آدمی آیا تو انہوں نے اس کو بٹھا کر کھانا کھلایا،لوگوں نے اس تفریق کی وجہ پوچھی تو بولیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے۔ انزلواالناس علی منازلھم (ابوداؤد کتاب الادب باب فی تنزیل الناس منازلہم) ہر شخص کو اس کے درجہ پر رکھو ایک بار حضرت ام سلمہؓ کواُون صاف کروانے کی ضرورت ہوئی تو ایک مکتب کے مدرس کے پاس آدمی بھیجا کہ غلاموں کو بھیج دو؛ لیکن آزاد لڑکے کو نہ بھیجنا،(بخاری، کتاب الدیات، باب من استعان عبداد صبیا) فتح الباری میں ہے کہ اس سے آزاد کا اعزاز مقصود تھا۔ حضرت عبداللہ بن عمرکی ایک لونڈی نے آزاد عورتوں کی سی وضع اختیار کی تھی، حضرت عمرؓ نے دیکھا تو ان کو ناگوار ہوا، حضرت حفصہؓ کے پاس گئے اورکہا کہ میں نے تمہارے بھائی کی لونڈی کو دیکھا کہ آزاد عورتوں کی وضع میں ادھر ادھر پھر رہی ہے۔ (موطا مالک ،کتاب الجامع، باب ماجاء فی الملوک دہبۃ)