انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** آنحضرت ﷺکے اخلاق وعادات بعض متفرق حالات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے حالات پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ماں کے پیٹ ہی میں یتیم ہوگئے تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی یتیمی وبے کسی کی حالت سے شروع ہوئی،مگر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو تمام ملکِ عرب کے شہنشاہ تھے عرب کا کوئی صوبہ ایسا نہ تھا جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیوی حکومت اورشہنشاہی نہ ہوگئی ہو،ان تما م حالات اورتمام مدارجِ زندگی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سادہ معاشرت یکساں طور پر نظر آتی ہے اورصحیح بخاری میں مذکور ہے،حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنے آپ کو دنیوی کام کاج میں دوسروں پر فضیلت نہیں دی ؛بلکہ جس طرح تم سب لوگ اپنے عمروں میں اپنا کام کرتے ہو ایسے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی کیا کرتے تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود ہی اپنی بکریوں کا دودھ دُوہ لیتے اور خود ہی اپنی جوتیاں گانٹھ لیتے تھے،مدینہ منورہ میں جب مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعمیر ہو رہی تھی تو آپ سب کاموں میں شریک تھے ،یہاں تک کہ معمولی مزدوروں کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اینٹیں اُٹھا اُٹھا کر لاتے تھے،جنگ احزاب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی خندق کھودنے والوں میں شامل تھے ،اپنے ہاتھوں سے مٹی اُٹھاتے اورپتھر توڑتے تھے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی غذا عموماً جو کی روٹی ہوتی تھی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں چھلنی نہ تھی،پھونک مار کر پھوسی اڑادی جاتی تھی، کبھی دو دن تک متواتر یہ جو کی روٹی بھی پیٹ بھر کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ ملی،بعض مرتبہ ایک ایک مہینہ تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر آگ نہیں جلی، صرف کھجوروں اور پانی پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروالوں نے زندگی بسر کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی کھانے کو برا نہیں کہا،نہ اس میں عیب نکالے جو کچھ موجود ہوتا وہی تناول فرمالیتے بھوک نہ ہوتی یا مرغوب نہ ہوتا تو ہاتھ کھینچ لیتے تھے۔ حضرت عائشہؓ سے پوچھا گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر آپ کے گھر میں کس چیز کا تھا،انہوں نے فرمایا کہ ادھوڑی کا،جس میں کھجوروں کی چھال بھری ہوئی تھی،یہی سوال حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بھی کیا گیا،انہوں نے فرمایا کہ ایک ٹاٹ کا ٹکڑا تھا جسے ہم دوہرا کردیا کرتے تھے ایک رات میں نے خیال کیا کہ اس کی چار تہیں کردوں تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ آرام ملے چنانچہ ایسا ہی کیا گیا جب صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ رات تم نے میرے لئے کیا بچھا یا تھا میں نے کہا کہ وہی آپ کا ٹاٹ تھا مگر اس کی چار تہیں کردی تھیں تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ آرام ملے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں تم اُسے جیسا پہلے تھا ویسا ہی کردو، اُ س نے رات مجھے نمازِ شب سے باز رکھا ،وفات سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میرے ورثاء کو میرے ترکے میں روپیہ پیسہ وغیرہ نقدی کچھ نہ ملے ،ایک یہودی کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زرہ بہ عوض تیس درہم گروی رکھی تھی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس زر نقد اتنا نہ تھا کہ اس کو چھڑا لیتے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ترکے میں اپنے ہتھیار، ایک خچر اورایک زرہ چھوڑی،ان چیزوں کی نسبت بھی یہی ارشاد تھا کہ خیرات کردی جائیں، کیا وہ لوگ اندھے نہیں ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نعوذ باللہ ذاتی اغراض ،نفسانی مقاصد،جاہ طلبی، حصولِ زرا اورملک گیری کے لئے اپنی قوم پر تلوار اُٹھائی تھی؟ حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ میں آٹھ برس کا تھا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور برابر دس برس تک خدمتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں رہا، مگر اس طویل مدت میں کبھی ایک مرتبہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُف تک نہیں کی اورنہ یہ فرمایا کہ یہ کام کیوں کیا اور وہ کام نہ کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے کبھی کوئی فحش اور بیہودہ کلمہ نہیں نکلا۔ حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں:ایک مرتبہ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا، مشرکین کے لئے بد دعا کیجئے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں لعنت کرنے کے لئے نہیں آیا ہوں ؛بلکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے رحمت بناکر بھیجا ہے،حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت میں بیہودگی اورلغویت بالکل نہ تھی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کو اپنی گود میں بٹھا لیتے اور اُن سے کھیلا کرتے ،مریضوں کی عیادت اورمزاج پُرسی کے لئے شہر کے دُور دراز محلوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے جاتے تھے جس کسی سے ملتے پہلے خود سلام کرتے ،کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مصافحہ کیا ہو ا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کے ہاتھ کھینچنے سے پہلے اپنا ہاتھ کھینچ لیا ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم احتراماً اپنے اصحاب کا نام نہ لیتے ؛بلکہ کسی کنیت سے مخاطب کرتے اور محبت آمیز پسندیدہ ناموں سے اُن کو یاد کرتے تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کا قطع کلام نہیں کرتے تھے ،البتہ اگر کوئی نازیبا بات کہتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے منع فرمادیتے یا اُٹھ کر کھڑے ہوجاتے تاکہ وہ خود ہی رُک جائے۔