انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** عیسائی فوج کے شکست کے اسباب خلاصہ کلام یہ کہ عیسائی لشکر کو شکست اور قلیل التعدادمسلمانو ں کو فتح مبین حاصل ہوئی ،عیسائیوں کی اس شکست فاش کا سبب عیسائی لشکر کی بزدلی نہیں سمجھنا چاہیے؛بلکہ مسلمانوں کی غیر معمولی اور حیرت انگیز بہادری وجفا کشی اصل سبب تھا اگر عیسائی لشکر کی بزذلی اس شکست کا سبب ہوتا تو بڑے بڑے سردار ،شہزادے اور پادری کثیرالتعدادمقتولوں کی لاشوں میں شامل نظر نہ آتے ، ہنگامۂ جنگ کا ختم ہونے کے بعد تمام میدان جنگ لاشوں سے پٹا پڑا تھا،عیسائی مقتولوں کی صحیح تعداد تو نہیں بتائی جاسکتی، لیکن یہ ضرور ہوا کہ اس لڑائی کے ختم ہوتے ہی تمام اسلامی لشکر جس کے پاس کوئی گھوڑا نہ تھا سواروں کے رسالوں کی شکل میں تبدیل ہوگیا تھا ،یہ گھوڑے جو تمام مسلمانوں کے لیے کافی تھے انہی عیسائی سواروں کے تھے جو میدان جنگ میں مسلمانوں کے ہاتھوں مقتول ہوئے ، اگر یہ سوار چاہتے تو مقتول ہونے سے پیشتر فرار ہوسکتے تھے ایک ہفتہ تک میدان جنگ میں مسلمانوں کی قلت تعداد عیسائی لشکر سے پوشیدہ نہ تھی اس عرصہ میں عیسائیوں کو ہر قسم کاس امان بھی پہنچ رہا تھا ان کی تعداد بھی ترقی کررہی تھی لیکن مسلمانوں کی حالت اس اجنبی ملک میں اس کے بالکل برخلاف تھی عیسائیوں کی ہمتوں اور حوصلوں میں یقیناً مسلمانوں کی قلت تعداد نے اضافہ کیا ہوگا یہ لڑائی صبح سے شام تک جاری رہی تھی اس عرصہ میں طرفین کو اپنے حوصلے پورے کرنے اور پورا پورا زور صرف کردینے کا بخوبی موقعہ ملا تھا مگر نتیجہ نے بتادیا کہ جس طرح مسلمانوں نے آٹھ گنی تعداد کے دشمنوں کو نیچا دکھایا اسی طرح دس گنی تعداد کو بھی شکست فاش دے سکتے ہیں: إِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ وَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ يَغْلِبُوا أَلْفًا مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَا يَفْقَهُونَ (الانفال:۶۵) ہسپانیہ کی گاتھ سلطنت ایک طرف فرانس اور دوسری طرف اٹلی کی رومی سلطنت کو جنگ آزمائی میں نیچا دکھاتی رہتی تھی بر اعظم یورپ پر اس کا رعب طاری تھا ہسپانیہ کے سپہ سالاروں نے ہمیشہ میدانوں میں بہادری وفتح مندی کے گھوڑے دوڑائے تھے لیکن غازیان اسلام کے مقابلہ میں وہ اسی طرح مغلوب وکمزور ثابت ہوئے جس طرح یرموک کے میدان میں ان کے ہم مذہب قلیل التعداد مسلمانوں سے شکست یاب ہوکر مفرور یا مغلوب ہوئے تھے۔ مسلمانوں کو یہ فتح مبین ۵شوال ۹۲ھ مطابق ۷۱۱ء میں حاصل ہوئی اسی تاریخ سے اندلس میں اسلامی حکومت کی ابتداء سمجھنے چاہیے طارق نے اسی روز فتح کی خوشخبری پہنچانے کے لیے امیرموسی بن نصیر کے پاس قاصد روانہ کیا اور خود لشکر اسلام جے دستوں کو ارد گرد روانہ کرکے شوبہ اندلسیہ کی فتح کے مکمل کرنے میں مصروف ہوا موسی بن نصیر اسی فتح عظیم کا حال سن کر بہت خوش ہوا اور خلیفہ کی خدمت میں بشارت نامہ دمشق کی جانب بھیج کر خود اندلس کی جانب روانہ ہونے کا تہیہ کرلیا ایک خط طارق بن زیاد کے نام روانہ کیا کہ تم جس قدر حصہ ملک کا فتح کرچکے ہو اسی پر قابض رہو اور پیش قدمی ترک کردو اس کے بعد موسی بن نصیر اٹھارہ ہزار کا لشکر لے کر قیروان سے روانہ ہوا قیروان میں اپنی جگہ اپنے بیٹے کو حاکم مقرر کیا جب امیر موسی کا خط طارق کے پاس پہنچا ہے تو وہ جزیرہ نما کا جنوبی صوبہ یعنی اندلیسہ فتح کرچکا تھا لیکن جزیرے نما کے بڑے بڑے مرکزی شہرش اور دارالحکومت طلیطلہ عیسائی افواج کی چھاؤنیاں بنے ہوئے تھے اور اندیشہ تھا کہ عیسائی سردار متحد ہوکر اپنی طاقت سے طارق پر حملہ آور ہونے والے ہیں طارق کے لیے سب سے زیادہ ضروری کام یہ تھا کہ وہ بلا تامل شمال کی جانب پیش قدمی کرے اور یکے بعد دیگرے شہروں کو فتح کرکے اس کے رعب وہیبت کو جنگ وادی لکتہ کے بعد عیسائیوں کے دلوں پر طاری ہے کم نہ ہونے دے طارق نے سرداران لشکر کو جمر کیا امیر موسی کا حکم سنایا سنب نے یہی رائے دی کہ اگر امیر موسی بن نصیر کے اس حکم کی تعمیل کی گئی تو اندیشہ ہے کہ عیسائی ہر طرف سے حملہ آور ہوکر فتح اندلس کے کام کو بے حد دشوار نہ بنادیں کونٹ جولین بھی طارق کے ہمراہ موجود تھا اس نہ بھی یہی مشورہ دیا کہ اس وقت ملک کے فتح کرنے میں تامل نہ کیا جائے ورنہ پھر کام دشوار ہوجائےگا۔