انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** جرح وہی لائقِ قبول ہے جس کا سبب معلوم ہو کسی کے بارے میں نیک گمان کرنے کے لیئے دلیل کی ضرورت نہیں؛ لیکن بدگمانی کے لیئے دلیل ہونا لازمی ہے، بغیر دلیل کے کسی مسلمان کوبرا سمجھنا یاناقابلِ شہادت سمجھنا گناہ ہے، جس راوی پر جرح کی گئی ہو اور اس جرح کا سبب بھی معلوم ہو اور وہ راوی واقعی اس سبب کا مورد ہوتووہ جرح معتبر ہوگی اور ایسے راوی کی روایت مسترد کی جاسکے گی، ملا علی قاری علیہ رحمۃ لکھتے ہیں: "التجریح لایقبل مالم یبین وجھہ بخلاف التعدیل فانہ یکفی فیہ ان یقول عدل اوثقۃ مثلاً"۔ ترجمہ:وہ جرح جس کی وجہ واضح نہ ہولائقِ قبول نہیں، بخلاف تعدیل کے کہ اس میں راوی کوعادل یاثقہ جیسے الفاظ سے ذکر کردینا ہی کافی ہے۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے کتنے راوی ہیں جن پر جرح کی گئی ہے، جیسے عکرمہ مولیٰ بن عباس، اسماعیل بن ابی اویس، عاصم بن علی، عمروبن مرزوق، سوید بن سعید وغیرہم؟ مگرچونکہ وہ جرح مفسر اور مبین السبب نہ تھی، اس لیئے شیخین نے اسے قبول نہیں کیا، حافظ ابن صلاح (۶۴۳ھ) لکھتے ہیں: "وَھٰکذا فعل ابوداؤد السجستانی وذلک دال علی انہم ذھبوا الی ان الجرح لایثبت الا اذا فسرسببہ"۔ (فتح الملہم:۱/۶۸) ترجمہ: ابوداؤد السجستانی نے بھی ایسا ہی کیا ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ محدثین اسی طرف گئے ہیں کہ جب تک سبب جرح کی تفصیل نہ کی جائے جرح ہرگز ثابت نہیں ہوتی۔ امام نوویؒ (۶۷۶ھ) لکھتے ہیں: "لایقبل الجرح الامفسراً مبین السبب"۔ (تقریب نووی:۲۰۲، مع التدریب) ترجمہ:جرح لائق قبول نہیں جب تک کہ اس کی تشریح واضح نہ ہو اور سبب جرح واضح نہ ہو۔ حافظ ابن ہمام الاسکندری (۸۶۱ھ) جن کے بارے میں فقہاء لکھتے ہیں کہ وہ اجتہاد کے درجہ پر پہنچے ہوئے تھے، لکھتے ہیں: "اکثرالفقہاء ..... ومنہم الحنفیۃ...... والمحدثین علی انہ لایقبل الجرح الامبینا لاالتعدیل"۔ (ردالمحتار:۳/) ترجمہ:اکثر فقہاء اور ان میں حنفیہ بھی ہیں اور محدثین سب اسی کے قائل ہیں کہ جرح جب تک واضح نہ ہو لائقِ قبول نہیں، تعدیل کے بارے میں یہ قید نہیں ہے۔ یہ صحیح ہے کہ تعدیل کے لیئے سبب کی ضرورت نہیں؛ لیکن یہ ضروری ہے کہ تعدیل کرنے والا کوئی عام آدمی نہ ہو، اس باب میں عالم معرفت رکھنے والا منصف اور ناصح قسم کا آدمی ہونا چاہیے، بحرالعلوم (۱۲۲۵ھ) مسلم الثبوت کی شرح میں رقم طراز ہیں: "لابد للمزكي أن يكون عدلا عارفا بأسباب الجرح والتعديل وأن يكون منصفا ناصحا"۔ (فواتح الرحموت بشرح مسلم الثبوت:۳/۳۲۸) ترجمہ: تزکیہ اور تعدیل کے مدعی کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ عادل ہو اسباب جرح وتعدیل کو جاننے والا ہو اور انصاف پسند اور خیرخواہ قسم کا آدمی ہو۔ حافظ بدرالدین العینی (۸۵۵ھ) شرح ہدایہ میں لکھتے ہیں: "الجرح المبھم غیرمقبول عند الحذاق من الاصولیین"۔ (البنایہ:) ترجمہ:جرح مبہم سمجھ دار علمائے اصول کے ہاں مقبول نہیں۔ یاد رہے کہ جرح کی وجوہ وہیں تلاش کی جائیں گی جہاں اس کے مقابلے میں کوئی تعدیل موجود ہو لیکن جس راوی کے بارے میں کوئی تعدیل نہ ملے تواس کے بارے میں جرح مبہم بھی قبول کرلی جائے گی اور جارح سے سبب کا مطالبہ نہ کیا جائے گا، حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: "اذااختلف العلماء في جرح رجل وتعديله فالصواب التفصيل فان كان الجرح والحالة هذه مفسرا قبل والاعمل بالتعديل فاما من جهل ولم يعلم فيه سوى قول امام من ائمة الحديث انه ضعيف اومتروك ونحو ذلك فان القول قوله ولانطالبه بتفسير ذلك"۔ (الرفع والتكميل في الجرح والتعديل:۱/۱۱۹، شاملہ،المؤلف:أبوالحسنات محمدعبدالحي اللكنوي الهندي،الناشر:مكتب المطبوعات الإسلامية،حلب) ترجمہ: علماء جب کسی شخص کی جرح وتعدیل کے بارے میں مختلف رائے رکھتے ہوں توصحیح راہ یہ ہوگی کہ اس کی تفصیل کی جائے؛ اگرجرح کی وجہ معلوم ہوتواسے قبول کیا جائے گا بصورتِ دیگر تعدیل پر عمل ہوگا، ہاں جوراوی مجہول ہو اور اس کے بارے میں کسی امام حدیث کے اس قول کے سوا کہ وہ ضیعف ہے یامتروک ہے یااسی قسم کا اور کوئی لفظ ہو کوئی اور بات معلوم نہ ہو تو اس امام حدیث کی بات لائق تسلیم ہوگی اور ہم اس سے وجہ جرح کا مطالبہ نہ کریں گے۔ حافظ ابن عبدالبر مالکیؒ ابوعبداللہ المروزی سے نقل کرتے ہیں: ترجمہ: ہرشخص جس کی عدالت اہل علم کے اس سے روایت لینے سے ثابت ہو اور وہ اس سے حدیث روایت کرتے ہوں تواس کے بارے میں کسی کی جرح قبول نہ کی جائے گی جب تک کہ یہ ثابت نہ ہو جائے کہ اس کی وجہ جرح مخفی رہی تھی، صرف یہ کہنا کہ فلاں شخص کذاب ہے تواس سے جرح ثابت نہیں ہوتی، جب تک کہ دعویٰ جرح واضح نہ ہو۔ (التمہید:۳/۳۳،۳۴)